کشمیر کے نامور ادیب و صحافی غلام نبی خیال انتقال کر گئے،سیاسی ،سماجی اور ادبی تنظیموں نے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا

سری نگر// وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے نامور ادیب،صحافی، شاعر و قلمکار غلام نبی آزاد اتوار کی علی الصبح انتقال کر گئے۔ذرائع نے بتایا کہ انہوں نے راول پورہ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر آخری سانسیں لیں۔ ان کے پسماندگان میں 2 بیٹے ہیں جو دونوں بیرون ملک کام کرتے ہیں۔مرحوم خیال نے جہاں قومی و بین الاقوامی سطح کے صحافتی اداروں میں اپنی خدمات انجام دی ہیں وہیں انہوں انگریزی، اردو اور اپنی مادری زبان کشمیری میں زائد از 30 کتابیں تصنیف کی ہیں۔ان کی شاہکار کتاب ‘گاشک مینار’ کے اعزاز میں انہیں ایک با وقار قومی اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔انہیں سال 1975 میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا جس کو انہوں نے سال 2015 میں واپس کیا۔مرحوم خیال کے رشحات قلم میں سے عمر خیام کی رباعیات کے کشمیری ترجمے نے ان کی شہرت کو بام عروج پر پہنچایا۔انہیں اپنے آبائی مقبرہ واقع راول پورہ میں سپرد خاک کیا گیا اور ان کے تجہیز و تکفین میں مختلف شعبہ ہائے حیات بالخصوص علم و ادب سے وابستہ گراں قدر شخصیات کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔دریں اثنا غلام نبی خیال کے انتقال پر مختلف سیاسی، سماجی و ادبی تنظیموں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔جموں وکشمیر اپنی پارٹی کے صدر غلام نبی خیال نے ‘ایکس’ پر ایک پوسٹ میں غلام نبی خیال کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا: ‘نامور قلکار اور ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ غلام نبی آزاد کے انتقال پر صدمہ ہوا’۔انہوں نے کہا: ‘خیال صاحب نے اپنی تحریروں سے ادبی میدان میں انقلاب بر پا کیا جن میں سماج کے مختلف پہلوئوں کی عکاسی ہوتی ہے اور وقت کی کچھ ایسی حقیقتوں کو ظاہر کیا جو پوشیدہ تھیں’۔ان کا مزید کہنا تھا کہ خیال صاحب کے انتقال سے ادبی میدان میں ایک خلا پیدا ہوا جس کو پورا کرنے میں ہمیں کافی وقت درکار ہے۔ادھر کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ :’میں معروف دانشور ، شاعر اور ادیب غلام نبی خیال کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتا ہوں۔ غلام نبی خیال صاحب کو میں تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جانتا تھا۔انہوں نے کہا کہ وہ ایک حقیقی اسکالر تھے جنہوں نے کشمیری ، اردو اور انگریزی زبانوں میں نثر اور شاعری لکھی اور ان زبانوں میں ان کی خدمات کو کافی سراہا گیا۔مسٹر سوزکے مطابق دوسری چیزوں کے علاوہ، انہوں نے دنیا کے مشہور شاعر عمر خیام کی رباعیات کا کشمیری زبان میں ترجمہ کیاجس کو کافی سراہا گیا۔انگریزی زبان میں اپنے ہفتہ روزہ اخباروائس آف کشمیر ‘کے ذریعے انہوں نے مختلف سماجی اور سیاسی معاملات پر اپنی رائے ظاہر کی تھی جس کو عوامی حلقوں میں سراہا گیا تھا۔انہوں نے کہاکہ غلام نبی خیال کا انتقال نہ صرف اردو ، کشمیر اور انگریزی زبانوں کے ادیبوں کیلئے بڑا نقصان ہے بلکہ بذات خود کشمیری عوام کیلئے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ غلام نبی خیال کو اردو ،کشمیری اور انگریزی زبانوں میں اپنے خیالات اظہار کرنے کیلئے کافی دیر یاد رکھا جائے گا۔میں غلام نبی خیال کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں اور سوگوار خاندان کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ ‘‘علاوہ ازیں محفل بہار ادب شاہورہ پلوامہ کے صدر حمید اللہ شاہ حمید ،جنرل سیکرٹری رشید صدیقی اور عبدالرشید شاہوی نے وادی کے معروف ادیب،شاعر،ترجمہ نگار اور نامور صحافی غلام نبی خیال کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا ہے۔انہوں نے خیال کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کشمیری زبان و ادب کے تئیں ان کی گراں قدر خدمات کو سراہا ہے۔انہوں نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ خیال کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ادھر نگینی کلچرل فاونڈیشن کا ایک تعزیتی اجلاس چیرمین انجینئر بشیر شبنم کی صدارت میں منعقد ہوا جس خیال کے انتقال پرگہرے رنج وغم کا اظہارکیا گیا۔شاہورہ ویلفیر فورم کے شین حی شاہ نے غلام نبی خیال کے انتقال کو کشمیری ادب کیلئے ایک بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے تعزیت کا اظہار کیا۔یواین آئی