شہری ہلاکتوں کا معاملہ پارلیمنٹ میں اُٹھاؤں گا گولیاں نہیں بات چیت مسئلے کا حل

واقعہ کی غیر جانبدارانہ اور اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہئے: فاروق عبداللہ
امیر الدین زرگر
سرنکوٹ //صدرِ نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اپنے دو روزہ دورئہ پیرپنچال کے دوران حالیہ دنوں میں بفلیاز میں پیش آئے المناک واقعہ میں زخمی ہوئے شہریوں کی سرنکوٹ کے سرکاری ہسپتال میں عیادت کی اور واقعہ میں متاثرہ خاندانوں کیساتھ اظہارِ یکجہتی کیا ۔پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر میاں الطاف احمد نے پارٹی صوبائی یوتھ صدر اعجاز جان کے ہمراہ مہلوک شہریوں کے اہل خانہ کی تعزیت پُرسی کی اور ڈھارس بندھائی۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ہسپتال میں زخمیوں کو بہم پہنچائے جارہے علاج و معالجہ کے بارے میں ڈاکٹر صاحبان سے جانکاری بھی حاصل کی اور زخمیوں سے بات کرتے ہوئے اس دلخراش واقعہ کی تفصیلات جاننے کی بھی کوشش کی۔ انہوں نے اس موقعے پر واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک مہذب ملک میں ایسے واقعات کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ ،سریع الرفتار اور اعلیٰ سطحی تحقیقات چاہتے ہیں تاکہ خاطیوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ مستقبل میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر مبنی ایسے واقعات پر یکسر روک لگانے کیلئے ٹھوس اور کارگر اقدامات اٹھائے جائیں۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ میں یہ معاملہ پارلیمنٹ میں بھی اُجاگر کروں گا اور حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی پوری کوشش کروں گا تاکہ متاثرین کو انصاف فراہم ہوسکے۔اس موقع پر فاروق عبداللہ نے کہا’’یہ بے گناہ لوگ تھے ،اگر دہشت گرد آتے ہیں تو کہاں سے آتے ہیں ،اگر وہ آپ کے یا میرے گھر میں آتے ہیں تو سر پر بندوق رکھیں گے تو ہم کیا کر سکتے ہیں ،ہمارے پاس نہ کوئی ہتھیار ہے اور نہ کوئی بچانے والا ہے ۔پھر بھی آپ عام شہریوں کو مار مار کر اُن کی ٹانگیں توڑتے ہو ۔ان کے سروں پہ ڈنڈے مارتے ہو اور خون بہاتے ہو اور کئی لوگ زخمی ہیں ۔تین کو تو جان سے مار دیا ۔اس سے کیا ہم اپنا ملک مضبوط کر رہے ہیں ،جن لوگوں نے آج تک آتنگ واد کا ساتھ ہی نہیں دیا بلکہ آتنک واد کے خلاف بات کی پھر انہی پہ ظلم و ستم کیا جائے ،یہ ملک کے لیے خطرے کی بات ہے ‘‘۔ڈاکٹر فاروا عبداللہ نے مزید کہا’’ایک میجر جنرل نے یہ بات کہی کہ اگر عوام ہمارے خلاف ہو جائے گی تو ہم کوئی بھی جنگ جیت نہیں سکتے ۔اس بات پہ غور کرنا چاہیے کہ اگر عوام ساتھ ہے تو کوئی بھی جنگ جیت سکتے ہیں اگر عوام خلاف ہے تو کوئی بھی جنگ جیتنا مشکل ہے ،اس لیے عوام سے ہمدردی کیجئے اور عوام سے پیار کیجئے ،اس معاملے نے ریاست جموں کشمیر ہی نہیں بلکہ پورے ملک کوجھٹکا دیا ہے ۔دہشت گردوں کو آنے کیوں دیا جاتا ہے وہ ہمارے ملک میں آکر ہمارے فوجی جوانوں کو فوجی آفسروں کو پولیس آفیسروں کو گولی بارتے ہیں ۔میں 1989 سے لے کر آج تک اس طرح کے واقعات کی کی مذمت کرتا آیا ہوں انہوں نے کہا کہ گولیوں سے کبھی حل نہیں نکلا بلکہ بات چیت سے ہی حل نکلتا ۔ملک کے وزیراعظم نے خود کہا کہ لڑائی کا دور ختم ہو چکا ہے اب بات چیت کا دور ہے لیکن بات چیت کا دور اس لیے نہیں ہو رہا ہے ۔پاکستان میں ابھی الیکشن نہیں ہوئے ہیں جب وہاں کے الیکشن ہوں گے اور حکومت بنے گی اور یہاں بھی الیکشن ہوں گے اور مجھے پوری امید ہے کہ جو بھی یہاں پہ حکومت بنائے گا وہ پھر سے بات چیت کا دور شروع کرے گا انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں جانتا کہ کشمیر کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ کشمیر نے 1947 سے بھرپور ساتھ دیا ہے جس میں ہم سب برابر ہیں وہ چاہے مسلم ہو ہندو ہو سکھ ہو عیسائی ہو یا کرسچن ہو یا پھر دیگر طہقے ہوں لیکن آج جو ملک میں ہوا چل رہی ہے جس میں ایک ہی قوم کو ترجیح دی جاتی ہے اور دیگر قوموں کو پیچھے دھکیلا جاتا ہے یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہے ‘‘۔انہوں نے مزید کہا’’ہم کن قوتوں کے درمیان ہیں،ایک طرف پاکستان ہے وہ بھی ایٹمی طاقت ہے دوسری طرف ہندوستان ہے وہ بھی ایٹمی طاقت ہے اور چین ہماری سرحدوں کے اندر ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں تو ایسے میں اگر جنگ ہوگی تو کیا ہم بچیں گے کون بچے گا بم تو ہمارے اوپر گریں گے اس لیے ہم کہتے ہیں کہ بات چیت کریں اور بات چیت سے معاملے کا حل نکالیں اگر ملک کو برباد کرنا ہے تو پھر سوچیں‘‘۔