’بیٹی بچاﺅ ، بیٹی پڑھاﺅ ‘مہم….جہاں ضرورت وہاں اندھیرا بدستور قائم
متعلقہ افسران شہروں اور قصبوں میں تقریبات سے آگے جانے سے گریزاں
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//مرکزی سرکاری کی طرف سے چلائی جارہی انتہائی اہمیت کی حامل سکیموں”سوﺅچھ بھارت ابھیان“اور” بیٹی بچاو¿ بیٹی پڑھاو¿“ پر عمل آوری کے جو دعوے حکومتی سطح پر ہورہے ہیں ان کی صداقت زمینی سطح پر بہت کم دکھائی دے رہی ہے ۔ دونوں سکیمیں صرف سرکاری دفاتر احاطہ جات میں آفیسران کی فوٹو نمائش کا ایک حصہ بن کر رہی گئی ہیں۔ گذشتہ ماہ سوﺅچھ بھارت ابھیان کے تحت ملک بھر کی طرح جموں وکشمیر ریاست میں بھی پندرہ روزہ صفائی مہم کا اہتمام کیاگیا۔ اخبارات، ٹیلی ویژن چینل، سوشل میڈیا اور ریڈیو پر اس کے زبردست چرچے رہے لیکن عملی طور گلی، محلہ تو دور سرکاری دفاتر، تعلیمی اداروں اور اہم مقامات کے اندر کوڑا کرکٹ، گندگی وغیرہ میں کوئی قابل ذکرکمی دکھائی نہیں دی ہے۔ٹھیک اسی طرح اب ’بیٹی بچاو¿ بیٹی پڑھاو¿‘سکیم کے تحت منائی جارہی ہفتہ وارتقریبات کا بھی یہی حال ہے۔ اس کے تحت بیداری پروگراموں یاتقریبات کا دائرہ بھی ضلع ، تحصیل صدر مقامات یاچند کلومیٹر مضافات تک ہی محدود ہے۔گاو¿ں میں آج بھی اس سکیم کے مستفیدین کی تعداد بہت کم ہے، جوجانتے بھی ہیں، انہیں بھی کم علمی کی وجہ سے انتظامی سطح پر لوازمات کے نام پر سخت پریشان کیاجاتاہے۔بیٹی بچاو¿، بیٹی پڑھاو¿ ‘سکیم کا مقصد صرف تقرریں، سیمینار ، کانفرنسیںاور ریلیاں نکالنا ہی مقصود نہیںبچیوں کی تعلیم وتربیت ان کی پرورش اور فلاح وبہبودی کے لئے حکومت کی طرف سے چلائی جارہی متعدد سکیموں بارے بیداری عام کرنا اور ان کی عمل آوری کو یقینی بنانا بھی ہے۔ دور دراز اور پسماندہ علاقہ جات جہاں آج کے دورمیں بھی بجلی، ٹیلی ویژن یا موبائل خدمات محدود ہیں، خواندگی کی شرح کم ہے، میں ایسی تقریبات کی ضرورت ہے جس طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ہائی کورٹ کی وکیل روزینہ افضال کہتی ہیں کہ ’بیٹی بچاو¿، بیٹی پڑھاو¿‘سکیم کے تحت تقریبات کی ضرورت دور دراز گاو¿ں میں ہے نہ کہ شہروں اور قصبہ جات میں۔یہاں کے بات قابل ذکر ہے کہ جموں وکشمیر کے جن اضلاع میں بیٹی بچاو¿، بیٹی پڑھاو¿ سکیم متعارف کی گئی ہے، وہاں زیادہ تر آبادی دیہات میںرہتی ہے جہاں پر بیشتر لوگ آج بھی اس سکیم کے بارے میں نہیںجانتے۔ ان کے مطابق بیٹی بچاو¿ بیٹی پڑھاو¿ سکیم کے تحت ان پسماندہ اور دیہات کی نشاندہی کی جائے جہاں پر لوگ بچیوں کی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ نہیں دیتے۔انہوں نے کہا کہ وہاں پر جاکر حکومت کی طرف سے چلائی جارہی سکیموں اور ان سے استفادہ حاصل کرنے کا طریقہ کار بتایاجائے تاکہ زمینی سطح پر کچھ نتائج دکھائی دیں۔ روزینہ افضال کے مطابق سرکاری دفاتروں کے احاطہ میں صرف نمائش کے لئے تقریبات منعقد کرنے سے بیٹی بچاو¿ ، بیٹی پڑھاو¿ سکیم کا کوئی فائدہ ہونے والا نہیںہے ۔گاو¿ں میں خصوصی کیمپ منعقد کر کے موقع پر ہی مستفیدین کا سکیم کے تحت اندراج کیاجا نا چاہئے ۔ ذرائع کے مطابق وادی چناب اور پیر پنجال کے دور دراز گاو¿ں میںآج بھی سرکاری سکولوں میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ غریب والدین بھی اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں کو پڑھانے کو ترجیحی دیتے ہیں جبکہ بچیوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرایاجاتاہے لیکن وہاں یہ صورتحال ہے کہ اساتذہ دستیاب نہیں۔ پسماندہ علاقوں میں سکولوں کے اندر بیت الخلاءنہیں جبکہ بچیوں کے لئے کھیل کود کا سامان میسرنہیں۔گاو¿ں میںجتنے بھی سکول ہیں، وہاں پر اساتذہ کی بے حد قلت ہے اور جو اساتذہ و استانیاں تعینات بھی ہیں، وہ بھی سیاسی اثر رسوخ کی وجہ سے یا تو گھر بیٹھ کر تنخواہ لے رہی ہیں یا پھر شہرو قصبہ جات میں اٹیچ منٹ کروا رکھی ہے۔جو بچیاں اس وقت زیر تعلیم ہیں ، ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔لڑکیوں کے لئے پہاڑی اور گوجربکروال ہوسٹل ہوں یا پھر ناری نکیتن وہاں پر لڑکیوں کو بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیں، کھانے، پینے، بسترو پہننے کے لئے حکومت کی طرف سے تو وافر مقدار میں فنڈز آتے ہیں لیکن ان کا تصرف نہیں ہورہا ہے۔ایسی صورتحال میں بیٹی پڑھاو¿ نعرہ پر عمل آوری کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ جے کے سین واچ نامی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ شبہباز خان نے بتایا کہ گوجر بکروال اور پہاڑی گرلز ہوسٹلوں میں تعلیم حاصل کر رہی بچیوں کے حالات بہت خراب ہیں۔بیٹی بچاو¿ بیٹی پڑھاو¿ تقریبات کے تحت حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے ، ان کے لئے بہترسہولیات کی فراہمی پربھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرور ت ہے۔اضلاع پونچھ و راجوری میں ناری نکیتن میں رہ رہی لڑکیاں حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ذرائع کے مطابق آشاورکروں، آنگن واڑی ورکروںکی بھی جوذمہ داریاں ہیں انہیں نبھایا ہی نہیں جاتا۔سیاسی لیڈر پروین سرور بھی سکیموں کی عمل آوری کے لئے حکومتی وانتظامی طریقہ کار سے خوش نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سوﺅچھ بھارت سکیم کے تحت افسران، سیاسی لیڈران اور حکمرانوں کے ہاتھوں میں بہت جھاڑو¿ دکھائی دیئے لیکن زمینی سطح پر صفائی تو کہیں ہوئی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہی حال بیٹی بچاﺅ ،بیٹی پڑھاﺅ مہم کا بھی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بیٹیاں آج کل عدم تحفظ کا شکار ہیں۔انہوں نے بتایاکہ مینڈھرناری نکتین میں رہ رہی بچیوں سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیاجارہاہے۔چاہے کھانے پینے کی بات ہو، بستر ہو یا پھرپہناوا، حکومت کی طرف سے پیسے تو آتے ہیں مگر عمل آوری دکھائی نہیں دے رہی۔پروین سرور کہتی ہیں کہ بیٹی بچاو¿ بیٹی پڑھاو¿ بہت اچھی سکیم ہے لیکن گاو¿ں میں اس کا ابھی بھی لوگوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں مل رہا ہے جس کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرور ت ہے۔ نامور صحافی اور جموں وکشمیر خواتین کمیشن کی چیئرپرسن نعیمہ احمد مہجورکا اس ضمن میں کہنا ہے کہ بیٹی بچاو¿، بیٹی پڑھاو¿ سکیم کی عمل آوری کامیاب طریقہ سے ہورہی ہے۔انہوں نے بتایاکہ کافی لوگوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے اور جہاں تک دور دراز گاو¿ں اس بارے بیداری کی بات ہے تو اس طرف بھی پوری توجہ دی جارہی ہے ۔ اس کے لئے انتظامیہ کو حکومت نے ضروری ہدایات بھی جاری کر رکھی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ پہلے مرحلہ میں جموں وکشمیر کے پانچ اضلاع جموں، پلوامہ، کٹھوعہ، بڈگام اور اننت ناگ کو اس زمرہ میں لایاگیاتھا۔ سال 2016میں مزید 10اضلاع سانبہ، بارمولہ، گاندربل، راجوری۔ سری نگر، شوپیاں، کلگام،اودھم پور اور بانڈی پورہ میں یہ سکیم شروع کی گئی۔
کیا ہے یہ مہم ؟
مرکزی سرکار نے بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو اسکیم اکتوبر 2014 میں متعارف کی تھی تاکہ جنسی تناسب کی کم ہو رہی شرح کو کنٹرول کیا جا سکے۔ اس اسکیم کا افتتاح 22 جنوری 2015 کو پانی پت ، ہریانہ میں کیا گیا۔ یہ منصوبہ تین وزارتوں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے جس میں وزارت برائے بہودی نسواں و اطفال، وزارت برائے فروغ صحت و بہودی خاندان اور وزارت برائے فروغ انسانی وسائل شامل ہیں۔ شعبہ برائے فروغ نسواں وا اطفال ، مجموعی طور پر اس منصوبے کے نظم و نسق اوراس کو لاگو کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اس منصوبہ کا بنیادی مقصد بچیوں کو حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں تعلیم یافتہ بنانا ،جنس کی بنیاد پر کیے جانے والے انتخاب کو روکنا،لڑکیوں کے تحفظ اور فلاح کویقینی بنانا،لڑکیوں کی تعلیم کا یقینی طور پر انتظام و اہتمام کرنا،لڑکیوں کو متوازی حقوق و اہمیت دینا اوس ساتھ ہی ا±ن کی تعلیم کو بڑھاوا دینے کے لیے ایک سماجی تحریک کا آغاز کرنا،جنسی تناسب میں آ رہی گراوٹ کو عوام کے سامنے لانا، نازک جنسی تناسب والے اضلاع اور شہروں پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے تمامی وکلی کاروائی کرنا ہے۔ تربیت یافتہ نوجوانوں،پیچایتی راج اداروں،شہری لوکل باڈیزکارکنان کے ذریعہ قبیلوں ،عورتوں،جوانوں کے تعاون سے سماجی بدلاو میں اہم رول ادا کرنا ہے۔اس سکیم کا یہ بھی مقصد ہے کہ مختلف اسکیموں ، پروگراموں سے بچوں کے حقوق اور جنسی تعصب کے بارے میں بیداری لائی جائے۔ضلع بلاک سطح پر مختلف بین القبائل اور داداوں کے بیچ تبادلہ خیال ہونا چاہیے تاکہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔مرکزی حکومت کر وزارت برائے فروغ نسواں و اطفال اس منصوبے کے بجٹ کنٹرول اور نظم و نسق کے لیے ذمہ دار ہوگی۔صوبائی سطح پر ، سیکٹریٹری ،ضلع سطح پر ، ایک ڈسٹرکٹ ٹاسک فورس ، ڈسٹرکٹ کلٹر، ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں ، متعلقہ شعبوں( شعبہ برائے فروغ صحت و خاندان؛ مخصوص مجاز ، تعلیم ، پیچایتی راج دیہاتی فروغ ، پولیس) مع مجاز ضلعی آئینی خدمات اس کو بہتر طور پر نافذ العمل کرنے اور ڈسٹرکٹ ایکشن پلان کی دیکھ بھال کرنے کی بھی ذمہ داری ہے ۔اس سکیم کو عملی شکل دینے کے لئے آنگن واڑی ورکرز، آشاورکرز کے کارکنوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو کریں اور اعداد و شمار جمع کریں ، اسکیم سے متعلق لڑکیوں اور ان کے خاندان میں معلومات فراہم کر یں۔