’انسدادِ شورش کے لئے امن عمل نا گزیر ‘ 87کے انتخابات نے ریاست کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا : وزیر اعلیٰ

اڑان نیوز
سرینگر//انسداد ِ شورش کےلئے امن عمل کو ناگزیر قرار دےتے ہوئے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے واضح کیا کہ بندوق یا فوج کے ذریعے کشمیر میں امن قائم نہیں ہوگا ۔انہوں نے جموں وکشمیر کے حوا لے سے مذاکراتی عمل کی وکا لت کرتے ہوئے کہا کہ ہر مسئلہ صرف بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے ۔تاہم اپویشن کو ہد ف تنقید بناتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ 1987کے انتخابات کے دوران اگر جمہوری فیصلے کو تسلیم کیا گیا ہوتا توآج کشمیر میں بد امنی نہیں ہوتی ۔ قانون سازیہ کے ایوان زیریں میں خصوصی اجلاس کے دوران اپوزیشن ممبران کی جانب سے زوردار شور شرابہ اور حکومت مخالف نعرہ بازی کے بیچ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ کشمیر مسئلے کو صرف اور صرف امن مذاکرات سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ان کا کہناتھا کہ کشمیر میں بد امنی کا خاتمہ صرف اور صرف مذاکرات کی راہ سے تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ایوان اسمبلی سے مرکزی کی جانب مخاطب ہوکر محبوبہ مفتی نے کہا ’نہ بندوق اور ناہی فوج کشمیر میں امن لا سکتی ہے ‘۔محبوبہ مفتی نے حالیہ جنگجویانہ کارروائیوں میں پولیس و فورسز اہلکاروں کی ہلاکت پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ’ہمارے فوجی شہید ہورہے ہیں ،نہ ہی بندوق اور نہ ہی آرمی کشمیر میں امن قائم کرسکتی ہے۔‘مرکزی حکومت سے ایوان اسمبلی سے مخاطب ہو کر کہا ’ کشمیر میں بد امنی اور شورش کو صرف اور صرف تسلسل کے ساتھ مذاکرات سے خاتمہ کیا جاسکتا ہے‘۔محبوبہ مفتی نے نئی دلی کی اشارہ دےتے ہوئے کہا’ ہمارے فوجی مررہے ہیں ،آپ بندوق سے ،فوج سے ،کوئی مسئلہ حل نہیں کرسکتے ،بس بات سے ہی ہر ایک مسئلے کو حل کرسکتے ہیں ‘۔وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ کشمیر میں آگے بڑھنے کےلئے مذاکرات کا راستہ اختیار کر نا ہوگا اور مفاہمتی حمل سے ہی امن کی راہ تلاش کی جاسکتی ہے ۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ حکومت کشمیر میں بحالی جمہوریت کے اقدامات اٹھا ئے ہیں ۔ان کا کہناتھا کہ کشمیر وادی میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔محبوبہ مفتی نے کہا ’نوجوان ایس ایچ او کو کل اننت ناگ میں قتل کیا گیا کیو نکہ جموں وکشمیر میں جمہوریت سے انکار کیا گیا ۔ محبوبہ مفتی کا یہ رد عمل جمعہ کو پیش آئے ہلاکت خیز واقعات جن میں 11افراد مارے گئے ،کے ایک روز بعد سامنے آیا ۔ محبوبہ مفتی نے اپنی تقریر کے دوران این سی اور کانگریس کو ہدف تنقید بنایا ۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن پارٹی نیشنل کانفرنس نے ماضی میں غلط پالیسیاں اپنائیں جو خطے میں موجودہ کشیدگی ،شورش اور بد امنی کی بنیادی وجہ ہے۔ان کا کہناتھا کہ1987 کے اسمبلی انتخابات نے کشمیر کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مذاکرات آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے ،لیکن ریاست میں کچھ سیاسی طاقتیں ایسی ہیں ،جو امن اقدامات کو سبو تاژ کر رہی ہے ۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ 1987میں اگر کشمیر میں جمہوریت کا پنپنے کا موقع دیا گیا ہوتا تو آج سید صلاح الدین اور محمد یاسین ملک بھی ہوتے ہیں کیو نکہ وہ ان انتخابات کا ایک حصہ تھے ۔ان کا کہناتھا کہ موجودہ بد امنی کی بنیادی وجہ1987کے جانبدارانہ انتخابات ہی ہے ۔ ان کا کہناتھا کہ میں وزیر اعظم کو بات چیت کےلئے قائل کروں گی ،کانگریس دور میں وزیر اعظم کو بات چیت کےلئے قائل کیوں نہیں کیا گیا ،جو کچھ بھی ہوا ،وہ صرف اور صرف واجپائی کے دور ِ اقتدار میں ہوا ،نریندر مودی نے پاکستان کا دروہ کیا ،پٹھان کوٹ ہوگیا لیکن من موہن سنگھ اپنے دور ِ اقتدار کے دوران اپنے آبائی گاﺅں جو پاکستان میں ہے ،نہیں جاسکے ۔ان کا کہناتھا کہ یہاں مذاکرات کی مخالفت ماضی میں ہوئی ہے ۔ان کا کہناتھا کہ ’جب اند ر گجرال نے قاضی میں کہا ہم بات چیت چاہتے ہیں ،تو ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا اگر نئی دلی علیحد گی پسندوں سے بات کی تو وہ پہلے شخص ہونگے جو بھارت کے خلاف جائیں گے ‘۔محبوبہ مفتی نے مزید کہا’ 1996میں جب میں نے بات چیت کی تجویز دی ،تو اُس وقت کے وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ ان علیحدگی پسندوں کو جہلم میں پھینکا جانا چاہئے ۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ جب واجپائی نے رمضان میں سیز فائر کا اعلان کیا ،تو میں نے اپنے ڈی جی سے کہا جاﺅں اُن کو لاﺅ ‘۔ان کا کہناتھا کہ سنجیدہ اقدامات اٹھائے گئے ،لیکن مذاکرات سے انکار کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ جب شرد یادﺅ اور دیگر لیڈران آئے ،میں نے حریت کو خط لکھ کر مذاکرات کی وکالت کی اور بات کی کھڑکی کھولنے کا کہا لیکن مسترد کی گئی ‘۔محبوبہ مفتی نے کہا ’ہم کیا کرسکتے ہیں؟‘۔