مرکزی زیر انتطام جموں وکشمیر میں اراضی خریدنے کیلئے غیر ریاستی کئی بیتاب!

الطاف حسین جنجوعہ
جموں//ریاست جموں وکشمیر کو آئین ِ ہند کی دفعہ370کے تحت حاصل خصوصی درجہ ونیم خود مختیاری کے خاتمہ کے بعد ہندوستان بھر سے لوگ جموں وکشمیر میں اراضی خریدنے کے لئے بیتاب ہوگئے ہیں۔پیر کے روز وزیر داخلہ امت شاہ کی طرف سے راجیہ سبھا میں ’خصوصی شناخت ‘خاتمہ کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کے کئی خطوں سے لوگوں نے سوشل میڈیا فیس بک ووہاٹس ایپ پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اب وہ بھی اپنے نام سے کشمیر میں زمین خریدسکیں گے۔فلمی دنیا کی مایا ناز ہستیوں، کھلاڑیوں، تاجروں اور کئی ریاستوں کے سیاستدانوں نے بھی مرکزی زیر انتظام جموں وکشمیر میں زمین خریدنے کی خواہش ظاہر کر دی ہے۔ریاست گوا کے ایک وزیر مائیکل لابو نے کہاکہ وہ کشمیر میں ایک مکان تعمیرکرے گا جہاں وہ سیاست سے سبکدوشی کے بعد سکون کے چار پل گذارے گے۔ انہوں نے یہ بیان اسمبلی میں مرکزی سرکار کے جموں وکشمیر سے متعلق فیصلہ پرشکریہ کی تحریک پر بولتے ہوئے دیا اورکہ ’’میں کشمیر میں زمین خریدنے کی سوچ رہاہوں، میں وہاں ایک مکان تعمیر کرؤں گا، اور اپنے دوست اراکین قانون سازیہ کو بھی دعوت دوں گا‘‘۔گجرات، راجستھان، نئی دہلی، چندی گڑھ، پنجاب، ہریانہ، اُترپردیش، بہار، کلکتہ ودیگر بھارت کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے جموں وکشمیر میں اپنے دوست واحباب سے اراضی خریدنے کے لئے رابطے بھی شروع کر دیئے ہیں ،جبکہ بڑی تعداد میں لوگ آن لائن جموں وکشمیر کے پراپرٹی ڈیلران’Property Dealers ‘کی تلاش کر رہے ہیں۔ بلال خان نامی ایک شخص نے بتایا’’میرے پاس پتنی ٹاپ میں کچھ اراضی ہے جس کو میں فروخت کرنا چاہتا ہوں، جس کے لئے میں نےOLXپر اشتہار ڈالا تھا، جس میں فون نمبر بھی دیاگیاتھا، یہ اشتہار پچھلے ڈیڑھ سال سے ڈالا ہے لیکن پچھلے دو دن سے مجھے قریب 100سے زائد فون بیرون ریاست سے آچکے ہیں، فون کرنے والوں کا تعلق لکھنو، احمد آباد، گڑھ گاؤں، کلکتہ، بنگلور، چنئی، گجرات، جے پور، وارانسی وغیرہ سے ہے، جنہوں نے مجھ سے زمین خریدنے کی پیشکش کی ‘‘۔جموں وکشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں اُترپردیش، بہار ، جارکھنڈ سے تعلق رکھنے والے مزدور طبقہ کے لوگ ہیں جوکہ یہاں کئی سالوں سے حجام، ٹھیکیداری، مستری، مزدور، کارپنٹری، میکانک وغیرہ کا کام کرتے ہیں، کافی خوش نظر آرہے ہیں، انہوں نے بھی یہاں پر اپنے دوستوں اور جان پہچان کے لوگوں سے زمین لینے کی باتیں شروع کر دی ہیں۔ شہر جموں کے مضافاتی علاقہ جات بٹھنڈی، سنجواں، ملک مارکیٹ، سدھڑا وغیرہ میں حجام اور ہوٹلوں پر کام کرنے والے ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے کئی افراد سے جب دفعہ370منسوخی متعلق رد عمل جاننا چاہاتو انہوں نے کافی خوشی کا اظہار کیا۔ سریش یادو نامی ایک مزدور کا کہنا تھا’’میں سال 2001سے جموں میں کام کر رہاہوں، کافی پیسہ کمایا، میرے بچے بھی یہیں پڑھ رہے ہیں لیکن مکان اپنا نہیں تھا، کرایہ پر رہ رہے ہیں، اب میں نے ایک دو دوستوں سے بات کی ہے کہ کہیں تین چار مرلے زمین مل جائے ‘‘۔ایک حجام کی دوکان پر چند غیر ریاستی مزدور آپس میں گفتگو کر رہے تھے، جس میں سے ایک شخص یہ کہتے سُنا گیا’’جموں وکشمیر میں ہزاروں کنال سرکار اور جنگلات کی زمین ہے، جس کا اب کنٹرول مودی جی اور شری امت شاہ کے پاس چلاگیا ہے، اب تو ہم اسِ زمین پر بھی بیٹھ سکتے ہیں‘‘۔جموں کے گورکھا نگر، قاسم نگر، باہوفورٹ میں ہزاروں کنبہ جات ہیں ، جنہوں نے یہاں مکان بھی بنائے تھے، تاہم انہیں ریاستی شہریت نہ تھی، اب وہ بھی اپنے مکانات کے حقیقی مالکان بن جائیں گے۔ جموں کے تریکوٹہ نگر، گریٹر کیلاش، نانک نگر، ستواری، سینک کالونی،گاندھی نگر، گنگیال، ڈگیانہ، بڑی برہمناں، سانبہ، وجے پور، کٹھوعہ اور اکھنور میں سینکڑوں ایسے افراد ہیں جن کا تعلق بھارت کی مختلف ریاستوں سے ہے، جنہوں نے یہاں پر اپنے مقامی دوستوں کے نام یا پھر ریاست میں شادی کرنے کے بعد اپنی بیوی وسسرال والوں کے نام پر زمین لیکر مکانات تعمیر کئے ہیں ، وہ برسوں سے یہیں رہ رہے ہیں، اب کے لئے بھی مکانات ودکانات اور دیگر تجارتی مراکز کا مالک بننا حقیقت بن گیاہے۔وہیں مقامی لوگ حکومت کے اِس فیصلہ سے کافی ناخوش ہیں، جن کا کہنا ہے کہ اب یہاں پر زمینیں بہت زیادہ مہنگی ہوں گیں ، غیر ریاستی کئی گناہ زیادہ پیسہ دیکر زمین خریدیں گے ، پیسہ کب تک رہے گا، ایک وقت آئے گاکہ ہماری آنے والی نسلیں جھگی جھونپڑیوں میں رہنے اور بیک مانگنے پر مجبور ہوجائیں گیں۔ رشیداحمد نامی ایک شخص کا کہناتھاکہ جولوگ خصوصی درجہ کو مٹانے کے لئے ریاست جموں وکشمیر سے آوازیں اُٹھارہیں تھے ، نے اپنے پاؤں پر بھی کلہاڑی ماری ہے اور ایسی غلطی کی ہے جس کے لئے آنے والی نسلیں بھی اُنہیں معاف نہیں کریں گیں۔