’’میری کوشش کو اخلاص کے ترازو میں تولا جائے‘‘ :شرما دلی کی نئی پہل نامزد مختار آج وادی وارد ہوں گے ، مختلف وفود سے ملنے کا امکان

اڑان نیوز
سرینگر//جموں وکشمیر میں امن عمل کا سر نو آغاز کرنے کی غرض سے نامزد مختار دنیشورشرماآج یعنی 6نومبربروزسوموارکوسرینگرواردہوں گے۔جبکہ مرکزکے نامزدایلچی سے ملاقی ہونے والے سیاسی اورغیرسیاسی وفودکاتعین ریاستی انتظامیہ کے ذمہ رکھا گیا ہے ،اور انتظامیہ کے ایک اعلیٰ ذمہ دارنے ایسے وفودکی ایک لسٹ مرتب کی ہے ،جوسرینگرمیں قیام کے دوران مذکورہ مختار کے ساتھ ملاقات اورتبادلہ خیال کریں گے ۔ مرکزی مختارر یاستی گورنراین این ووہرا، وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اورمختلف سیکورٹی ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام کے ساتھ تبادلہ خیال کرکے زمینی صورتحال کے بارے میں جانکاری حاصل کریں گے ۔ادھرسری نگرآمدسے ایک روزقبل دنیشورشرماکاکہناتھا’’میرے پاس کوئی جادوئی چھڑی نہیں کہ کشمیرکی صورتحال کوراتوں رات تبدیل کرسکوں‘‘۔تاہم اس کے ساتھ ہی مرکزی نمائندے کا کہنا تھا ان کی کوشش کوماضی کے تناظرمیں نہ دیکھاجائے بلکہ اخلاص کے ترازئومیں تولاجائے‘‘۔دنیشورشرمانے یہ واضح کردیاکہ کشمیری علیحدگی پسندو ں کوخودیہ فیصلہ لیناہوگاکہ وہ امن عمل میں شریک ہوتے ہیں یاکہ وہ اُس طرف رہناچاہتے ہیں جہاں تباہی ایجنڈے کی ترجیح رہی ہے ۔انہوں نے کہاکہ میراسبھی لوگوں کویہ مشورہ ہے کہ وہ مرکزی حکومت کی پہل کوماضی کے تناظرمیں نہ دیکھیں۔سرینگرمیں دنیشورشرماکے قیام کادورانیہ4روزمقررہے لیکن موصوف کہہ چکے ہیں کہ وہ یہاں قیام کافیصلہ مصروفیات کی لسٹ دیکھ کرہی لیں گے ۔دریں اثنا حکمران اتحادمیں شامل پی ڈی پی اوربی جے پی کے بغیرکسی مین اسٹریم جماعت نے مختار نمائندے سے ملنے کاکوئی حتمی فیصلہ نہیں لیاہے جبکہ مشترکہ مزاحمتی لیڈرشپ اورکشمیرکی سیول سوسائٹی پہلے ہی دنیشورشرماکے ساتھ ملاقات یامذاکرات کرنے سے انکارکرچکی ہے۔امر قابل ذکر ہے کہ مرکزکے متعین کرد ہ مختار دنیشورشرمااپنامشن کشمیر 6نومبرکوشروع کررہے ہیں ،اورسوموارکووہ نئی دہلی سے سری نگرپہنچیں گے ۔مزاحمتی خیمے کے انکاراورمین اسٹریم جماعتوں کی سردمہری کے بیچ موصوف سرینگرمیں کتنے روزتک قیام کریں گے اوراس دوران کتنے سیاسی اورغیرسیاسی وفوداُن سے ملاقی ہونگے ،ابھی اس بارے میں صورتحال واضح نہیں ہے ۔تاہم بتایاجاتاہے کہ سماج کے مختلف طبقوں اورحلقوں کونمائندے سے ملنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوششیں مختلف سطحوں پرجاری ہیں تاہم معلوم ہواکہ دنیشورشرماخودیہ فیصلہ لینے کے مجازہیں کہ اُنھیں کس سے ملناہے اورکس سے نہیں جبکہ اس حوالے سے مرکزی وزیرداخلہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ مرکزکے نامزدایلچی آزادہیں کہ وہ کس سے ملنے کافیصلہ لیتے ہیں ۔ ریاستی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ ذمہ دارکویہ کام سونپاگیاہے کہ وہ موصوف سے ملنے پرآمادہ سیاسی اورغیرسیاسی وفودبشمول تاجروں وکاروباریوں کے نمائندوں اورسیول سوسائٹی ارکان کی ایک لسٹ مرتب کریں تاکہ سرینگرمیں قیام کے دوران دنیشورشرمازیادہ سے زیادہ وفودسے ملاقات کرکے کشمیرکی صورتحال کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں بہترجانکاری حاصل کرسکیں ۔بتایا جارہا ہے کہ پہلے مرحلے میں مرکزی نمائندہ ریاستی گورنراین این ووہرا، وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اورمختلف سیکورٹی ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام سے تبادلہ خیال کرکے زمینی صورتحال کے بارے میں جانکاری حاصل کریں گے ۔غورطلب ہے کہ مزاحمتی قیادت نے موصوف سے ہم کلام ہونے سے صاف انکارکرتے ہوئے دبے الفاظ میں سیاسی اورغیرسیاسی حلقوں سے بھی اپیل کی کہ وہ بھارت سرکارکے نامزدنمائندے سے بات چیت نہ کریں جبکہ نیشنل کانفرنس اورریاستی کانگریس سمیت بیشترمین اسٹریم اپوزیشن پارٹیوں نے بھی مرکزکی مذاکراتی پہل پراب تک سردمہری ہی ظاہرکی ہے ۔سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹرفاروق عبداللہ کہہ چکے ہیں کہ یہ ایک فضول مشق ہیاوربقول موصوف دلیپ پڈگائونکردوسال تک جموں ،کشمیراورلداخ میں کام کرکے اپنی رپورٹ مرکزکوسونپ چکے ہیں ،اورسال2016میں مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے سرینگرمیں مین اسٹریم لیڈروں کے علاوہ مختلف غیرسیاسی انجمنوں کے وفودسے بھی تبادلہ خیال کیا۔فاروق عبداللہ کاموقف ہے کہ مرکزی سرکارکوبات چیت کے حوالے سے اپنی توجہ علیحدگی پسندوں اورپاکستان پرزیادہ مرکوزکرنی چاہئے ۔دریںاثناء سری نگرآمدسے ایک روزقبل دنیشورشرماکاکہناتھا’’میرے پاس کوئی جادوئی چھڑی نہیں کہ کشمیرکی صورتحال کوراتوں رات تبدیل کرسکوں‘‘۔تاہم اس کے ساتھ ہی موصوف نے یہ بھی کہاکہ اُن کی کوشش کوماضی کے تناظرمیں نہ دیکھاجائے بلکہ اخلاص کے ترازئومیں تولاجائے‘‘۔دنیشورشرمانے خبررساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیاسے بات کرتے ہوئے یہ واضح کردیاکہ کشمیری علیحدگی پسندو ں کوخودیہ فیصلہ لیناہوگاکہ وہ امن عمل میں شریک ہوتے ہیں یاکہ وہ اُس طرف رہناچاہتے ہیں جہاں تباہی ایجنڈے کی ترجیح رہی ہے ۔انہوں نے کہاکہ میراسبھی لوگوں کویہ مشورہ ہے کہ وہ مرکزی حکومت کی پہل کوماضی کے تناظرمیں نہ دیکھیں۔دنیشورشرمانے ایک سوال کے جواب میں بتایاکہ اُنھیں اس بارے میں کچھ نہیں کہناکہ کشمیری علیحدگی پسندوں نے مذاکراتی عمل میں شامل ہونے سے کیوں انکارکیا۔دنیشورشرمانے کہاکہ میں صرف مرکزی سرکارکی جانب سے جموں وکشمیرکے حوالے سے کی گئی پہل کے بار ے میں بات کرسکتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ مرکزکی اس پہلے میں ایک طویل مشاورت اورمہینوں کاتبادلہ خیال رہاہے ۔اس دوران نئی دہلی سے کے این ایس کیساتھ بات کرتے ہوئے دنیشور شرما کا کہناتھاکہ وہ سوموارکو پہلے مرحلے میں پروگرام کے مطابق سرینگرپہنچیں گے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ میں سرینگرآکرمختلف وفوداورلوگوں سے ملوں گا۔تاہم انہوں نے واضح کیاکہ اس بارے میں زمینی سطح پرکام یعنی وفودکاتعین اوراُن کی فہرست مرتب کرناوغیرہ ریاستی سرکارکی ذمہ داری ہے ۔