پی ڈی پی کو جھٹکا وکرم آد تیہ مستعفی حکمراں جماعت پر جموں کے تئیں غیر سنجیدگی کا الزام لگایا، کہاتینوں خطوں کے علاقائی تشخص کو بھی خطرہ محبوبہ مفتی والد کے نقش قدم پر چلنے میں مکمل طور ناکام، پارٹی اندورنی خلفشار کا شکار، ورکرز بھی ناخوش

الطاف حسین جنجوعہ
جموں//ریاست کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ کے پوتے وکرم آدتیہ سنگھ حکمراں جماعت پی ڈی پی سے مستعفیٰ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے برسر اقتدار مخلوط حکومت بالخصوص پی ڈی پی پر جموں مخالف پالیسیاں اپنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے بطور ممبر قانون ساز کونسل سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ اس کے لئے انہوں قانون ساز کونسل چیئرمین حاجی عنایت علی کو بھی تحریری طور پر مطلع کیا ہے کہ ان کا استعفیٰ قبول کیاجائے۔وکرم آدتیہ نے اتوار کے روز سماجی رابطہ ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنا استعفیٰ کا خط پوسٹ کیا جس سے پورے سیاسی حلقوں میں اتھل پتھل مچ گئی۔ بعد ازاں وکرم آدتیہ نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں کہاکہ وہ اس لئے مستعفی ہورہے ہیں کیونکہ پارٹی اور ان کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی نہیں۔ انہوں نے ریاست میں غیر قانونی طور روہنگیامسلمانوں کو بسائے جانے، ڈوگرہ حکمرانوں کی خدمات وحیات کو ریاستی نصابی کتابوں میں شامل کرنے اور مہاراجہ ہری سنگھ کے یومِ پیدائش پر سرکاری تعطیل کی مانگ کی تھی جس کو سرے سے خارج کیاگیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پی ڈی پی نے جموں خطہ کے لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیاہے۔وکرم آدتیہ نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی پر جموں مخالف پالیسیاں اپنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے والد مرحوم مفتی محمد سعید کے نقش قدم پر نہیں چل رہی ہیں جوکہ ریاست کے تینوں خطوں کو متحد رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا”حکومت کی طرف سے اپنائی جارہی امتیازی اور جموں مخالف پالیسیوں کی وجہ سے انہیں پارٹی کے اندر گھٹن محسوس ہورہی تھی۔اخلاقی لحاظ سے میرے لئے پی ڈی پی میں رہنا درست نہیں تھا“۔وکرم آدتیہ نے کہاکہ مفتی محمد سعید کی قائدانہ صلاحیتوں اور سیکولر نظریات کی وجہ سے انہوں نے پی ڈی پی کا دامن تھاماتھا۔ موصوف نے کہا”میں اپنے آپ کو خطہ جموں کے تمام طبقہ جات کے لئے پی ڈی پی کا چہرہ مانتا تھااورخطہ کے سیکولر اتحاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیشہ پارٹی مضبوط بنانے کے لئے کام کیا ، لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود حاصل کچھ نہ ہوا لہٰذا میں نہ صر ف پی ڈی پی لیڈر بلکہ قانون ساز کونسل سے بھی استعفیٰ دیتا ہوں، میں کونسل چیئرمین کو بھی تحریری طور عرض کروں گا کہ وہ میرا استعفیٰ منظور کریں“اپنے سیاسی سفر بارے وکرم آدتیہ نے کہاکہ چار برس قبل مفتی محمد سعید نے پارٹی کے ایک سنیئرلیڈر کو بھیج کر انہیں سری نگر بلایا جہاں ان سے رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی۔ مفتی محمد سعید نے ان سے کہاکہ وہ ریاست جموں وکشمیر کے تینوں خطوں کے لوگوں کو آپس میں ملانا چاہتے ہیں۔ ان (وکرم آ تیہ سنگھ )کا تعلق ایک ایسے کنبہ سے ہے جس نے ریاست کی تعمیر وترقی میں بہت رول ادا کیا ہے، اگروہ سیاست میں آنا چاہتے ہوتو پی ڈی پی میں شمولیت اختیارکریں۔ وکرم آدتیہ نے کہا”مفتی محمد سعید کی پیشکش کے بعد میں نے سوچاکہ وہ تجربہ کار سیاستدان ہیں، سیکولر کردار کے مالک ہیں، سیاست میں ان سے بہتر کوئی ٹیچر نہیں ہوسکتا، اس لئے میں نے پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کر کے ریاست جموں وکشمیر کی تعمیر وترقی میں اپنا رول ادا کرنے کا ایک نادر موقع سمجھا لیکن افسوس کی بات ہے کہ مفتی محمد سعید لمبے عرصہ تک نہیں رہے، ان کی وفات کے بعد پی ڈی پی میں اندرونی خلفشار کا شکار ہوگئی۔ ریاست کے اندر کافی غیر یقینی صورتحال رہی“۔پی ڈی پی پر جموں خطہ کے مسائل کے تئیں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے وکرم آدتیہ نے کہا” جب بھی میں نے جموں کے مسائل اٹھائے مجھے اپنی پارٹی کی طرف سے کوئی حمایت نہیں ملی ، اُلٹا مجھے ہمیشہ چپ رہنے کو کہاگیا۔ قانون ساز کونسل کی میٹنگیں ہوں، پریس بیانات یا مضامین وغیرہ کے ذریعہ میں نے جموں خطہ سے جڑے مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش لیکن ایسا کرنے سے پی ڈی پی قیادت ولیڈران مجھ سے دور ہوتے گئے اور میری باتوں کو یکسر نظر انداز کیاجانے لگا۔ میں نے ڈوگرہ سرٹیفکیٹ، سرحد پر رہنے والے لوگوں کو درپیش مشکلات ومسائل، محفوظ مقامات پر بنکرز اور پلاٹوں کی الاٹمنٹ ، زمینداروں ، جموں میں روہنگیا مسلمانوں کی غیر قانونی رہائش، تعلیم محکمہ میں ڈوگروں کی تاریخ کو نظر انداز کرنے، پبلک سروس کمیشن کے امتیازی رویہ وغیرہ مسائل کو اجاگر خٰٓ لیکن میری پارٹی نے مجھے کبھی حمایت نہ دی۔ ”جب کبھی بھی میں نے خطہ جموں کا مسئلہ اٹھایا، بجائے حمایت کے حکومت کی طرف سے ہمیشہ مجھے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، ہر بار مجھے دبانے کی کوشش کی گئی“۔ڈوگرہ حکمرانوں کی تاریخ کو مسخ اور ڈوگرہ تہذیب وتمدن کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے وکرم آدتیہ نے کہاکہ ریاست جموں وکشمیر کے اندر سکول کی نصابی کتابوں میں ڈوگرہ حکمرانوں کی تاریخ کا ذکر نہیں ہے صرف چند سطریں ہی ہیں۔ ڈوگرہ حکمرانوں کی طرف سے سماجی اصلاح، تعلیم کے فروغ، آبپاشی نظام اور جموں وکشمیر کے سبھی حصوں کو متحد رکھنے کے لئے بہت کام کیا ہے جس پر کئی کتابیں تحریر ہوسکتی ہیں لیکن سکول کی نصابی کتابوں میں ان کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ اس ضمن میں نعیم اختر اور سید الطاف بخاری کو انہوں نے تحریری مکتوب بھی لکھے لیکن اس پر کوئی عمل نہ ہوا۔ اس کا اُلٹا نتیجہ یہ ہو اکہ پی ڈی پی لیڈران مجھ سے دور ہونا شروع ہوگئے۔انہوں نے بتایا” اب مجھے لگا کہ پارٹی کو میری ضرورت نہیں اور نہ ہی میں پارٹی کا حصہ ہوکر کچھ کر پارہا ہوں لہٰذا ایم ایل سی بنے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے اپنے ضمیر کی آواز کو سنتے ہوئے میں نے اخلاقی بنیادوں پر پی ڈی پی لیڈر اور ایم ایل سی عہدہ سے استعفیٰ دیا ہے“۔ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سوالا ت کا جواب دیتے ہوئے وکرم آدتیہ نے کہاکہ وہ بذات خود کوئی سیاسی لیڈر نہ تھے اور نہ ہی ان کا سیاست میں آنا کوئی خاص سیاسی مقصد تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ 20-25برس قبل اس میں کود گئے ہوتے۔ انہوں نے اس لئے سیاست میں شمولیت اختیار کی تھی جمہوری نظام کا حصہ بن کر صرف ریاست کی تعمیر وترقی ، ہم آہنگی، آپسی بھائی چارہ کو قائم ودائم رکھنے کے لئے اپنی طرف سے جتنا ممکن ہوسکے وہ کریں۔پی ڈی پی کے اندرونی خلفشار بارے پوچھے جانے پر وکرم آدتیہ نے کہا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ مستعفی ہوکر میں پارٹی کے بارے میں کچھ غلط بیانی کر یں ہاں البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ پی ڈی پی کے زمینی سطح کے ورکر لیڈران سے خوش نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے مسائل ومشکلات کی طرف کوئی توجہ دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اپنے والد مرحوم مفتی محمد سعید کے مشن کو آگے لیجانے میں مکمل طور ناکام رہی ہیں۔ مفتی سعید کہتے تھے کہ ریاست کے سبھی خطوں کے لوگوں کے دلوں کو جوڑنا ان کا مقصد ہے لیکن دل جڑے کہاں ہیں، سب ٹوٹے ہی ہیں۔ ریاست کی خصوصی پوزیشن ،علیحدہ آئین اور جھنڈے بارے پوچھے جانے پر وکرم آدتیہ سنگھ نے کہاکہ دو دو جھنڈے لہرانے، خصوصی درجہ کا راگ الاپنے سے کچھ نہیں ہوگا، اس سے لوگ خوش نہیں ہوں گے۔ خصوصی پوزیشن اور دو جھنڈوں کی اہمیت تب ہوتی جب علاقائی تشخص کو قائم رکھاجاتا، سبھی علاقوں، ذیلی علاقوں، طبقہ جات کوعزت ووقار دیاجاتا۔ ان کی منفرد تہذیب وتمدن ، ورثہ اور ثقافت کو تحفظ دیاجاتا لیکن ایسا تو کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ ریاست کے تینوں خطوں اور علاقے الگ الگ سمت میں چل رہے ہیں۔ ہر ایک کی اپنی توقعات، خواہشات اور تحفظات ہیں جن کا ازالہ حکومتی سطح پر ہو نہیں رہا۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا” ریاست کی یکجہتی کہاں ہے ، حکومت ہند کو فوری اقدام کرنے چاہئے۔ اس معاملہ پر غور کرنا چاہئے، مرکزی زیر انتظام علاقہ کی مانگ کرنے والے، جموں کو علیحدہ ریاست بنانے یا پھر کشمیریوں کے مسائل ومطالبات پرحکومت ہند کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو یہ ریاست بالکل بکھر جائے گی۔مستقل بارے پوچھے جانے پر وکرم آدتیہ نے کہاکہ اس بارے کچھ سوچا نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ جموں کو انصاف ملنا چاہئے۔ لداخ خطہ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے اور جوبھی فیصلہ ہوگا وہ اہل خانہ، خیرخواہوں اور ورکروں سے صلاح ومشورہ کے بعد ہی لیں گے۔انہوں نے مزید کہاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی بھی خطہ جموں کے لوگوں کے ساتھ انصاف کرنے میں ناکام رہی ہے۔ 23ستمبر کو مہاراجہ ہری سنگھ کے یوم پیدائش کے دن بھاجپا لیڈران کے تئیں لوگوں کا غم وغصہ اس بات کا مظہر ہے اور باقی عوام جانتی ہے کہ بھاجپا کتنی کامیاب اور کتنی ناکام رہی۔ یاد رہے کہ وکرم آدتیہ جموں وکشمیر ریاست کے پہلے صدر ریاست اور کانگریس کے بزرگ ترین رہنما ڈاکٹر کرن سنگھ کے بڑے فرزند ہیں ، جنہوں نے 8اگست 2014کو باقاعدہ طور پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وکرم آدتیہ کے دوسرے بھائی اجات شترو سنگھ بھارتیہ جنتا پارٹی سے ایم ایل سی ہیں۔ وہ پہلے نیشنل کانفرنس میں تھے اور اسمبلی میں نگورٹہ اسمبلی حلقہ کی نمائندگی کی تھی جب کہ وہ پارٹی کے ایم ایل سی بھی رہے۔ 2015میں انہوں نے نیشنل کانفرنس کو خیر اباد کہہ کر بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی جس کے صلہ میں انہیں ایم ایل سی بنایاگیاتھا۔۔5اگست 1964کو ممبئی مہاراشٹرمیں پیدا ہوئے وکرم آد تیہ نے اپنا زیادہ تر وقت ہماچل پردیش میں گذارا ہے جہاں پر ان کا ہوٹل کا کاروبار اور تجارت ہے۔ وہ تارا گڑھ پیلیس ہوٹل کانگڑہ کے منیجنگ ڈائریکٹر بھی ہیں۔ اپنی تعلیم انہوں نے ساؤدرن یونیورسٹی کیلی فورنیاسے مکمل کی ہے اور 1987کو گوالیارکے مہارجہ مادھوراو¿ سندھیا کی دخترچتر گندا سنڈھیاسے شادی کی۔ وہ مہاراجہ گلاب سنگھ کی طرف سے بنائے گئے جموں وکشمیر دھرم ارتھ ٹرسٹ کے ٹرسٹی بھی ہیں۔