امت فریاد کس سے کرے؟

shahbaz

سوشل میڈیا پر ہمارے بہت سے مسلمان بھائی مسلمانوں پر جاری ظلم وتعذیب کے حوالے سے پوسٹس اور ویڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے فریادی بیانات کو شیر کروانے پر زور دیتے ہیں۔ ان تمام پوسٹس اور ویڈیوز میں ان کی فریاد کا رخ ظالموں کی طرف ہوتا ہے۔ مثلاً   بھارت کی موجودہ سرکار کی زیادتیوں کو ہدفِ تنقید بنا کر گویا کہ اس کے اعلانِ جمہوریت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ لیکن میں حیران ہوتا ہوں کہ ہم اس بات کو کیوں بھولتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے کھبی بھی بھارت کو ایک جمہوری ملک مانا  نہیں بلکہ اس کے برعکس ایک ہندوتو راشٹر بنانے کا راگ بڑے زور وشور کے ساتھ الاپا اور ہم ہیں کہ  کہتے تھکتے نہیں “یہی ہے جموریت”، “دنیا کی بڑی جمہوریت”، “جمہوریت شرمندہ” وغیرہ۔ بالکل بے بنیاد باتیں ہیں ہماری، ہمارے ان پُر شکوہ الفاظ کا آج کی ظالم دنیا پر کوئی بھی اثر پڑنے والا نہیں۔

 دنیا کے اکثرممالک کی باگ دوڑ بے حس، ظالم، جابر، بدکار اور بدمعاش لوگوں کے ہاتھ میں ہے جنہیں انسانیت کا کوئی بھی درد نہیں، وہ تو خالص عیاشی اور لذّت پرستی کی دنیا کے شوقین اور مسافر ہیں۔ ان کے سامنے فریاد لے کر جانا میں سمجھتا ہوں یہ ہماری غیرت و حمیّت کے منافی ہے۔ فریاد لے کر جائیں صرف اپنے پروردگار کے دربار میں جو ان ظالموں سے عنقریب نپٹ لے گا۔ اسی طرح سے فلسطین یا شام کے قتل عام کو لیں وہاں ہمارے سائلانہ تیر و تفنگ اقوامِ متحدہ کی طرف ہوتے ہیں۔  ہم خود اپنی پستی کو ان بین الاقوامی اداروں کے ذریعے globalize کرنا چاہتے ہیں۔

 ہمارے خود کے لوگ اس پستی کو مبالغہ آرائی کے ساتھ بیان کرکے انعام حاصل کرتے ہیں اپنا نام persons of the years کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ المختصر یہ کہ جو امت مسلمہ کو مفلس اور پست کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ہم ان کے ہی سامنے جاکر اپنی ذلت و پستی کی داستان بیان کرکے ان سے عدل و انصاف اور امت کے جملہ مسائل کا حل طلب کرتے ہیں۔ وہ تو پچھلی ایک صدی سے مسلمانوں پر حملہ آور ہو کر اسی وقت کی تلاش میں تھے کہ کب دنیا کو عدل دینے والے ہم سے عدل طلب کریں گے، کب دنیا کے لوگوں مسائل کو سلجھانے والے ہم سے اپنے مسائل کو سلجھانے کی بھیک مانگے گے اور کب ان(امت مسلمہ) کا احساسِ افتخار اسلام کے بدلے ہماری تہذیب کے نقالی میں ظاہر ہوگا۔ کیونکہ اس امت کی غیرت و حمیت کا خوف انہیں پچھلے چودہ سو سال سے پریشان کیے ہوئے تھا۔ بقول علامہ اقبال

ہے مجھکو خطر کوئی تو اس امت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے اب تک وہ شرارِ آرزو

اس آرزو کے بدلے ہماری آرزوئیں یہ ہے کہ ہم صرف مغرب کے اداروں میں جاکر ان کے غلام بنیں۔ ان کے مقاصد رزیلہ کی تکمیل میں best player بنیں۔

لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اقوامِ متحدہ ان عالمی قاتلوں کا نفسیاتی ہتھیار ہے جس کے ذریعے سے یہ عالمی قاتل مقتول قوم کو مفلوک الحال بنا کر پوری دنیا کے سامنے ان کی تباہی وبربادی کی ویڈیوز اورتصاویر  جاری کر کے  باقی مسلم ممالک کو ڈرانے کی کو شش کرتے ہیں  کہ اگر کسی نے بھی کوئی لفظ ہمارے خلاف بولا یا پھر کسی بھی مخالف اقدم میں پیش رفت کی  تو اس کا حال بھی ان جیسا ہوگا۔ مسلمان دنیا میں یہ عالمی قاتل بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ میں اقوامِ متحدہ کی زیلی تنظیموں کے ذریعے وہاں کے مظلوموں کی مرہم پٹی کر کے نفسیاتی جنگ(Psychological war) کو جیتنے کی زبردست کوشش میں لگےہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور ان کے تمام اتحادی بغیر کسی شک و شبہ کے امتِ مسلمہ کے ساتھ ہر پہلو سے نبرد آزما ہیں اور ہر پہلو سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن امت مسلمہ کی اکثریت کا ردِعمل اس صورت میں ہوتا ہے کہ وہ صرف ایک فریادی بن کر نہ جانے کس کے سامنے اپنی فریاد پیش کر رہے ہیں ۔

 بھارت میں ہر روز کسی مظلوم مسلمان کو مارا پیٹا اور قتل کیا جاتا ہے اور جب کہ معاملہ یہاں تک پہنچا ہے کہ مسلمانوں کو یہاں کا شہری تسلیم نہیں کیا جانے لگا ہے ۔جس کے لئے بھارت سرکار نے شہریت ترمیم قانون پاس کیا ہے جو مستقبل میں اپنی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرے گا۔شہریت ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے ملک بھر میں احتجاج ہو رہے ہیں، حکومت کو یہ قانون واپس لینے کی مانگ کی جارہی ہے اور اس ظمن میں جو بیہودہ نعرے لگائے جارہے ہیں وہ ہمارے ایمان کو جانچنے کا صحیح پیمانہ ہیں۔بھیڑیے کے سامنے ایک بکری اس کے نام نہاد عدل کی کتنی ہی تعریف کرے لیکن اس کابھیڑیا پن کبھی بھی ختم نہیں ہوگا۔اس لئے اگرچہ نعرہ لگانے کا جمہوری حق ہم رکھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی ضروری ہے لیکن ان نعروں سے کہیں زیادہ یہ ضروری تھا کہ ہم توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد لے کے جاتے اور اسی سے مدد طلب کرتے ۔شاہین باغ میں لاکھوں کی تعداد میں خواتین نے احتجاج کیا میڈیا کے سامنے آنسوں بھی بھائے، ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کےcontributionپر وضاحت بھی کی لیکن اس کے باوجود بھی حکومت کو کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا بلکہ بدلے میں انہوں نے بڑے ہی فخریہ انداز میں مسلمانوں کا مذاق اڑایا۔اگر اس کے بدلے صرف چند ہی لوگ اللہ کے حضور جاکے توبہ کرتے استغفار کرتے تو اس کی شانِ کریمی جوش میں آتی ۔

لوگ جمہوریت کا نام لیکر حکومت کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ تمہیں انصاف کرنا چاہئے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں خدا کا نام لیکر حکومت کو اس کے قہر سے آگاہ کرنا چاہئے تھا، انہیں اللہ کی ذات سے ڈرانا چاہئے تھ،ہمیں اللہ کا نام لیکر اس کے قرآن کو اس دنیا کے لئے بطورِ آخری حل پیش کرنا چاہئے تھا اور اس کی ہی عدالت کے عدل کا حوالہ دینا چاہئے تھا ۔اسی ظمن میں سنتِ نبویؐ ملاحضہ فرمائیں کہ نامساعد حالات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طریقہ کار رہا ہے۔ہجرت کے چوتھے سال غزوئہ ذات الرقاع پیش آیا، اس موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہٴ کرام سے الگ ہوکر ایک درخت کے سائے تلے آرام فرمارہے تھے، دشمن خدا غورث بن حارث آدھمکا،اور قتل کے ارادے سے تلوار سونت لی، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی،اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گستاخانہ سوال کیا: ”اب بتا، میرے ہاتھ سے تجھے کون بچاسکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت اطمینان سے جواب دیا: ”اللہ“ اب رعب نبوت کہیے، یا قدرتِ خداوندی سمجھئے، واقعہ یہ ہوا کہ تلوار دشمن خدا کے ہاتھ میں تھم نہ سکی، زمین پر گرگئی۔ ۔ٹھیک ہے مجھے جمہوریت کا نام لینے سے بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن کیا یہ جمہوریت اس نوعیت کی رہی ہے کہ اس کی تندرستی کا حوالہ دے کر ہم حکومت کو باخبر کر سکتے ہیں ۔نہیں نہیں ہر گز نہیں ہندوستان کی جمہوریت تو اب تعصب، تنگ نظری، نفرت اور جارحیت کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔اس لئے ہم کسں قسم کی جمہوریت کے سامنے مطالبہ لے کر جائیں جواپنی آخری ایام میں سانسیں لے رہی ہے ، وہ مظلوموں کو عدل و انصاف دینے کی کیا ہمت کرے جبکہ اس کی زندگی خود شر پسندوں کے نرغے میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی اس کو حماقت کہیں یا سادگی کہ وہ اپنے مالک و خالق سے دعا کرنے کے بجائے اپنی فریاد عدالت کے کاغذات پر رقم کروا کر گہری نیند سو جاتے ہیں۔ اپنے رب کے سامنے فریاد لے کر جانا اب اس امت کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔ اس کی اصلی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم نے اپنے ایمان، آخرت، ہدایت اور مغفرت کا سودا کیا ہے جیسے قرآن مجید میں  اس سودا کا مختلف انداز میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے:

India Terrorist

“انہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے۔”

“آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی ہے۔”

“یہ لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلےعذاب مول لے لیا۔”

“جو لوگ ایمان کو چھوڑ کر کفر کے خریدار بنے ہیں۔”

مسلم دنیا کی آج یہی عمومی صورتحال ہے۔ اس حالت کو بدلنے کی ہم ذرا بھر بھی کوشش نہیں کرتے حالانکہ ہماری دنیاوی و اخروی کامیابی کا نقطہ آغاز یہی بدلنا ہے۔ اس بدلنے کے لیے دعاؤں کا اہتمام کرنا شرطِ لازم ہے۔ کیونکہ دعا کا اہتمام کرنا زندہ قوموں کی نشانی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کی مثال جواپنے رب کو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ جیسی ہے۔

لیکن امت کی عمومی صورتِحال یہی ہے کہ دعاؤں سے یکسر غافل ہے۔ ہماری ہدایت اور استقامت کا انحصار ہماری بروقت دعاؤں پر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے فریاد و شکایات سب کا رخ نااہل سیاستدانوں اور لیڈروں کی طرف ہوتا ہے۔ ہمارے ہر طبقہ کا انداز فریادی ہے ہمارے سیاستدان ہیں تو بیچارے صرف فریادیں لے کر گھومتے رہتے ہیں، ہمارے صحافی حضرات صرف فریادی، ہمارے تجزیہ نگار صرف شکوہ سنج گردشِ دوراں شدی کے زمرے میں اور ایسا ہی دیگر طبقات کی صورتحال ہے۔ دورِ جدید میں باغیرت مسلمان نوجوانوں کے اندر بھی ایک خاص قسم کی ذہنیت پروان چڑھ رہی ہے کہ مسلمان صرف شہادت کے لئے آیا ہے۔بلاشبہ مسلمان دنیا کی بہتری اور آخرت کی کامیابی کا امین ہے جب کہ یہ امت عصر حاضر میں بغیر کسی صحیح پلاننگ اور نتیجہ خیز اسٹریٹجی کے ہر معاملے میں جذباتیات کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔غیروں کے ظلم اور ان کی سازشوں کا جواب ہمارے پاس خالی نعروں کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ جب کہ ہم مسلمانوں کی اکثریت  دینِ مبین کے احکامات کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اپنی دنیاوی زندگی کو سجانے میں لگے ہیں۔ ہماری کشمیری قوم پچھلے کئی دہائیوں سے ظلم و بربریت کی تختِ مشق بنتی چلی آئی ہے۔ اس ظلم کے خلاف ہمارے نعروں کا یہ حال ہوتا ہے کہ جیسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے دین پر سب کچھ نچھاور کرنے کی ٹھان لی ہے یا سب کچھ قربان کر چکے ہیں لیکن صد افسوس صد جب ہم اپنی عملی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کہیں الله کا غضب اور عذاب نازل  نہ ہو جائے۔اور تو اور سعودی عرب میں جو آجکل منفی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، وہ سعودی حکمرانوں کی دیرینہ اسلام مخالف خواہشات کی ترجمانی کر رہی ہیں ۔سعودی عرب کے بادشاہوں میں عیاشیاں اور عوام میں بڑھتی مغرب کی نقالیاں اس امت کے لئے شام غریباں سے کم نہیں ۔الغرض اس مایوسی کے عالم میں ہمارا ہر معاملہ بگڑا ہوا ہے ۔اس مایوسی کے عالم میں اگر اس امت کی فریاد کا رخ کہیں الله تعالیٰ کی طرف بھی ہو لیکن وہ فریاد مسترد ہو کر واپس لوٹتی کیونکہ یہ امت  بدمعاشوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی حکومت کو بھی قبول کرتی ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوا کہ اہل فارس نے کسریٰ کی لڑکی کو وارث تخت وتاج بنایا ہے تو آپ نے فرمایا کہ” وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنا حکمران کسی عورت کو بنایا ہو”۔ مسلمانوں کی عزت و عظمت صرف اسلام میں ہے۔ اس قوم کا مزاج کیسا ہے جو بے شیخ حسینہ واجد کو اپنا وزیراعظم چنتی ہے۔

ہم سر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ہمارےزیادہ تر لیڈر بے دین، ہمارے اکثر دانشور بے عمل ، ہمارے بیشتر معلمین بے اثر، ہمارے طبیب ذر پرست، ہمارے تاجر بے ایمان ، ہمارے صحافی احساس ذمہ داری سے تہی دامن ،ہمارے استاد جاہل ساز ہیں غرض یہ کہ ہمارے تمام طبقات لادینیت کی زد میں ہیں اور ایک مختصر سی اقلیت دین اور اخلاق کی پابند ہے ۔واقعی ایک بگڑے ہوئے سماج میں ایک قلیل تعداد میں دینداروں کی موجودگی سے کسی کو بھی قطعاً انکار کی مجال نہیں مگر اکثریت کا طرزعمل دیکھئے تو امت کی بدحالی پر رونا آتا ہے۔بہر صورت اگر ہم اپنے ظاہر وباطن پر بدلاو لانے پر آج بھی تیار ہیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم الله کی چہیتی امت ہونے کے ناطے اس کے سامنے اپنی جو بھی فریاد بندے کی شان میں رکھ کر کھڑے ہو جائیں ہماری ایک ایک دعا سنی جائے گی، ہمارا ایک ایک مسئلہ حل ہوگا، ہماری ہر ایک مراد پوری ہو گی اور ہم دنیا کے سروں پر نہیں بلکہ دلوں پر راج کرنے والے بن جائیں گے ۔ 

جہاں تک ہماری حقیقت حال کا تعلق ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے ایک فریادی کسی کے سامنے اپنے اوپر ہوئے ظلم کی داستان اس کے سامنے بیان کرتا ہے جو چاہتا ہی ہے کہ ہم اس کے سامنے فریادی بن کر کھڑے ہو جائیں، اس کے سامنے مظلوم و مجبور بن کر دب جائیں، ہاتھ اور جھولیاں پھیلانے والے بن جائیں اور امن و انصاف کے حوالے سے ان کے در کے سوالی بنیں۔ آج کے ابلیسی ایجنٹوں کو ہماری کسمپرسی اور غربت، مظلومیت اور مسئولیت اپنے مقاصدِ رذیلہ کی فہرست میں شامل ہے۔ وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ ہم زلیل، رسوا اور خوار بن کر ان کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔ اور ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے ہم ہر معاملے میں بکھاری بنتے چلے جا رہے ہیں۔ہمیں توبہ و استغفار کے ساتھ ایک مصمم عزم و ارادہ کر کے اس پیاری دعا کو مانگتے رہنا چاہئے۔ ” اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم والم سے، عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے، بخل، قرض چڑھ جانے اور لوگوں کے غلبہ سے۔