معذور جمال دین کاواحدسہاراضعیف والدہ محکمہ بجلی کی لاپرواہی سے اپاہج سب ضلع اسپتال منڈی میں زیرعلاج، حالت انتہائی نازک ،کوئی پرسان حال نہیں

سرفراز چک
منڈی//’’مجھ جیسا بھی کوئی بدنصیب بیٹا ہوگا ، کہ میں چاہ کر بھی اپنی والدہ کے لئے کچھ نہیں کرپارہاہوں، سوائے منت وسماجت کے، اب تو صرف اللہ پر ہی بھروسہ ہے، باقی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی‘‘۔ یہ الفاظ سب ضلع اسپتال منڈی کے ایک وارڈ میں زیر علاج ضعیفہ ساجہ بیگم کے سرہانے بیٹھے جسمانی طور معذور جمال دین کے ہیں۔تحصیل منڈی کے گاؤں چھمبر کی رہنے والی ضعیفہ7مارچ2019بروز جمعہ کو بجلی کرنٹ لگنے سے شدیدزخمی ہوئی ہیں، جس کا اِس دنیا میں اپنا صرف ایک اکلوتہ معذور بیٹے کے علاوہ کوئی بھی نہیں۔ جمال دین معذور ہونے کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرسکتے، ان کی روزی روٹی کا بندوبست بھی ساجہ بیگم بھیڑبکریاں پال کر کرتی تھیں۔ کھیت میں بکریاں ہی چرا رہی تھیں کہ زمین پر گری بجلی کی تار چھوجانے کی وجہ سے وہ مضروب ہوگئیں۔جمال دین نے بتایاکہ’کرنٹ اتنا شدید تھاکہ میری والدہ نے بولنا بھی بند کر دیاتھا، دن بارے بجے کا واقعہ ہے، مجھے دیر سے پتہ لگا، میںنے جب ماں کو دیکھا تو وہ ایسا لگا کہ ان کے جسم میں جان نہیں، چیخ وپکار کرنے پر شام چارج بجے لوگ وہاں پہنچے ، جنہوں نے والدہ کو سب ضلع اسپتال منڈی پہنچایا‘‘۔روتے رہتے جمال دین نے کہا’’آپ دیکھیں نہ میری ماں کی حالت کتنی نازک ہے، میرا تو یہ واحد سہارا ہے، اگر انہیں کچھ ہوگیا تو میں تو جیتے جی مرجاؤں گا، میں تو کما نہیں سکتا، میری روزی روٹی، میرے جینے کا سہارا ہی میری ماں ہے‘‘۔جمال دین نے بتایاکہ پولیس اور محکمہ بجلی کی طرف سے کوئی بھی ان کے پاس نہ آیا ہے،محکمہ کی لاپرواہی سے ایسا ہوا ہے، اگر بجلی لائن نیچے نہ گری ہوتی تو یہ حادثہ پیش نہ آتا۔اگر چہ اسپتال انتظامیہ کی طرف سے معقول علاج ومعالجہ کیاجارہاہے لیکن ابھی ضعیفہ ساجہ بیگم بہوشی کی حالت میں ہی ہیں۔جمال دین کے مطابق ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ والدہ کو ضلع اسپتال پونچھ یا کسی اور جگہ بہتر علاج کے لئے لے جاسکیں۔جمال دین اس وقت شدید صدمے سے دوچار ہے، ان کے پاس جوبھی جاتا ہے، وہ ہاتھ جوڑ کر یہی کہتاہے برائے کرم میری والدہ کو بچا لو، یہی میری زندگی ہے‘‘۔ انہوں نے ضلع انتظامیہ اور بجلی محکمہ کے حکام سے گذارش کی ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں والدہ کو بچانے میں ان کی مدد کی جائے۔فلاحی ادارے، سیاسی وسماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی ممبران سے بھی اس ضمن میں تعاون کی بھرپور گذارش ہے۔