ہمیں پاکستان سے بات کرنی چاہئے،مسئلہ کسی نہ کسی شکل میں پاکستان سے منسلک ’دنیشورشرما حکومت کا نمائندہ ہے‘ تینوں خطوں کی ترجیحات مختلف،علاقائی سطح پر اقتدار قائم کرنے کی ضرورت:ایم ایم انصاری

نئی دہلی//سابق مذاکرات کار ایم ایم انصار ی کا کہنا ہے کہ کشمیرمیں امن بحالی کےلئے پاکستان سے مذاکرات ضروری ہے کیو نکہ کشمیر کا مسئلہ کسی نہ کسی شکل میں پاکستان سے منسلک ہے ۔ انہوں نے کشمیر پر سابق مذاکرات کار کی رپورٹ کو بھی لاگو کرنے کا مطالبہ کیا۔ایم ایم انصاری نے کہا کہ سابق مذاکرات کار کی ٹیم کل جماعتی وفد کی تجاویز پر قائم کی گئی جس کا دائرہ بڑا تھا جبکہ موجودہ نمائندہ دینشور شرما حکومت کا نمائندہ ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 30 برسوں میں انسانی حقوق سے متعلق مسائل بھی ریاست میں سامنے آ ئے ہیں ایسے میں تمام جماعتوں کو ’بھول جاﺅ اور معاف کرو‘کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر مسئلے کو کسی نہ کسی طور پر پاکستان کے ساتھ منسلک بتاتے ہوئے کشمیر پر سابق مذاکرات کار ایم ایم انصاری نے کہا ہے کہ کشمیر مسئلے پر ”گلے لگانے کی وزیر اعظم “کی پالیسی پاکستان سے بات چیت جاری رکھتے ہوئے ریاست میں اقتدار کی لا مرکزیت سے ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کشمیر پر سابق مذاکرات کار کی رپورٹ کو بھی لاگو کرنے کا مطالبہ کیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق کشمیر کے معاملات پر سابق مذاکرات کار نے کہا ’ میں اب بھی یقین رکھتا ہوں کہ کشمیر کا مسئلہ کسی نہ کسی شکل میں پاکستان سے منسلک ہے، اس لیے ہمیں پاکستان سے بات کرنی چاہئے۔ جبکہ آج کی صورتحال یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سرد جنگ کی حالت تک پہنچ چکے ہیں‘۔ انہوں نے کہا’ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ جموں، کشمیر اور لداخ تینوں علاقے کی ترجیحات مختلف ہیں۔۔۔ایسے میں وہاں علاقائی سطح پر اقتدار قائم کرنے کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سال یوم آزادی پر لال قلعہ کی فصیل سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ گولیاں یا گالیوں سے کشمیر مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا اور ہر کشمیری کو گلے لگا کر ہی اس کا حل نکل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے تئیں کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی اور ان کی حکومت کشمیر کی کھوئی ہوئی عظمت اور ”زمین کی جنت “ کا اس کا فخر بحال کرنے کے لئے برسر پیکار ہے۔انصاری نے کہا کہ ریاست کی صورتحال کو مناسب طریقے سے سمجھنے کے لئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ این ڈی اے حکومت نے دنیشور شرما کو نمائندہ بنا کر ریاست میں بھیجا ہے جو انٹیلی جنس بیورو کے افسر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں انہیں وہاں بھیج دیا گیا ہے جب سیکورٹی فورسز کی مہم کے بعد مکمل طور پرامن قائم نہیں ہوا ہے۔اس سے پہلے سابقہ یو پی اے حکومت نے سال 2010 میں کشمیر کے موضوع پر لوگوں سے بات کرنے اور وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے مزاکرات کاروں کی ایک ٹیم تشکیل دی تھی جس میں دلیپ پڈگاو¿نکر، پروفیسر رادھا کمار اور ایم ایم انصاری شامل تھے۔ مذاکرات کاروں کی اس ٹیم کی تشکیل مرکزی کل جماعتی وفد کی صلاح پر کی گئی۔انصاری نے کہا کہ ہم نے جموں و کشمیر میں پانچ ہزار سے زائد افراد اور وفدوں سے ملاقات کی اور اپنی رپورٹ مرکزی حکومت کو پیش کی لیکن ہماری تجاویز ابھی تک لاگو نہیں ہوئی ہیں۔یہ پوچھے جانے پر کہ کشمیر معاملے پر یو پی اے حکومت کے دوران قائم مذاکرات کار کی ٹیم اور موجودہ حکومت کی جانب سے مقرر نمائندے میں کیا فرق ہے؟ انہوں نے کہا کہ سابق مذاکرات کار کی ٹیم کل جماعتی وفد کی تجاویز پر قائم کی گئی جس کا دائرہ بڑا تھا جبکہ موجودہ نمائندہ دینشور شرما حکومت کا نمائندہ ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ایم ایم انصاری نے کہا کہ جموں و کشمیر میں بڑی تعداد میں نوجوان خود کو سماج سے کٹا ہوا محسوس کر رہے ہیں ایسے نوجوانوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے زمینی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں خاص طور پر مقامی سطح پر نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔بھٹکے ہوئے نوجوانوں کی بحالی اور نگرانی کے لئے ایک میکانزم قائم کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر سے متعلق ایک اہم مسئلہ کشمیری پنڈتوں کا مسئلہ ہے ان کے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے کشمیری پنڈتوں کی بحالی ایک اہم موضوع ہے جس کوآگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 30 برسوں میں انسانی حقوق سے متعلق مسائل بھی ریاست میں سامنے آ ئے ہیں ایسے میں تمام جماعتوں کو ’بھول جاﺅ اور معاف کرو‘کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اس سے کچھ اہم مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔سابق مذاکرات کار کا کہنا تھا کہ بے گھر ہوئے مغربی پاکستان کے لوگوں کا مسئلہ بھی اہم ہے اس لیے ہمیں اس مسئلہ پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے فرقہ پرست حکمران اخلاقی اقدار کھو چکے ہیں