نئے سرے سے پولنگ تلخ تجربہ ثابت 38پولنگ اسٹیشنوں پرووٹ ڈالنے کی شرح محض 2 فیصد رہی چرا رشریف ، چاڈورہ ، بیروہ اور خانصاحب کے اکثر و بیشتر پولنگ مراکز پر دن بھر الو بول رہے تھے ، سیاسی پارٹیوں کے ایجنٹ بھی نظر نہیںآئے

سری نگروادی¿ کشمیر میں سری نگر کی پارلیمانی نشست کے لئے وسطی ضلع بڈگام کے 38 پولنگ اسٹیشنوں پر جمعرات کو غیرمعمولی حفاظتی انتظامات کے درمیان دوبارہ پولنگ (ری پولنگ) ہوئی۔ تشدد کے خدشے کے برخلاف پولنگ کا عمل بغیر کسی ناخوشگوار واقعہ کے اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ تاہم چند ایک مقامات پر آزادی حامی مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان معمولی نوعیت کی جھڑپیںہوئیں۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ پولنگ کا سلسلہ صبح سات بجے شروع ہوکر شام چار بجے تک جاری رہا۔ انہوں نے بتایا کہ 35 ہزار 169 رائے دہندگان میں سے صرف 709 رائے دہندگان نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ 38 پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹوں کی شرح محض 2 فیصد رہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 38 میں سے 27 پولنگ اسٹیشنوں پر ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔ خیال رہے کہ 9 اپریل کو سری نگر، بڈگام اور گاندربل اضلاع پر مشتمل پارلیمانی نشست پر ضمنی انتخابات کے تحت پولنگ کے دوران آزادی حامی مظاہرین نے 38 پولنگ اسٹیشنوں میں سیکورٹی فورسز اور انتخابی عملے پر حملہ کرکے انہیں اپنے قبضے میں لے لیا تھا جس کی وجہ سے پولنگ کے عمل کو بیچ میں ہی روکنا پڑا تھا۔ ان میں سے ایک پولنگ اسٹیشن وہ بھی تھا جہاں احتجاجی مظاہرین نے قریب ایک درجن سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) اہلکاروں کو کم از کم پانچ گھنٹوں تک یرغمال بنا رکھا تھا۔ 9 اپریل کو پولنگ کے دوران آزادی حامی احتجاجی مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے مابین بدترین جھڑپوں میں بڈگام اور گاندربل اضلاع میں 8نوجوان ہلاک جبکہ قریب 150 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔ جھڑپوں کے دوران سیکورٹی فورسز کی کاروائی میں ضلع بڈگام میں 7 جبکہ ضلع گاندربل میں ایک نوجوان جاں بحق ہوا تھا۔یہ ہلاکتیں مبینہ طور پر سیکورٹی فورسز کی جانب سے آزادی حامی مظاہرین کے خلاف بے تحاشہ طاقت کے استعمال کے سبب ہوئی تھیں۔ اگرچہ شہری ہلاکتوں سے پیدا شدہ صورتحال کے پیش نظر الیکشن کمیشن آف انڈیا نے گذشتہ روز جنوبی کشمیر کے چار حساس اضلاع اننت ناگ، پلوامہ، کولگام اور شوپیان پر مشتمل اننت ناگ پارلیمانی نشست کے لئے 12 اپریل کو ہونے والے پولنگ ملتوی کرنے کا اعلان کردیا ، تاہم ضلع بڈگام کے اُن 38 پولنگ اسٹیشنوں پر 13 اپریل کو دوبارہ پولنگ کرانے کا غیرمتوقع اعلان کردیا جہاں 9 اپریل کو تشدد بھڑک اٹھنے سے ووٹ نہیں ڈالے جاسکے تھے۔ کشمیر انتظامیہ نے ضلع بڈگام میں ری پولنگ کے دوران کسی بھی طرح کے ناخوشگوار واقعات کو ٹالنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری جمعیت تعینات کردی تھی جس کی وجہ سے پورا ضلع بڈگام ایک بڑی فوجی چھاونی کا منظر پیش کررہا تھا۔ رپورٹوں کے مطابق ضلع میں رائے دہندگان کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے کے لئے پرامن ماحول فراہم کرنے کے لئے نیم فوجی دستوں کی 50 اضافی کمپنیاں تعینات کی گئی تھیں۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے مختلف پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کیا، نے بتایا کہ چند ایک پولنگ اسٹیشنوں میں سیاسی جماعتوں کے ایجنٹ بھی نظر نہیں آئے۔ انہوں نے بتایا کہ ان پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات انتخابی عملہ رائے دہندگان کا انتظار کرتے کرتے تھکے ہوئے نظر آرہے تھے۔ نامہ نگار کے مطابق ہر پولنگ اسٹیشن کے اردگرد سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورس اور ریاستی پولیس کے اہلکار تعینات کئے گئے تھے جبکہ سینئر پولیس افسران بذات خود صورتحال کو مانیٹر کررہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر پولنگ والے علاقوں کی سڑکیں سنسان نظر آرہی تھیں اور ان پر خال خال ہی کوئی راہگیر چلتا ہوا نظر آرہا تھا۔ تاہم سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود ضلع بڈگام میں چند ایک مقامات بشمول نصراللہ پورہ، بیروہ اور سویہ بگ میں آزادی حامی مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن کے دوران سیکورٹی فورسز نے احتجاجیوں کو منتشر کرنے آنسوں گیس کی شیلنگ اور پیلٹ گنوں سے فائرنگ کی۔ ایک رپورٹ کے مطابق نصراللہ پورہ بڈگام میں سیکورٹی فورسز نے احتجاجیوں کو منتشر کرنے کے لئے اُس وقت طاقت کا استعمال کیا جب درجنوں مظاہرین نے ٹکی پورہ میں قائم پولنگ اسٹیشن کی طرف پیش قدمی کرنے کی کوشش کی۔ جھڑپوں کے دوران متعدد احتجاجیوں کو معمولی نوعیت کی چوٹیں آنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اس دعوے کے باوجود کہ ضلع بڈگام میں کسی بھی پولنگ اسٹیشن کو منتقل نہیں کیا جائے گا، الیکشن انتظامیہ نے دو پولنگ اسٹیشنوں کو راتوں رات دوسری جگہ پر منتقل کیا تھا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق الیکشن انتظامیہ نے تشدد بھڑک اٹھنے کے خدشے کے پیش نظر پولنگ اسٹیشن نصراللہ پورہ بی اور نصراللہ پورہ سی کو ٹکی پورہ منتقل کیا تھا۔ ان اطلاعات کے مطابق اہلیان ٹکی پورہ جمعرات کی صبح اُس وقت ششدر ہوکر رہ گئے جب انہوں نے اپنے گاو¿ں میں نصراللہ پورہ کے پولنگ اسٹیشن پائے۔ بتایا جارہا ہے کہ اگرچہ اہلیان ٹکی پورہ نے اس پر اپنا اعتراض ظاہر کیا تھا، تاہم علاقہ میں بڑی تعداد میں تعینات کئے گئے سیکورٹی فورسز و ریاستی پولیس کے اہلکاروں نے انہیں اپنے گھروں تک ہی محدود رہنے کے لئے کہا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ ضلع بڈگام میں ری پولنگ والے علاقوں کو چھوڑ کر باقی سبھی حصوں میں دفعہ 144 کے تحت چار یا اس سے زیادہ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق ری پولنگ کے دوران ضلع بڈگام کے سبھی علاقوں میں غیرمعمولی ہڑتال رہی جس کے دوران دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ موصولہ اطلاعات کے ضلع کو گرمائی دارالحکومت سری نگر کے ساتھ جوڑنے والی سڑکوں پر بھی گاڑیوں کی آمدورفت بند رہی۔ کشمیری علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے وسطی ضلع بڈگام کے تمام ری پولنگ والے علاقوں میں الیکشن بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ مکمل اور ہمہ گیر ہڑتال کرنے کی کال دے دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان علاقہ جات کو اضافی فورسز تعینات کرکے اگرچہ عملاً فوجی چھاو¿نیوں میں تبدیل کردیا گیا ہے، البتہ عوام سب سے بڑی طاقت ہے اور وہ 9اپریل کی طرح پوری ہمت اور حوصلے کے علاوہ بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کریں گے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق سری نگر کی پارلیمانی نشست کے تحت جمعرات کو جن 38 پولنگ اسٹیشنوں پر ری پولنگ ہوئی، وہ سبھی ضلع بڈگام میں پڑتے ہیں۔ بڈگام اسمبلی حلقہ میں نصراللہ پورہ بی، نصراللہ پورہ سی، گلوان پورہ اے، ہری پورہ، واراسنگم، سویہ بگ ایچ، پتلی باغ اور گلوان پورہ بی، چاڈورہ اسمبلی حلقہ میں بوگام بتہ پورہ بی، بوگام بتہ پورہ بی، نوبگ، چیک مہند جو دھر، واتھورہ، زولواہ، گوپال پورہ اے، گوپال پورہ بی، ڈونی واری، کرال پورہ اے، کرال پورہ بی، کرال پورہ ڈی، دھرم بگ بی، باغ مہتاب بی اور دھرم بگ، بیروہ اسمبلی حلقہ میں کانہامہ، بدرھن بی، پہر پورہ، سہ پورہ اور گوندھی پورہ اے، چرار شریف حلقہ انتخاب میں ریپورہ، گوپال سیف، نوپورہ، چرار شریف ایم، کانر اے، کانر بی، حشرو اور واگام اور خانصاحب حلقہ انتخاب میں کندورا بی میں ری پولنگ ہوئی ہے۔ سری نگر کی پارلیمانی نشست کے لئے انتخابات لڑرہے سات امیدواروں مرزا سجاد حسین، حاجی غلام حسن ڈار، انجینئر سجاد ریشی، چیتن شرما، بکرم سنگھ، معراج خورشید ملک اور فاروق احمد ڈار نے بدھ کو یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لوگوں سے 38 پولنگ اسٹیشنوں پر ہونے والی ری پولنگ کا بائیکاٹ کرنے کے لئے کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ری پولنگ کا فیصلہ اُن کی تجاویز حاصل کئے بغیر لیا گیا۔ وادی کی انتخابی تاریخ میں اب تک کی بدترین آزادی حامی جھڑپوں کے بیچ ہونے والے ضمنی انتخابات میں 9 اپریل کو پولنگ کی شرح محض 7 اعشاریہ 14 ریکارڈ کی گئی تھی۔اس طرح سے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے نذیر احمد خان سمیت 9امیدواروں کی قسمت الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں بند ہوگئی تھی۔ 2014 ءکے پارلیمانی انتخابات میں سری نگر پارلیمانی حلقہ میں 26 فیصد ووٹ پڑے تھے۔اس طرح سے گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں پولنگ کی شرح 19 فیصد کم ریکارڈ کی گئی تھی۔الیکشن کمیشن کے مطابق 9 اپریل کو 12 لاکھ 59 ہزار 638 رائے دہندگان میں سے محض 90 ہزار 50 رائے دہندگان نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔