’ بھارت کے ساتھ الحاق مشروط‘ دھونس ودباﺅ کی پالیسی یا مالی پیکیجوں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا: عمر عبداللہ

اڑان نیوز
سرینگر// نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ناراض نوجوانوں اور طلباءو طالبات کیخلاف دھونس و دباﺅ کی پالیسی امن و امان کی بحالی میں سود مند نہیں بلکہ اس سے زمینی سطح پر پہلے سے ہی پائے جارہے احساس بے تعلقی اور غم و غصے میں مزید اضافہ ہوگا۔اتوار کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر پر مرزا محمد افضل بیگ اور غلام محی الدین شاہ کو برسیوں پر خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے سکولوں کو میدانِ جنگ بنا کر رکھ دیاہے اور احتجاج کررہے طلباءو طالبات کے غصے کو سمجھنے کی بجائے سکولوں میں ٹیئرگیس، پتھر اور پیلٹ داغے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طلبا کے ساتھ بات چیت کرنے کی بجائے انہیں ڈرا دھمکایا ، دہشت زدہ اور خوفزدہ کیا جارہاہے۔ عمر عبداللہ نے الزام لگایا کہ محبوبہ مفتی نے اقرباپروری کی تمام حدیں پار کرکے رشتہ داروں اور منظور نظر افراد کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا ہے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ لوگوں کے پاس جانے اور بات کرنے سے ہی مسئلے حل ہوتے ہیں۔ مرکزی اور ریاستی سرکاروں کوآڑے ہاتھوں لیتے ہوئے این سی کارگذار صدر نے کہا کہ مرکزی وزیر کہتے ہیں کشمیر میدانِ جنگ ہے اور جنگ میں زمینی سطح پر فوجی کمانڈر کوئی بھی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے دونوں حکومتوں سے پوچھا کہ کشمیر کو جنگ کا میدان کس نے بنایا؟۔عمر عبداللہ نے کہا کہ 2014کے بعد وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہتے تھا۔ پی ڈی پی اور بھاجپا کی حکومت معرض وجود آئی حالانکہ پی ڈی پی نے کشمیر میں بھاجپا کیخلاف ووٹ مانگے تھے۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی نے عوام سے کی گئی دھوکہ دہی کو جواز بخشنے کیلئے ایجنڈا آف الائنس کا ڈھنڈورہ پیٹا ، جس میں افسپا کی منسوخی، فوج تخفیف، بجلی گھروں کی واپسی، حریت سمیت تمام سیاسی نظریات رکھنے والوں اور پاکستان کیساتھ بات چیت، دفعہ370پر جوں کی توں پوزیشن اور کئی سبز باغ دکھائے گئے۔ تاہم اڑھائی سال گزرجانے کے باوجود ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا بلکہ سب کچھ اس کے الٹ ہوا ۔عمر عبداللہ نے کہا کہ پی ڈی پی اور بھاجپانے کشمیر کو ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں اب الیکشن کروانا بھی ممکن نہیں ۔ الیکشن بائیکاٹ کی کالیں پہلے بھی کی جاتی تھیں لیکن اس کا مقابلہ کیا جاتا تھا اور لوگ گھروں سے ووٹ ڈالنے نکلتے تھے۔ سرینگر انتخابات میں 30سے 40فیصدی ووٹنگ ہوتی تھی لیکن اس بار صرف 7فیصدی ووٹ پڑے اور جنوبی کشمیر کے انتخابات منسوخ کرنے پڑے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کی منسوخی کوئی چھوٹی بات نہیں مگر اس کے باوجود مرکزی اور ریاستی حکومتیں ٹس سے مس نہیں ہورہی ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ اور این سی کارگذار صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ دونوں حکومتوں کو ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ مالی پیکیج ، تعمیر و ترقی اور دھونس و دباﺅ کی پالیسی سے نہ تو مسئلہ حل ہوگا اور نہ ہی امن و امان لوٹ آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ایوان میں بھی یہ بات کہی ہے کہ کشمیر سیاسی مسئلہ ہے اور یہ پیسوں اور اقتصادی پیکیجوں سے حل ہونے والا نہیں۔ جموں وکشمیر اور دیگر ریاستوں میں بہت فرق ہے کیونکہ یہاں ہمارا اپنا آئین، اپنا جھنڈا اور اپنی پہچان ہے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کا بھارت کے ساتھ دفعہ370کے تحت مشروط الحاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1947سے لیکر آج تک ہمارے ساتھ سیاسی کھلواڑ کیا جارہاہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن مکمل طور پر بحال کی جائے اور دفعہ370میں جتنی بھی تخفیف کی گئی ہے وہ واپس ہونی چاہئے۔ جی ایس ٹی کے اطلاق کو ریاست کی اقتصادی خودمختاری کیلئے سم قاتل قرار دیتے ہوئے عمر عبداللہ کہا کہ پارٹی نے گورنر کو پہلے سے اپنے خدشات ظاہر کردیئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو موجودہ ریاستی وزیر خزانہ پہلے جی ایس ٹی کے جموںوکشمیر میں اطلاق کی مخالفت کرتے تھے لیکن آج انہیں جی ایس ٹی لاگو کرنے سے کوئی پرہیز نہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ پی ڈی پی والوں نے اقتدار کی خاطر دلی کے سامنے اپنا ضمیر تک گروی رکھ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست کی اقتصادی خودمختاری کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں د ی جائے گی چاہے اس کے لئے کوئی بھی قربانیوں کیوں نہ دینی پڑی۔اس موقع پر پارٹی کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفےٰ کمال ، سینئر لیڈران چودھری محمد رمضان، محمد شفیع اوڑی، شریف الدین شارق، ناصر اسلم وانی، مبارک گل، سکینہ ایتو، محمد اکبر لون، علی محمد ڈار، شمیمہ فردوس، عرفان احمد شاہ، ایڈوکیٹ عبدالمجید لارمی، الطاف احمد کلو، قیصر جمشید لون، شوکت حسین گنائی، سلمان علی ساگر، جنید عظیم متو، ضلع صدور، بلاک صدور ، یوتھ اور خواتین ونگ کے عہدیدارن بھی موجود تھے۔