کشمیریوں کو دبانے سے پلوامہ جیسا ردّ عمل آئے گا پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے وزیر اعظم پاکستان کا خطاب

مانیٹرنگ ڈیسک
اسلام آباد //پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے پالیسی بیان میں کہا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر آج پوری قوم اکھٹی ہے۔ مودی حکومت نے کشمیر کے ساتھ جو کیا وہ ان کے انتخابی منشور کا حصہ اور ان کا نظریہ تھا جو نسل پرستی پر مبنی ہے۔عمران خان نے کہا کہ مودی حکومت نے کشمیر سے متعلق جو اقدامات کیے ہیں وہ بھارتی ا?ئین، بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلوں، جینیوا کنونشن، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ہم اس کے خلاف ہر فورم پر ا?واز اٹھائیں گے اور اس معاملے کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی عدالت میں بھی اٹھائیں گے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کو انسانوں کا درجہ نہیں دیتا۔ بھارتی حکومت کشمیریوں کی ’مزاحمتی تحریک‘ کو دبانے کی کوشش کرے گی تو دوبارہ پلوامہ واقعے جیسا ردعمل آئے گا اور بھارت پھر اس کا الزام پاکستان پر لگائے گا۔عمران خان نے کہا کہ حکومت ملنے کے بعد ہم نے پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر کرنے پر توجہ دی اور اس ضمن میں ہندوستان کو کہا کہ وہ اگر ایک قدم بڑھائیں تو ہم دو قدم ان کی کی طرف جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سے بات کرنے پر ہم نے محسوس کیا کہ وہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ عمران خان کے بقول بھارت پاکستان کی امن کی کوششوں کو کمزوری سمجھ رہا تھا۔عمران خان نے مزید کہا کہ بھارت کی حکومت نے انتخابات میں کامیابی کے لیے اپنے ملک میں وار ہسٹیریا پیدا کر کے پاکستان مخالف جذبات ابھارے اور ہم نے بھارتی ایئر فورس کا پائلٹ پکڑ کر واپس کر دیا کیوں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے تھے۔عمران خان نے عالمی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے کا نوٹس لیں بصورتِ دیگر اس کے اثرات پوری دنیا تک پہنچیں گے۔وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں اگر معاملات بگڑے تو بات جنگ تک جا سکتی ہے۔قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے ایوان سے خطاب میں کہا کہ ہمارے پاس اب صرف دو راستے ہیں، یا تو ہم جھک جائیں یا ڈٹ جائیں۔ بھارت کشمیر میں ظلم کے پہاڑ ڈھانے میں آخری حد تک چلا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج مودی نے پاکستان کی شہ رگ پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اس سے قبل کہ مودی شہ رگ کو کاٹے ہمیں مودی کے ہاتھ کاٹنا ہوں گے۔شہباز شریف نے اپنے خطاب میں حکومت اور وزیرِ اعظم کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ شہباز شریف کے خطاب کے بعد وزیرِ اعظم اور قائدِ حزب اختلاف کے درمیان مکالمہ ہوا۔عمران خان نے شہباز شریف کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے پانچ سالہ دور میں کیا کیا؟عمران خان کے جواب کے بعد شہباز شریف نے جوابی تقریر کی جس کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان ایوان سے چلے گئے جس پر اپوزیشن اراکین کی جانب سے نعرے بازی کی گئی۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں پر ظلم کیا ہے۔ بھارت کے اس اقدام کو نہ کشمیر مانتا ہے اور نہ ہی پاکستان اسے تسلیم کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے قلم کی ایک جنبش سے پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ کشمیر کی تمام سیاسی قیادت کو قید کر دیا گیا ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت کے وزیرِ اعظم مودی آگ سے کھیل رہے ہیں۔
اجلاس کا آغاز
واضح رہے کہ اس سے قبل اجلاس کے آغاز میں حکومتی رْکن سینیٹر اعظم سواتی نے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی اور بھارت کی جانب سے کلسٹر بموں کے مبینہ استعمال سے متعلق قرارداد پیش کی جس پر اپوزیشن اراکین نے احتجاج کرتے ہوئے قرارداد میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔حکومت کے اتحادی شیخ رشید نے بھی اپوزیشن کی جانب سے قرارداد میں ترمیم کے مطالبے کی حمایت کی گئی۔حزبِ اختلاف کے اراکین کا مطالبہ تھا کہ قرارداد میں بنیادی چیز آرٹیکل 370 کا ذکر ہی نہیں ہے۔ آرٹیکل 370 کو قرارداد میں شامل کیا جائے۔حکومت نے ترمیم کے بعد بحث کے لیے قرارداد دوبارہ پیش کی تاہم اجلاس کی کارروائی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے شروع نہ کرانے پر حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا احتجاج جاری رہا۔
اپوزیشن کا احتجاج
شیریں مزاری کی جانب سے ایوان میں بحث کا آغاز کرنے پر اپوزیشن اراکین نے شور شرابا کیا اور اجلاس کی کارروائی میں وزیرِ اعظم کی شرکت کا بھی مطالبہ کیا۔ایوان میں بد نظمی کے بعد اجلاس کی کارروائی میں اسپیکر اسمبلی اسد قیصر نے 20 منٹ کا وقفہ کر دیا تاہم اجلاس 20 منٹ بعد بھی شروع نہ ہو سکا اور کئی گھنٹوں کی تاخیر کا شکار ہو گیا۔پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیر اعظم فاروق حیدر بھی شریک ہوئے۔ وہ اپنے بازو پر کالی پٹی باندھ کر ایوان میں پہنچے۔گزشتہ روز بھارت کی جانب سے کشمیر کی نیم خود مختارانہ حیثیت سے متعلق ا?رٹیکل 370 اور 35 اے ختم کیے جانے کے بعد پاکستان کے صدر عارف علوی نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کیا تھا۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کشمیر اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی صورت حال پر لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔
کور کمانڈر کانفرنس
پاکستان کے آرمی چیف کی سربراہی میں ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس میں بھی بھارت کے اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کی حکومت کے اقدامات کی مکمل حمایت کی گئی ہے۔پاکستانی فوج کے ترجمان نے کور کمانڈر کانفرنس کے بعد اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے بھارتی اقدامات مسترد کیے جانے کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان نے بھارت کا کشمیر پر شرمناک قبضہ قانونی قرار دینے کی کبھی حمایت نہیں کی۔میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ہم اپنی ذمہ داریاں نبھانے کو تیار ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ روز بھارت نے صدارتی حکم نامے کے ذریعے بھارتی آئین میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کوختم کردیا تھا جس کے نتیجے میں بھارتی کشمیر کو اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی علاقہ قرار دیا گیا ہے جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔