پی ڈی پی اور بی جے پی اتحاد کی اقتدار سے کنارہ کشی

پی ڈی پی اور بی جے پی اتحاد کی اقتدار سے کنارہ کشی
سوشل میڈیا پر طنزیہ شاعری، لطیفوں، تنقید ومذمت کا سلسلہ جاری
الطاف حسین جنجو
جموں//19جون کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے حمایت واپس لینے کے بعد محبوبہ مفتی قیادت والی مخلوط حکومت گرنے کے 4روز گذرجانے کے باوجود سوشل میڈیا پر طنزیہ شاعری، لطیفوں، تہنیتی پیغامات،مذمت، تنقیدکا سلسلہ جاری ہے۔فیس بک، ٹویٹر، وٹس ایپ پرطرح طرح کے مزاحیہ تصاویر، ویڈیوز اور پیغامات کا عمل لگاتار جاری ہے۔کوئی پی ڈی پی اور بی جے پی کی حصولیابیوں/کامیابیوں کا ذکر کر رہاہے تو کوئی ان کی ناکامیوں کی تفصیل پیش کر کے اپنی بڑھاس نکال رہاہے۔مرزا غالب کا یہ شعرمختلف تصاویر وکارٹون کے ساتھ لکھا ملتا ہے کہ ”بڑے بے آبروہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے“۔ کچھ نے اچانک بھاجپا اور پی ڈی پی اتحاد جس سے ’جنوب وشمال قطب ‘ کا میل کہاگیاتھا، کے ٹوٹ جانے پر یہ لکھا ہے کہ”نہ گھر کا نہ دہلی کا “۔ایک وکیل نے فیس بک پوسٹ پر شعلے فلم میں گبر سنگھ کے مشہور ڈائیلاگ کے انداز میں لکھا ہے ”ارے او منتری، حساب دیو جرا، 4سال میں کتنے کمائے رہ“۔ایک صحافی نے لکھا”تمام منسٹرز جوکہ لگاتار جائزہ میٹنگیں لیتے تھے کو اب چاہئے کہ وہ بطور ایم ایل اے اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا شروع کردیں“۔ایک سنیئر افسر نے لکھا ہے”الحمدُ للہ‘۔ریاست کے ایک سنیئر بیروکریٹ کی فیس بک پوسٹ ہے”وہ افسانہ جس سے انجام تک لانا نہ ہو، ممکن اسے ایک خوبصورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا؟؟۔وٹس ایپ گروپوں میں یہ پیغامات پڑھنے کو ملے’مبارک سب کو ، بی جے پی نے حمایت واپس لی، دیر آئے،درست آئے ، خاص طور سے جموں خطہ کے لئے جنہوں نے سال 2014 میں بی جے پی کو25نشستوں پر کامیابی دلائی تھی“۔ صرف بی جے پی اور پی ڈی پی وزراءاور ایم ایل اے کا ہی مذاق اور تنقید نہیں کی جارہی بلکہ ریاستی گورنر این این ووہرا کے بارے میں بھی مزاحیہ انداز میں لکھاملتا ہے، ایک صحافی نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے ”قسمت ہو تو این این ووہرہ سی ہو“۔ یاد رہے کہ پچھلے10سالوں میں بطور گورنر کے این این ووہرا کی سربراہی میں چوتھی مرتبہ گورنر راج نافذ ہوا ہے۔سرحدی ضلع پونچھ کے اسمبلی حلقہ مینڈھر جس میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ہے پرایک نوجوان نے لکھا ہے”یا اللہ ہمارے سوکھے ہوئے چشموں میں دوبارہ پانی جاری کردے ہم وعدہ کرتے ہیں دوبارہ کبھی پی ڈی پی کو ووٹ نہیں دینگے“۔گورنر رول کی تنقید میں کرتے ہوئے ایک این سی یوتھ کارکن نے لکھا ہے”جموں وکشمیر میں منتخب عوامی حکومت کے گرنے اور ہر گورنر رول سے اعلیحدگی پسندوں کے کاز کو مضبوطی ملتی ہے“۔ بی جے پی کی مذمت کرتے ہوئے ایک سنیئروکیل نے فیس بک پر لکھا کہ ”بی جے پی نے جموں وکشمیر کو آئینی بحران میں دھکیلا“۔جہاں پی ڈی پی اور بی جے پی سے وابستہ متعدد لیڈران کو کرسی ہاتھ سے جانے کا دکھ ہے تو وہیں نیشنل کانفرنس اور کانگریس ورکرز اور لیڈران نے جلد الیکشن ہونے کی امید میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں، اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہیں پر انتخابی حکمت عملی بھی تیار کی جارہی ہے۔