کشمیری روایتی لباس ‘پھیرن’ مقامی سطح پر ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی لوگوں کی الماریوں کی زینت بن رہا ہے

سری نگر//وادی کشمیر میں موسم سرما کی ٹھٹھرتی سردیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے استعمال کیا جانے والا روایتی لباس ‘پھیرن’ مقامی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر لوگوں کی الماریوں کی زینت بن رہا ہے اور کشمیری ‘پھیرن’ کا بین الاقوامی سطح پر لوگوں کے گھروں اور دلوں میں گھر کرنے کا سہرا ای کامرس اندسٹری کے سر جاتا ہے۔وادی کی منفرد دستکاریاں تو دنیا کے گوشہ و کنار میں پہلے ہی اپنا مقام حاصل کر چکی ہیں اور کانگڑیوں کے بعد اب روایتی پھیرن عالمی سطح پر اپنی شناخت بنا کر کشمیری کلچر کی ایک علامت بن رہا ہے۔پھیرن ایک لمبا اور ڈھیلا ڈھالا لباس ہے، جو عام طور پر اون سے بنا ہوتا ہے۔ کشمیر میں اس کو زمستانی ہوائوں کا مقابلہ کرنے کے لئے صدیوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔عصر حاضر میں اس کو نہ صرف جدید تقاضوں کے مطابق بلکہ مروجہ فیشن کے مطابق بھی تیار کیا جاتا ہے اور بازاروں میں جدید ترین اور مختلف النوع ملبوسات کی دستیابی کے با وصف لوگ زن ومرد ہوں یا خورد و جوان ہوں اس کو سرما کی دستک کے ساتھ ہی زیب تن کرتے ہیں۔پھیرن کو متعدد ای کامرس ویب سائیٹوں کی وساطت سے کشمیری پھیرن کو بین الاقوامی شناخت حاصل ہو رہی ہے۔قومی ای کامرس پلیٹ فارم پر بھی کشمیری پھیرن دستیاب ہے اور اس کو ملک بھر میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ان ہی پلیٹ فارموں سے پھیرن دنیا بھر کے لوگوں کی الماریوں کی زینت بن رہا ہے اور اس کی خریداری میں اضافہ درج ہو رہا ہے۔محمد رضوان نامی ایک دکاندار نے بتایا کہ میں آن لائن پھیرن فروخت کرتا ہوں اور ملک کے مختلف حصوں سے مجھے آرڈر ملتے ہیں جن میں خواتین بھی ہوتی ہیں اور مرد بھی ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مختلف ڈیزائنوں کے پھیرن لوگ کافی پسند کرتے ہیں اور ان کو خرید کر پہنتے بھی ہیں۔وادی میں شہر ہوں یا دیہات لوگ موسم سرما سے قبل ہی اس مخصوص لباس کو تیار کرنے کے لئے کپڑا خرید کر ٹیلروں کے پاس جاتے ہیں ان کو اولین فرصت میں تیار کراتے ہیں۔مدثر احمد نامی ایک دکاندار جس کا قصبہ بڈگام میں کپڑے کا دکان ہے، نے بتایا کہ آج کے دور میں بھی موسم خزاں میں ہی لوگ یہاں آکر پھیرن بنانے کے لئے کپڑا خریدتے ہیں۔انہوں نے کہا: ‘میرے دادا نے یہ دکان پچاس برس پہلے قائم کی تھی اب میں گذشتہ دس برسوں سے اس دکان کو چلاتا ہوں، ہم پھیرن بنانے کے لئے ہر سال کئی اقسام کا کپڑا لاتے ہیں جس کی ہر سال بھر پور خریداری ہوتی ہے’۔ان کا کہنا تھا: ‘نہ صرف عمر رسیدہ بلکہ زیادہ تعداد میں جوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی اپنی پسند کے کپڑے خرید کرپھیرن تیار کرکے پہنتے ہیں’۔وادی میں موسم سرما میں سردیوں کی لہر تیز تر ہونے کے ساتھ ہی پھیرن میں ملبوس لوگوں کی تعداد میں اضافہ درج ہونے لگتا ہے اور لوگوں کی بھاری اکثریت اسی لباس میں گھروں میں بیٹھے یا بایر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جو باہر کے سیاح ہوں یا مختلف شعبوں کے بر سر آوردہ شخصیات سردیوں میں وارد وادی ہوتے ہیں وہ بھی یہاں پھیرن لگاتے ہیں۔ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی جب وارد وادی ہوئے تو انہوں نے بھی یہاں پھیرن زیب تن کیا اور حال ہی میں جب بالی ووڈ سٹار جان ابرہیم یہاں اپنی فلم کی شوٹنگ پر تھے تو انہوں نے بھی پھیرن پہن کر ایک ویڈیو بیان جاری کیا۔وادی میں آج کے دور میں فیشن کے مطابق مختلف ڈیزائنوں کے خوبصورت پھیرن تیار کئے جاتے ہیں۔محمد مسرور نامی ایک ٹیلر نے بتایا کہ میں کم سے کم 8 ڈیزائنوں کے پھیرن تیار کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ عمر رسیدہ افراد سے زیادہ نوجوان نئے ڈیزائن کے پھیرن تیار کرکے پہنتے ہیں۔ان کا کہنا تھا: ‘پہلے تو ایک سیزن کے لئے ایک فرد ایک پھیرن تیار کراتا تھا آج تو جوان ایک سیزن کے لئے دو تین پھیرن تیار کرکے پہنتے ہیں’۔موصوف ٹیلر نے کہا کہ موسم سرما کے دوران جو پھیرن پہننے کا رش بیس سال پہلے تھا آج اس میں کافی اضافہ درج ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے پہننے والوں کی تعداد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے تاہم آج کی نسل نئے ڈیزائنوں کے پھیرن پہننا پسند کرتے ہیں۔محمد اکبر نامی ایک سبکدوش ہیڈ ماسٹر نے کہا: ‘پھیرن ہمارا روایتی لباس ہے یہ ہمارے شاندار کلچر کا ایک اہم حصہ ہے’۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس کو معدوم نہ ہونے دیں بلکہ اس کے فروغ اور اس کو زندہ رکھنے کے لئے اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔یو این آئی