روشنی اسکیم گھوٹالہ کی آڑ میں مخصوص طبقہ اور مخصوص علاقہ جات نشانے پر

روشنی اسکیم گھوٹالہ کی آڑ میں مخصوص طبقہ اور مخصوص علاقہ جات نشانے پر
مسلمانان ِ جموں کے خلاف غلط بیانیے کو فروغ دیاجارہاہے
شرپسند عناصر کی بٹھنڈی، سنجواں میں حرکات قابل ِ مذمت، آپسی بھائی چارے اور پر امن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش :سول سوسائٹی
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//جموں آپسی بھائی چارہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا گہوارا رہا ہے لیکن ایک منظم اور منصوبہ بند طریقہ سے اِس ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں کشمیر سے 90کی دہائی میں نقل مکانی کر کے جموں میں آکر بسنے والے ایک مخصوص طبقہ کے لوگوں کا ہاتھ ہے جوکہ آج جموں میں انتظامیہ، سیاست ، کاروبار وتجارت حتی کہ ہر شعبہ میں اہم عہدوں پر بیٹھے ہیں۔ اِس طبقہ کے لوگ ایک خطرناک کھیل کھیل کر جموں میں پشستوں سے ایکساتھ رہ رہے ہندو، مسلم اور سکھ کو آپس میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں اہم پوزیشنیں اِسی طبقہ کے لوگوں نے حاصل کی ہیں، اِنہیں لوگوں نے پچھلے کچھ عرصہ سے جموںمسلمانوں کو بدنام کرنے کی منظم مہم شروع کر رکھی ہے اور روشنی اسکیم گھوٹالہ کے نام پر چیدہ چیدہ لوگوں کے نام میڈیا کے ذریعے ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اِن باتوں کا ذکر پریس کلب میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس کے دوران جموںسے مسلم طبقہ کے معزز ین اور سول سوسائٹی ممبران نے کیا۔ اس دوران سابقہ ڈپٹی کمشنر اخالد حسین اور ایڈووکیٹ شیخ شکیل احمد نے حالات کے پس ِ منظر کو حقائق اور اعدادوشمار کے ساتھ میڈیا کے سامنے رکھا۔ خالد حسین نے کہاکہ جموں میں رہائش پذیر مسلم طبقہ کے لوگوں پر ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کا الزام ہے، کشمیر سے لوگ جموں آکر بس رہے ہیں جوکہ سراسر جھوٹ ہے۔ انہوں نے کشمیر سے جموں میں آکر مکانات یا زمین خریدنے والے زیادہ سے زیادہ سو لوگ ہیں، باقی مسلمان جموں کے ہی ہیں، جوکہ پشستوں سے یہاں آباد ہیں۔انہوں نے کہاکہ اڑھائی لاکھ کے قریب ایک مخصوص طبقہ کے لوگ کشمیر سے جموں آئے جنہوں نے یہاں پر زندگی کے ہرشعبہ میں قبضہ ہے، وہ یہاں کا روزگار لے رہے ہیں، اُن کے خلاف کوئی نہیں بولتا ، بلکہ وہی لوگ ہیں جوکہ مختلف ذرائع کا استعمال کر کے جموں کے سادہ لوح ڈوگرہ کے ذہن میں یہ خوف وڈر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلم طبقہ ہی اُن کا دشمن ہے، اس لئے بٹھنڈی، سنجواں، سدھڑہ اور چاٹہ کو نشانہ بنایاجارہاہے۔ سنیئر وکیل شیخ شکیل نے کہاکہ انہوں نے بدقسمتی سے روشنی اسکیم متعلق جو مفاد عامہ عرضی(PIL)دائر کی گئی تھی اُس میں وہی وکیل تھے لیکن 9اکتوبر2020جب سے جموں وکشمیر ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا ہے، اِس کو الگ رنگ دیاجارہاہے اور یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش جارہی ہے صرف مسلم ہی اِس کے تحت زمین پرقابض ہیں۔ انہوں نے کہاکہ انہوں نے اپنی عرضی میں یہ کہاتھاکہ وہ لینڈ مافیا جنہوں نے روشنی ایکٹ کے تحت ایک ایک ہزار کنال ریگولر آئز ڈ کرائی ہے، سیاستدان، بیروکریٹس اور پولیس کے خلاف کارروائی کی جائے، انہوں نے کہیں یہ نہیں کہاکہ گوجر بکروال طبقہ یا اُن لوگوں جن کے پاس پانچ پانچ مرلے زمین ہے، کے خلاف بھی کارروائی شروع کر دی جائے۔ انہوں نے کہا”خالد صاحب نے جس طبقہ کا ذکر کیا، وہی لوگ ایک منظم طریقہ سے مسلمانوں کے خلاف بیانیہ کو فروغ دے رہے ہیں۔ سال 2013کو کیگ اپنی رپورٹ میں جموں ضلع کے 544نام بڑے نام ہیں جنہوں نے قبضہ کیا ہے لیکن اِس میں صرف ایک طبقہ کے نام کو چن چن کر میڈیا میں جاری کیاجارہاہے۔جموں میں امن کی فضاءکو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بٹھنڈی میں ایک مخصوص رہائش گاہ کے سامنے احتجاج کر کے وہاں پر حالات خراب کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سیاست کرنا اور احتجاج کرنا حق ہے لیکن اُس کے لئے جموں شہر میں پریس کلب، شیر کشمیر بھون، شہیدی چوک، ڈوگرہ چوک وغیرہ ہیں لیکن گنجان آبادی والے علاقہ بٹھنڈی اور سنجواں کو بدقسمتی سے اِس لئے نشانہ بنایاجارہا ہے کہ وہاں مسلم رہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی لیڈران کے خلاف بھی زمین ہڑپنے کے معاملات ہیں لیکن اُن کا ذکر نہیں ہورہا ۔ بھاجپا کے سنیئرلیڈر اور سابقہ نائب وزیرا علیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ نے نگروٹہ میں فوج کے اسلحہ وبارود ڈپو کے نزدیک رہائشی مکان تعمیر کیا ہے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، سابقہ کابینہ وزیر چندر پرکاش گنگا اور پارٹی سابقہ صدر اور وزیر ست شرما کے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہے ، مگر کوءکارروائی نہیں۔ کشمیری حکمرانوں پر جموں کے مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہاکہ 1974کے بعد جموں میں 13سے زائد کالونیوں کو ریگولر آئزڈ کیاگیا جن میں بخشی نگر، بھگوتی نگر، نانک نگر، راجیونگر، قاسم نگر وغیرہ بھی شامل ہیں لیکن بٹھنڈی اور سنجواں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیاگیا ۔ انہوں نے آپسی بھائی چارہ، ہم آہنگی کو بنائے رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ آگ سے کھیلنے کی کوشش نہ کی جائے جس سے نقصان سبھی کا ہوگا۔ انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر سے اپیل کی کہ ایک مخصوص طبقہ کے خلاف انہدامی اور انخلائی مہم بند کی جائے اور فارسٹ رائٹ ایکٹ کے تحت جو کمیٹیاںبنی ہیں وہ گوجر بکروال اور دیگر لوگ جو جنگلوں میں بودو باش رکھتے ہیں کے کلیم سیٹل کئے جائیں۔نفسیاتی خوف پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو حالات کو خراب کرنا چاہتے ہیں، پر کڑی نظر رکھی جائے۔ خیال رہے کہ 25نومبر2020کو چند سماج دشمن عناصر نے بھٹھنڈی میں جاکر احتجاج کیاتھا جس سے خطہ کے لوگ غیر محفوظ تصور کئے جارہے ہیں۔پریس کانفرنس میں تاجرجاوید اقبال ، سماجی کارکن عبدالمجید وکر، عبدالغنی ، حاجی نور حسین اور سرپنچ بٹھنڈی حفیظ اللہ بھی موجود تھے۔