بیٹی بچاو ، بیٹی پڑھاو کا نعرہ دینے والوںکی بیٹیاں خود ظلم کا شکار

بیٹی بچاو ، بیٹی پڑھاو کا نعرہ دینے والوںکی بیٹیاں خود ظلم کا شکار
بھاجپا ایم ایل اے گگن بھگت کی اہلیہ بچوں سمیت انصاف کے لئے میڈیا کے سامنے آئی
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو کا نعرہ دینے والی بھارتیہ جنتا پارٹی عملی طور اس پر کتنی عمل پیرا ہے اس کا اندازہ بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ اپنے پریوار یعنی پارٹی سے وابستہ خواتین ظلم وتشدد کا شکار ہیں جنہیں انصاف کے لئے میڈیا کاسہارا لینا پڑ رہاہے۔ضلع سانبہ کے اسمبلی حلقہ آر ایس پورہ سے بھاجپا ایم ایل اے ڈاکٹر گگن بھگت جوکہ پچھلے کئی دنوں سے ایک لڑکی کو دیش بھگت یونیورسٹی پنجاب سے اغواکر کے لیجانے کی وجہ سے سُرخیوں میں ہیں، کی اہلیہ جوکہ خود بھارتیہ جنتا پارٹی مہلا مورچہ کی ریاستی سیکریٹری ہیں، نے اپنے دوبچوں12سالہ بیٹے اور 4سالہ بیٹی کے ہمراہ جمعہ کے روز یہاں گاندھی نگر جموں میں ایم ایل اے کی سرکاری رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے خاوند پر ذہنی وجذباتی طور پر خاوند پر زیادتی کا شکار بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے پارٹی ہائی کمان سے انصاف کی اپیل کی۔ایم ایل اے آر ایس پورہ کی اہلیہ مونیگا بھگت نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیاکہ لڑکی کے ساتھ ان کے خاوند ڈاکٹر گگن کے تعلقات سے متعلق کافی عرصہ سے خبریں چل رہی ہیں، لیکن انہوں نے ان پر کان دھرے بغیر اپنے بچوں کے بہترمستقبل اور اپنے گھر کو بچانے کے لئے آج تک صبرو تحمل سے کام لیا، میڈیا کے سامنے یا کسی دوسری قانونی چارہ جوئی کرنے سے خود کو روکے رکھا، اِس اُمید کے ساتھ کہ ایک دن ان کے خاوند سدھرجائیں گے لیکن اب حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ انہیں مجبوراًانصاف کے لئے میڈیا کے سامنے آنا پڑا۔انہوں نے بتایاکہ گذشتہ برس ستمبرماہ میں بھی اسی بات پر ایم ایل اے ہوسٹل میں ڈاکٹر بھگت نے ان سے لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ کیاتھا ۔انہوں نے بتایا”میں نے اپنے خاوند سے کئی بار کہاکہ آپ ایسا مت کرو¿، وہ مجھے کہتے کہ لڑکی مجھ پر ریپ کا کیس ڈال دے گی، میں کوشش کررہاہوں کہ اس کو داخلہ دلاکر چھٹکارا حاصل کرو¿، آپ میرا ساتھ دو، بیوی ہونے کے ناطے میں نے انہیں ہرممکن تعاون کا یقین دلایا، میں نے خود لڑکی کے گھروالوں سے بات بھی کی، میری ساسوں ماں بھی از خود لڑکی والوں کے گھر گئی انہیں سمجھایا،لیکن میرے خاوند مجھ سے جھوٹ بھول کر مجھے چپ کراتے جبکہ لڑکی کےساتھ ان کے تعلقات دن بدن گہرے ہی ہوتے گئے۔انہوں نے کہا”میری ڈاکٹر گگن سے شادی کو13سال ہوگئے، یہ حیران کن ہے کہ ایک لڑکی جوکہ ابھی بالغ ہوئی ہے، نے انہیں کنٹرول کر کے رکھا ہے“۔مونیکا بھگت نے بتایاکہ ”ستمبر2017سے وہ اپنے خاوند سے الگ رہ رہی ہے، اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ میرے پتی لڑکی کے ساتھ جموں کے ایک Slum Areaمیں رہ رہے ہیں جہاں پر میںنے چھاپہ مارا لیکن لڑکی وہاں سے فرار ہوگئی البتہ اُس کا فون مجھے مل گیا ، جس میں سے مجھے کچھ ایسے سراغ اور پختہ ثبوت ہاتھ لگے کہ اس کے بعد میرا دل بالکل ٹوٹ گیا، موبائل فون میں قابل اعتراض حالت میں بنائی گئی ویڈیوز اور فحاش تصاویر یں تھیں جن سے دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ دونوں نے شادی کی ہوئی ہے“۔انہوں نے لڑکی کے ساتھ اپنے خاوند کی فحاش تصاویردکھاتے ہوئے کہاکہ انہیں دیکھ کر تو لگتا ہے کہ دونوں نے شادی کی ہے، اگر ایسا نہیں تو پھر ایک کنواری لڑکی کیسے شادی کا جوڑا پہن سکتا ہے؟۔انہوں نے بتایاکہ ڈاکٹر گگن بھگت ان کے ساتھ نہیں رہتے تھے، ان کے لئے بچوں اور خود کے کھانے پینے اور پڑھائی کے اخراجات کا انتظام کرنا مشکل تھا جس کے لئے انہوں نے نان نفقہ”Maintenaince“کے لئے عدالت میں عرضی دائر کی تاہم ڈاکٹر بھگت نے مان لیا کہ وہ بچوں اور بیوی کے اخراجات کے لئے ماہانہ لاکھ روپے دیں گے ، یہ متفقہ فیصلہ اپریل 2018میں ہوا تھا۔انہوں نے کہاکہ گذشتہ روز گگن بھگت جب بی جے پی انضباطی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے یہ بات کہی کہ میرے ساتھ ان کا طلاق کا معاملہ چل رہا ہے جوکہ بے بنیاد ہے، ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔انہوں نے کہاکہ مجھے اور میرے اہل خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور یہ کہا جارہاہے کہ گاڑی حادثہ میں بھی آپ کی موت ہوسکتی ہے۔مونیکابھگت نے کہاکہ بھاجپا مہلا مورچہ کی لیڈر اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے اپنے گھر کو بچانے اور خاوند کی عزت کے تحفظ کے لئے جتنا ہوسکتا تھاانہوں نے کیا مگر اب پانی سر سے اوپر چڑھ گیا ہے، اس لئے مجبوراًپریس کے سامنے آنا پڑا، جوغلط ہے اس کی مذمت کرتی ہوں۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت ’تین لڑکیوں کی زندگی کا سوال ہے، میرا، میری بیٹی اور جس لڑکی کے ساتھ میرے خاوند نے تعلقا ت قائم کئے ہیں‘۔انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی، صدر امت شاہ سے گگن بھگت کے خلاف کارروائی کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ ”مجھے بھاجپا قیادت پر پورا بھروسہ ہے، وہ جو بھی فیصلہ کرے گی بہتر ہو لیکن ایک بات کہنا چاہوں کہ ایسی کوئی کارروائی ضروری ہے تاکہ لوگوں میں اعتماد بحال ہو، اگر ایک منتخب لیڈر ایسا کرے گا تو پھر عوام لوگ کس طرح اس جماعت پر بھروسہ کریں۔یہ پوچھے جانے پر کہ ان کا میڈیا کے سامنے آنا کہیں حزب اختلاف کی چال ہے، کے جواب میں مونیکا نے کہاکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ آج بی جے پی میں نہ ہوتیں، وہ بھاجپا کا حصہ ہیں، سیکریٹری ہیں اور پارٹی قیادت پر انہیں پورا بھروسہ ہے۔