عمر کی حد میں رعایت اور کے اے ایس کیڈر کا خاتمہ! جموں وکشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں غم وغصے کی لہر

عمر کی حد میں رعایت اور کے اے ایس کیڈر کا خاتمہ!
جموں وکشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں غم وغصے کی لہر
کئی سیاسی وسماجی تنظیمیں بھی چراغ پا،مرکزی حکومت کے فیصلے کو نا انصافی، زیادتی اور زخموں پر نمک پاشی کے مترادف قرار دیا
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//یونین پبلک سروس کمیشن کے تحت کل ہند سطح پر لئے جانے والے تقابلی امتحانات میں دی جانے والی 5برس کی رعایت اور کشمیر ایڈمنسٹریٹیو سروسز(KAS)کیڈر ختم کئے جانے پر جموں وکشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔بے روزگاری کی وجہ سے پہلے ہی ذہنی تناو¿ کا شکار نوجوانوں کو حکومت کے اِس فیصلہ سے زبردست دھچکا لگا ہے۔ اِن فیصلوں کے خلاف نوجوان طبقہ کے علاوہ کئی سیاسی، سماجی تنظیموں نے بھی سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اِس کو نوجوان کش پالیسی قرار دیا ہے۔ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر جوکہ دہائیوں سے غیریقینی حالات کا شکار ہے، میں ہمیشہ سے حکومت کی نوجوانوں کے خلاف پالیسی رہی ہے۔ آٹھ لاکھ سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان یہاں پر بے روزگار ہیں، جن کے لئے کوئی روزگار پالیسی بنانے کی بجائے ہمیشہ وقتاًفوقتاً ’انٹی یوتھ پالیسی‘ اپنائی گئی۔جموں یونیورسٹی کے اسکالر کمل سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ سراسر نا انصافی اور نوجوانوں کے ساتھ امتیازی پالیسی ہے۔ اُن کے مطابق جموں وکشمیر میں صورتحال بہت خراب رہی ہے، اِس وقت بھی سیاسی بحران ہے، ایسے حالات میں نوجوانوں کا ملکی سطح پر مقابلہ کرناممکن نہیں، اس لئے عارضی طور پر یو پی ایس امتحانات میں 5سالوں کی چھوٹ دی گئی تھی لیکن اُس کو ختم کیاگیا جوکہ آئین ِ ہند کے تحت ’Reasonable Classification‘کے زمرہ میں آتی ہے ، ایس آر او 202جوکہ آئین کی سریحاًخلاف ورزی ہے، میں تبدیلی لانے کا حکومت نے فیصلہ نہیں کیا، اُلٹا عارضی رعایت کو ختم کر کے مزید زخموں پر نمک چھڑکاگیا ہے۔ انہوں نے شمال مشرقی ریاستوں کو بہت ساری مراعات دی جارہی ہے جبکہ وہاں مزید رعایتوں کی مانگ کی جارہی ہے لیکن یہاں پر آئے روز نوجوانوں کے خلاف ہی پالیسیاں آر ہی ہیں۔وندنہ نامی یونیورسٹی طالبہ نے بتایاکہ جموں وکشمیر ملی ٹینسی، کرپشن اور بے روزگاری کے لئے مشہور تھی، جبکہ اب حکومت نے اِس میں ’نوجوانوں کی بے اختیاری‘کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کی نوجوان کشن پالیسیوں کے خلاف متحدہونے کی ضرورت ہے کہ آخر ایسا کیوں کیاجارہاہے۔ سوہل ملک نامی ایک یونیورسٹی اسکالر نے کہاکہ جموں وکشمیر ملی ٹینسی متاثرہ ریاست ہے، جہاں پر حالات اس قدر سنگین رہے ہیں کہ جس میں شعبہ تعلیم بہت زیادہ متاثر ہوا ہے، یہاں پر امن وقانون کی صورتحال کی وجہ سے کبھی وقت پر امتحانات نہیں ہوئے، اِس صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 90کی دہائی میں یوپی ایس امتحانات میں نوجوانوں کو پانچ سالوں کی عمر کی رعایت دی گئی تھی ، جس کو ختم کیاگیا۔ انہوں نے کہاکہ ملک کی دیگر ریاستوں میں نوجوان بائیس برس کی عمر میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری کر لیتا ہے جبکہ یہاں پر بمشکل 25تا26برس میں ڈگری ہوتی ہے کیونکہ امتحانات وقت پر نہیں ہوتے، یونیورسٹی، کالجز، بند رہتے ہیں، پیپروقت پر نہیں ہوتے۔ یہ مثبت فیصلہ تھا ،جس کو اب ختم کر کے نا انصافی کی گئی۔ نوجوانوں کا مزید کہناتھاکہ گورنر ستیہ پال ملک نے بلند وبانگ دعویٰ کیاکہ پچاس ہزار نوکریاں دی جائیں گیں ، وہ آئے چلے بھی گئے لیکن کچھ نہ ہوا۔ اب گریش چندر مرمو کہہ رہے ہیں چالیس ہزار نوکریاں دیں گے، سمجھ نہیں آرہا ہوکیا رہاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ا،س وقت جموں میں تیس سے چالیس پرائیویٹ لائبریریاں چل رہی ہیں جہاں پر نوجوان دن رات محنت کر رہے ہیں، جنہیں اُمید تھی کہ روزگار کے لئے حکومت کچھ کریگی، مگر اب پہلے سے ملی رعایت کو بھی ختم کر دیاگیا۔ کے اے ایس کیڈر ختم کر کے بڑی زیادتی کی گئی ہے۔سال 2013میں بڑے پیمانے پر ٹیچرز ودیگر تقرریاں ہوئی تھیں۔2015میں کشمیر اور جموں صوبہ کے چند اضلاع میں تقرریاں ہوئیں، اُس کے بعد کوئی بھی بھرتی عمل نہ لائی گئی ہے۔ نوجوان زہنی تناو¿ کا شکار ہیں، بہت سارے نشہ کے عادی بن رہے ہیں۔ نوجوانوں نے کہاکہ آج تک حکومت کو اِس بات پر Clarityنہیں کہ نوکریوں کے لئے سٹیٹ سبجیکٹ ضروری ہے یا نہیں، حکومت کو مکمل طور شرائط وضوابط کے ساتھ پالیسی وضع کرنی چاہئے۔ پی جی سکالر کارجسٹریشن کے نام پر مذاق بھی کیاگیا، ایس آر او 202کے تحت فاسٹ ٹریک بنیادوں پر بھرتی عمل کی بات کہی گئی لیکن 2015میں نائب تحصیلدار کی نوٹیفکیشن نکلی تھی، اُس کا سلیکشن عمل ابھی بھی ابتدائی مراحل میں ہی لٹکا پڑا ہے۔نیشنل سٹوڈنٹس یونین آف انڈیا(نسوئی)جموں وکشمیر کے صدر رقیق خان نے طنزیہ انداز میں کہاکہ ”جموں وکشمیر کے لوگوں کو مبارک ہو، دفعہ370ہٹنے کے بعد بی جے پی کی طرف سے جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو پہلاتحفہ، سول سروس کیڈر کا خاتمہ، بہت خوش تھے نہ #370ہٹانے پر“۔ ادھر جموں وکشمیر پردیش کانگریس کمیٹی نے مرکزی سرکار کے متذکرہ بالافیصلوں پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ یہ جموں وکشمیر یوٹی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ بدترین سلوک اور نا انصافی کے مترادف ہے۔ پارٹی ترجمان اعلیٰ راویندر شرما نے کہاکہ پرآشوب ماحول سے دو چار جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو سابقہ حکومتوں کی طرف سے عمر میں رعایت ایک اہم تحفہ تھا، جس سے انہیں ملک کے دیگر نوجوانوں سے مقابلہ کرنے میں مدد ملتی تھی، اب عمر میں رعایت ختم کرنے سے نوجوانوں کو بھاری نقصان ہوگا۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیاکہ DOPTمحکمہ جس نے یہ فرمان جاری کئے ہیں، اُس کے انچارج وزیر مملکت ڈاکٹر جتندر سنگھ کا تعلق جموں وکشمیر سے ہے، جنہوں نے اِس فیصلہ کا دفاع کرنے کے بجائے اِس کو ہٹانے میں ذاتی دلچسپی لی۔ بی جے پی پر جموں وکشمیر کے نوجوانوں کے خلاف پالیسیاں اپنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ یہ عارضی رعایتیں ملی ٹینسی متاثرہ جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو پروقار سروسز میں مواقعے فراہم کرنے لے تھا۔ انہوں نے کہاکہ اِس طرح کے نارواہ سلوک کو برداشت نہیں کیاجائےگا۔ دریں اثناءٹیم جموں نامی تنظیم نے بھی اِس فیصلے کی کڑے لفظوں میں مذمت کی ہے۔ تنظیم کے چیئرمین زورآور سنگھ جموال نے یہاں منعقدہ ایک میٹنگ میں کہاکہ یہ صوبہ جموں کے محب وطن نوجوانوں کے ساتھ بھدا مذاق ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مرکزی حکومت نے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اُن کے زخموںپر نمک پاشی کی ہے۔ انہوں نے انتباہ دیاکہ اگر فوری فیصلوں پر نظرثانی نہ کی گئی تو اِس کے بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ خیال رہے کہ گذشتہ روز حکومت نے باقاعدہ طور جموں وکشمیرسول سروسز کیڈر یعنی(کشمیر ایڈمنسٹریٹیو سروسز)ختم کر کے یہاں پر اروناچل پردیش گوا اور میزوروم یونین ٹیراٹریز(AGMUT)کیڈر کا نفاذ عمل میں لایا ۔ ساتھ ہی جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو یونین پبلک سروسزکمیشن کی طرف سے لئے جانے والے امتحانات میں دی جانے والی 5سال(Age Relaxation)کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ محکمہ پرسنل اینڈ ٹریننگ جس کے انچارج مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتندر سنگھ ہیں، کی طرف سے نوٹیفکیشن جاری کیاگیا۔ پانچ سال عمر کی رعایت سال 1990سے جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو دی جاتی تھی۔ یو پی ایس امتحانات میں حصہ لینے کے لئے عمر کی حد جنرل کٹاگری کے لئے 32سال، دیگر پسماندہ طبقہ جات کے لئے 35اور ایس ٹی کے لئے 37سال ہے جبکہ جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو تمام کٹاگریوں میں مزید پانچ سال کی چھوٹ دی جاتی تھی۔ سال 2016میں بھی عمر کی رعایت ختم کرنے کا فیصلہ کیاگیاتھا لیکن پی ڈی پی۔ بھاجپا حکومت کی مداخلت کے بعد اِس آرڈر کو واپس لے لیاگیاتھا۔