’محبوبہ مفتی قیادت والی حکومت وہابی، سلفی، شدت پسند اور اسلام پسند تھی‘

جموں خطہ کومسلم اکثریت میں تبدیل کرنے کی سازش، گورنر 14فروری کو جاری احکامات واپس لیں
’محبوبہ مفتی قیادت والی حکومت وہابی، سلفی، شدت پسند اور اسلام پسند تھی‘
کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی کا قتل وعصمت دری نہیں ہوئی تھی، نعش کو پلانٹ کیاگیا، معاملہ کی سی بی آئی انکوائری کرائی جائے: انکور شرما
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//کٹھوعہ کی تحصیل ہیرا نگر کے گاو¿ں رسانہ میں جنوری2018کوآٹھ سالہ بچی کی عصمت دری وقتل معاملہ جس کی گونج عالمی سطح تک سنائی دی، میں ملزمین کے مقدمہ کی عدالت میں پیروی کر رہے ایک وکیل نے ایکبار پھر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے متنازعہ بیان دیا ہے۔انہوں نے کہاکہ رسانہ میں آٹھ سالہ بچی کے ساتھ ریپ اور قتل نہیں ہوا تھابلکہ وہاں نعش کو پلانٹ کیاگیا جس میں مبینہ طور جہادی تنظیمیں ملوث ہیں،نعش کو پلانٹ کرنے کا مقصد رسانہ کے ہندوو¿ں کو کمزور کرکے وہاں کی جنگلی اراضی پر قبضہ جمانا تھا۔ انہوں نے محبوبہ مفتی قیاد ت والی سابقہ حکومت کووہابی، سلفی، شدت پسند اور اسلام پسندقرار دیتے ہوئے کہاکہ موصوفہ نے جموں صوبہ میں مسلمانوں کی آبادی بڑھانے کے لئے 14فروری 2018کوہدایات جاری کیں جس کے تحت گوجر بکروال طبقہ کے لوگوں کو مبینہ طور جنگلات وسرکاری اراضی پر قبضہ کرنے اور گاو¿ کشی کی چھوٹ دی گئی۔ایڈووکیٹ انکور شرما نے گورنر این این ووہرا سے فوری طور پر 14فروری 2018کو جاری احکامات کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس بات پرزور دیاکہ رسانہ معاملہ کی سی بی آئی سے جانچ کرائی جائے۔ یہاں جموں میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں وکیل انکور شرما نے محبوبہ مفتی کی قیادت والی سابقہ مخلوط حکومت کے گرنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک وہابی، سلفی، شدت پسند اور اسلام پسند حکومت تھی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مفتی نہ صرف جنگجو تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں بلکہ وہ ان تنظیموں کے تئیں ہمدردی بھی رکھتی ہیں۔ انکور شرما جنہوں نے کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس سامنے آنے کے دن سے اب تک مسلمانوں کے خلاف متعدد متنازع بیانات دیے ہیں، نے عصمت دری کے اس کیس کو سی بی آئی کے حوالے کرنے اور 14 فروری کو منعقد ہوئی محکمہ قبائلی امور کی ایک میٹنگ کے ’منٹس‘ (جس میںیہ ہدایات دی گئی تھیں کہ جموں وکشمیر ریاست میں فارسٹ ایکٹ لاگو ہونے تک گوجر بکروال طبقہ کے لوگ اگر کہیں پر جنگلی اراضی پر رہ رہے ہیں، انہیں چھیڑا نہ جائے، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے، اگر کسی جگہ سے انہیں ہٹانا ضروری ہے تو اس کے لئے پہلے قبائلی وزارت سے صلاح ومشورہ کیاجائے )کو واپس لینے کا گورنر سے مطالبہ کیا۔انکور شرما نے کہا ’رسانہ کا کیس جان بوچھ کر سی بی آئی کے حوالے نہیں کیا گیا، آج پوری ذمہ داری کے ساتھ اور معقول انفارمیشن و شواہد کی بناءپر میں آپ کے سامنے یہ کہہ رہا ہوں کہ رسانہ میں جو مبینہ ریپ اور قتل ہوا ہے، یہ ایک جہادی قتل ہے۔ وہاں پر باڈی کو پلانٹ کیاگیا، یہ کسی ایجنسی کے ذریعہ کیا گیا۔ یہ کام کسی جنگجو تنظیم کے ذریعہ انجام دیا گیا، وہ کشمیر کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں“۔انہوں نے کہاکہ محبوبہ مفتی کے بارے میں راءجیسی خفیہ ایجنسی نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی آئینی پوزیشن کو سنبھالنے کے لئے فٹ نہیں کیونکہ اس کے نہ صرف جنگجو تنظیموں کے ساتھ رابطے ہیں بلکہ وہ ان تنظیموں کے تئیں ہمدردی بھی رکھتی ہیں‘۔انہوں نے کہا ’گورنر صاحب کو رپورٹ منگواکر رسانہ کیس کی انکوائری سی بی آئی کو منتقلی کرنی چاہیے۔ رسانہ ایک چھوٹا سا گاو¿ں ہے جس میں صرف 13 گھر ہیں، جہادی طاقتوں نے اس گاو¿ں کو اس لئے چنا کیونکہ اس کے آس پاس 250 سے لیکر 300 ایکڑ کا جنگل ہے، اس گاو¿ں سے ایک نالہ گذرتا ہے جو پاکستان کی طرف بہتا ہے، وہ دراندازی کا ایک روٹ بھی ہے“۔انکور شرما نے محبوبہ مفتی قیادت والی سابقہ حکومت کو جنگجو، وہابی، سلفی، شدت پسند اور اسلام پسند قرار دیتے ہوئے کہاکہ سرکار نے جموں کے سب سے مضبوط ہندو بیلٹ ہیرا نگر میں بٹھنڈی (جہاں مسلمان خاصی تعداد میں رہائش پذیر ہیں)جیسی آبادی قائم کرنے اور وہاں کے جنگلوں پر قبضہ کرنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں‘۔انکر شرما نے کہا کہ رسانہ کیس میں جہادی تنظیمیں ملوث ہیں،رسانہ کیس کی سی بی آئی انکوائری اس لئے ضروری ہے کیونکہ اس میں ایجنسیاں اور جہادی طاقتیں شامل ہیں۔ مقصد یہی ہے کہ رسانہ کے لوگوں (ہندوو¿ں) کو کمزور کرکے وہاں کے جنگلوں پر قبضہ کیا جائے۔ نالے پر قبضہ کیا گیا ہے تاکہ دراندازی کرائی جائے‘۔انہوں نے کہا ’وہاں (رسانہ کیس میں) بے گناہوں کو پھنسایا گیا ہے۔ تحقیقاتی ایجنسی (کرائم برانچ) آج بھی برابر مداخلت کررہی ہیں۔ وہ ٹرائل کو صحیح طریقے سے آگے بڑھانے نہیں دے رہی ہیں‘۔ انکور شرما نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ’اگر کیس کی انکوائری سی بی آئی کے حوالے نہیں کی گئی تو لوگ ایک بار پھر سڑکوں پر آسکتے ہیں‘۔ ایڈوکیٹ شرما نے محبوبہ مفتی کی حکومت گرنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’جموں وکشمیر میں اب گورنر راج نافذ ہوچکا ہے۔ ہمیں یہ کہتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ یہاں پر جو وہابی، سلفی، شدت پسند اور اسلام پسند سرکار چل رہی تھی اس کا خاتمہ ہوا۔ مخلوط حکومت کی اکائی (بی جے پی) حکومت سے الگ ہونے پر مجبور ہوئی۔ ہم اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں‘۔انہوں نے کہا ’جو 7 مارچ کو ہم نے محبوبہ مفتی کا انتہائی خفیہ ڈاکیومنٹ ہم پبلک ڈومین میں لائے تھے، ہم گورنر صاحب کو ایک مکتوب لکھ کر ا±ن سے گذارش کریں گے کہ وہ 14 فروری 2018 کے احکامات جس میں ایک مخصوص طبقہ کو گائیں ہلاک کرنے کے لئے، گائیں ذبح کرنے کے لئے، مویشیوں کو اسمگل کرنے کے لئے اور ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کو زمین ہڑپنے کے لئے قانونی جوازیت دی گئی تھی، ان احکامات کو واپس لیا جائے۔ انکور شرما نے انکشاف کیا”مجھے سرکاری عہدیداروں سے معلوم ہے کہ ان احکامات کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے“۔انکر شرما نے کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس سامنے آنے کے دن سے اب تک متعدد متنازع بیانات دیے ہیں۔ انہوں نے اپریل میں جموں میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جموں کے ہندو¿ں سے کہا تھا کہ وہ اپنی زمین اور دیگر املاک مسلمانوں کو فروخت نہ کریں اور مسلمان گوجر بکروالوں کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ان سے دودھ اور اس سے بننے والی اشیاءخریدنا بند کریں۔انہوں نے متنازعہ بیان میں یہ بھی کہاتھاکہ جموں میں ڈیموگرافی کی تبدیلی کے خلاف مقامی لوگوں کے اندر ناراضگی پیدا ہورہی تھی اور اس ناراضگی کو ختم کرنے کے لئے آٹھ سالہ کمسن بچی کو مہرہ بنایا گیا۔انہوں نے یہ بھی الزام لگایاگیاتھاکہ جموں کی ہندو اکثریتی شناخت کو ختم کرنے کے لئے مختلف اسلامی تنظیمیں جموں میں مسلمانوں کو جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں زمین خریدنے کے لئے پیسے دیتی ہیں۔ ان کا اشارہ ظاہری طور پر جموں میں زمین خریدنے والے کشمیریوں کی طرف تھا۔واضح رہے کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاو¿ں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری کو ا±س وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی نعش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولس نے اپریل میں واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا جن کے خلاف اس وقت پنجاب کی پٹھانکوٹ عدالت میں ٹرائل جاری ہے۔