معروف اردوفکشن نگار آنند لہرکا انتقال

معروف اردوفکشن نگار آنند لہرکا انتقال
علمی، ادبی اور قانونی حلقوں میں صف ِ ماتم
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے سنیئر وکیل اور معروف اردو ادیب شام سندر لہرطویل علالت کے بعد کل شب انتقال کرگئے۔22جون2016کو آنند لہر سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک مقدمہ کی سماعت کر رہے تھے کہ اچانک انہیں Stroke کا حملہ ہوا جس سے ان کے جسم کا دایاں حصہ فالج زدہ ہوگیاتھا جس کی وجہ سے وہ نہ تو بول سکتے ہیں اور نہ کچھ لکھنے کی پوزیشن میں ہیں۔ تب سے موصوف کی فیزیوتھراپی چل رہی تھی۔اہل خانہ کے مطابق 6دسمبر کو صبح1:30بجے آنند لہر نے آخری سانس لی۔ان کی آخری رسومات بعد دوپہر3بجے شمشان گھاٹ جوگی گیٹ جموں میں ادا کی گئیں۔ پسماندگان میں آنند لہر کی اہلیہ، ان کا بیٹا،بہو اور ایک دو سال کا پوتاہے۔لہر کے ایک جواں سال بیٹے کا پہلے ہی انتقال ہوگیاتھا۔آخری رسومات میں زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی کئی نامی گرامی شخصیات سمیت ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ بڑی تعداد میں وکلاءبرادری اور ادیب وشعراءاشکبار نظر آئے۔ آنند لہر کی وفات پر بطور سوگ جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے جمعرات کو ہائی کورٹ، ماتحت عدلیہ اور دیگر عدالتوں میں کام کاج معطل رکھا۔ بطور قانون دان، دانشور، ادیب، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگاراور پروڈیوسرکے طور پر نہ صرف ریاست جموںوکشمیر بلکہ بیرون ریاست میں مقبولیت حاصل کرنے والے آنند لہرکا جنم 2جولائی1949کو سرحدی ضلع پونچھ میں بلراج آنند کے ہاںہواتھا۔ ابتدائی تعلیمی پونچھ سے ہی حاصل کی ۔گورنمنٹ ڈگری کالج پونچھ سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد، انہوں نے جموں یونیورسٹی سے بی اے اردو اور ایل ایل بی کی ڈگری کی۔ دوران تعلیم وہ پونچھ کالج میں کالج سیکریٹری رہے اور ادبی وثقافتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے کالج کی بیرون ریاست مباحثوں، تقرری وتحریری مقابلوں میں نمائندگی کی اور کئی انعامات جیتے۔ جموں میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے دوران انہوں نے ’بزمِ ادب‘بنائی اور شعبہ قانون کی سہ نصابی مقابلوں میں اندرون وبیرون ریاست نمائندگی کی۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بطور پیشہ انہوں نے وکالت کا انتخاب کیا۔ وکالت پیشہ میں وہ یونین آف انڈیا کے کونسل بھی رہے ۔ ہائی کورٹ جموں وکشمیر اور عدالتِ عظمیٰ نے انہیں سال 1996میں سنیئر ایڈووکیٹ کا درجہ دیاتھا۔ وہ انجمن ترقی اردو ہند کے لیگل سیل اورجموں وکشمیر یونیورسٹیوں کی طرف سے وہ اردوزبان کے فروغ سے متعلق کمیٹی کے ممبر رہے وہ حلقہ فکروفن کے بانی ممبر بھی رہے۔ ذرائع کے مطابق مجموعی طور انہوں نے 13کتابیں تحریر کی ہیں جس میں انحراف (افسانوی مجموعہ)، نروان(ڈراما)، تپسوی کون (ڈراما)، اگلی عید سے پہلے(ناول)، سرحد کے اس پار(ناول)، مجھ سے کہا ہوتا(ناول)، کورٹ مارشل(افسانوی مجموعہ)، سرحدیں(ڈراما)، یہی سچ ہے (ناول)، بٹوارہ(افسانہ) اور نام دیو ناول وغیرہ شامل ہیں۔سال2015میں انہوں نے جموں وکشمیر آئین کو اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ اردو زبان وادب کے تئیں خدمات کے اعتراف میں ایس ایس لہر کو اترپردیش اردو اکیڈمی ایوارڈ، راجستھان اردو اکیڈمی ایوارڈ، میر اکیڈمی لکھنو ایوارڈ، امریکن بائیبلوگرافیکل انسٹی چیوٹ کی طرف سے ’مین آف دی ایئر ایوارڈ‘، جموں وکشمیر اردو فورم ایوارڈ، نمی ڈوگری سنستھا، اردو پرفیشنل کورس آنر جموں یونیورسٹی، پردیش کلا کیندر چندی گڑھ ایوارڈ، ادھیان کلچرل نرائین ایوارڈ ۔ پوری(اڑیسہ)، لال لاجپت نرائین ایوارڈ جالندھر، ، میرٹھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے نوازا،، سوسائٹی سنستھا کاشی پور اترپردیش نے ساہتیہ سمن ایوارڈ، انٹرنیشنل راشٹریہ سمن سنستھا کاشی پور نے جموں رتن ایوارڈ، اکھیل بھارتیہ کلہ سمن پرشید، پہلا مہاراجہ پرتاپ سنگھ ایوارڈ، ہندوستانی کلچر بنارس سے بھی سرفراز کیاگیا۔ہندوپاک کی تقسیم کے سانحہ پر مبنی ڈرامہ بٹوارے پر صدر جمہوریہ نے انہیں50ہزار روپے کے انعام سے نوازاتھا۔ ان کے مطالبہ کو کئی زبانوں کو ترجمہ بھی کیاجاچکا ہے۔بطور پروڈیوسر انہوں نے نیلم ٹی وی پروڈکشن کے بینر تلے دور درشن وکاشیئر کے لئے سیریل’اگلی عید سے پہلے‘کی پانچھ قسطیں بنائیں، ڈی ڈی کاشیئر کے لئے سیریل ’تقسیم‘ کی پانچ قسطوں اور درشن کیندر جموں کے لئے 10قسطیں لکیں اس کے علاوہ متعدد ٹی وی سیریل کے لئے لکھا۔سال1975میں وہ آل انڈیا ریڈیو جموں(یوا وانی کے لئے )ایڈوائزری ممبر ، ریڈیو کشمیر جموں اور دوردشن جموں سے ان کے مختلف افسانے نشر کئے گئے۔ انہوں نے جموں کیندر کے لئے متعدد ڈرابے لکھے اور آل انڈیا ریڈیو اردو سروس نئی دہلی سے ان کی ٹاک نشر بھی ہوتی رہیں۔جموں یونیورسٹی، چوہدری چرن سنگھ یونیورسٹی اور گورونانک دیو یونیورسٹی امرتسر میں ان کے ادبی کام پر تحقیق، ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی ہوئی ہے۔ قانون اور اردو ادب سے متعلق انہوں نے کئی موقر اخبارات وجرائد میں مضامین بھی لکھے۔ متعدد سیاسی،سماجی اور ادبی شخصیات نے آنند لہر کی وفات پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیاہے۔ان کی وفات کو جموں وکشمیر میں ناول نگاری، فکشن نگاری کے ایک عہد کا خاتمہ قرار دیاجارہاہے۔آنند لہر نے اپنے افسانوی مجموعوں میں ہر موضوع پر نہایت ہی خوبصورتی سے روشنی ڈالی اور کبھی کبھی یہ سوچ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ وکالت جیسے پیشہ سے منسلک ہونے کے باوجود انہوں نے کس طرح سے ادب کے لئے اتنا وقت نکالا اور اتنے حساس موضوعات پر مفصل لکھا۔ وہ وکیل برائے نام کے نہیں تھے بلکہ ٹرائل کورٹ، ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک اپنی صلاحیتوں کا خوب لوہا بھی منوایا۔ادب اور اردو زبان سے ان کی محبت کا یہ انداز تھا کہ وقت کی زنجیر بھی ان کو قید نہیں کرسکی ۔سوشل میڈیا پر آنند لہر کی وفات کی زبردست تعزیت کی جارہی ہے۔ اسسٹنٹ پروفیسر عرفان عارف نے لہر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے….ان کےساتھ بنارس اور آلہ آباد اور دہلی، سرینگر، راجوری ، پونچھ اور جموں وغیرہ کے اسفار کیے ہیں،یہ شخص کس قدر متحرک، ادب نواز اور سخن شناس تھا کہ اس پر مختلف یونی ورسٹیوں میں پی ایچ ڈی اور ایم فل کرائی گئیں ہیں اور کہیں ہورہیں ہیں،درجنوں کتابوں کے مصنف اور بہت سے ایوارڈ اور اعزازات یافتہ آنند صاحب آج کل فالج کے مرض میں مبتلا تھے،آج کل انکے ذہن و دل اور جسم پر کوئی لہر کام نہیں کرتی تھی ،بہت کچھ کہنا چاہتے تھے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر افسوس کہ آنکھوں میں سوائے اشکوں کے کچھ اور نہیں آتا…….تھا….۔اردو کے نامامور شاعر بیتاب جے پوری نے تعزیت کرتے ہوئے کہاکہ آنند لہر ایک بڑی شخصیت کا نام تھا۔بیتاب کے مطابق ”لہر نے وکالت اور ادب جیسے پیشوں میں نمایاں کام کیا اور شہرت بھی حاصل کی۔پسماندہ ضلع پونچھ میں جنم لینے والے اس شخص نے اردو زبان و ادب کی ترویج وترقی کے لئے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں اور ساتھ ہی اردو زبان کے سیکولر کردار کو زندہ رکھنے میں اپنا نمایاں رول ادا کیا۔انہوں نے ہمیشہ انسانیت کی قدر کی، ان کی نظر میں غریب، امیر، سیاہ،سفید، ہندو¿ مسلم ، ذات برادری کوئی بھی معنی نہیں رکھتی بلکہ وہ ہرایک کے ساتھ دلی محبت، شفقت اور ہمدردی کرتے تھے۔