عارضی ملازمین حکومتی وانتظامی سطح پر استحصال کا شکار

نامساعد حالات کے دوران جان کو خطرے میں ڈال کر فرض کی ادائیگی کے باوجود مستقل محفوظ نہیں!

اقبال میر

جموں//کم وبیش ایک درجن سرکاری محکمہ جات میںعارضی بنیادوں پاکام کرنے والے ملازمین فرائض کی انجام دہی کے باوجود سسک سسک کر جینے پر مجبور ہیں۔ جھلستی گرمی ،برسات کی چھم چھماتی برسات ،رات کی تاریکی میںاور کپکپانے والی برف باری میںعوام کو اور اے سی رومز و عیش و عشر ت کی زندگی گذارنے والے نوکرشاہوں کو یہ ملازمین بنیادی سہولیات پانی و بجلی کی فراہمی میںجٹے رہتے ہیں۔ان کیلئے دن ہویا رات کوئی مطلب نہیںرکھتا ،ان کیلئے تہوار وںپر چھٹی کے بجائے دوگنا کام کرنا پڑتا ہے ، محکمہ پی ڈی ڈی اور جل شکتی میں ہزاروںعارضی ملازمین گونا گوں مشکلات کا شکار ہیں۔جموںوکشمیر میںعارضی ملازمین کی بھرتی کا سلسلہ عرصہ دراز سے ہر سرکار نے جاری رکھا ،سات سال کی نوکری کے بعد ان کو مستقل کیا جائے گا ،جس کا اصل مقصد بے روزگاری کو قابو میںرکھنا تھا لیکن اِس کو ختم کرکے آج بے روزگاری کی شر ح پورے ملک میںسب سے زیادہ کر دی گئی ہے ۔ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ کم و بیش تین دہائیوںسے ان عارضی ملازمین کے ساتھ زیادتی ،ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر ان کو بندھوا مزدور سمجھ کر کام کروایا جا رہا ہے ،نام کو یہ عارضی ہیںمگر کام ان سے مستقل ملازمین سے بھی زیادہ لیا جا رہا ہے ۔ان دونوںمحکمہ جات میںموجودہ دور میںنوے فیصدی سے زیادہ ملازمین عارضی ہی ہیں،ان کے دم سے خاص و عام کو بنیادی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیںلیکن عوامی سرکار ہو یا گورنر یا ایل جی سرکار ہو ،ان کو انصاف دینے میںکوئی بھی مخلص نظر نہیںآیا ۔جس کی وجہ سے تقریبا 60ہزار ملازمین یعنی تین لاکھ کے قریب افراد کا حال بے حال کر دیا گیا ہے ،اس حمام میںسبھی سرکاریںننگی ہیں،حالانکہ ہر سرکار عوام کے دکھ در کا مداوا کرنے کا دعوی تو کرتی رہی ہیںاور کر رہی ہے مگرزمینی حقیقت یہی ہے کہ ان تین لاکھ افراد کے نصیب میںسسکیاں،آہیں،گلے ،شکوے ،مایوسی و نااُمیدی و محرومی و اترے چہرے و شکوے شکایات،بھوک و افلاس ہی ملی ہیں،کیونکہ کسی نے بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی زحمت گوارا نہیںکی ،کیونکہ غر یبی کا احساس تو غریب کو ہی ہوگا۔قرضدار کو مقروض کا احساس ہو گا ،بھوکے کو خالی پیٹ کی تپش کا احساس ہوگا ،جس کے ڈائننگ ٹیبل پر رات کو درجنوںپکوان سجتے ہوں،اس کو روکھی سوکھی اور خالی پیٹ کا ان عارضی ملازمین و ان کے معصوم  بچوںکی بھوک کا احساس کیسے ہو گا ،جو لوگ اے سی کمروںو مرسڈیز کاروںو ہوائی جہاز میںسفر کرتے ہوںان کو بنا چپل و بوٹ کے چلنے پیر جلانے والوںکا کیسے احساس ہو گا ،جو بابو یا سیاست دان پچاس ہزار کا سوٹ اور بیس ہزار کو بوٹ پہنیںان کو پھٹے کپڑوںمیںکام کرنے والے ان ملازمین کا کیا احساس ہو گا ۔بلکہ مجبور ہو کر جب جب انہوںنے انصاف مانگنے کے لئے احتجاجی مارچ سیول سیکریٹریٹ یا گورنر ہائو س یا ایل جی ہائوس تک نکالنے کی کوشش کی تو ان پر بے دردی سے لاٹھی چارج کیا جا تا رہا ۔ان کی ہڈی پسلی توڑی گئی ۔ان کو خوف زدہ و ڈرانے کی کوشش کی جاتی رہی ،اگر کبھی کسی طرح سے حکام بالا کے پاس پہنچ بھی گئے ،تو ان کی مانگ کو جائز قرار دیتے ہوئے ہمدردانہ غور کرنے کا یقین دلایا گیا ۔جو بیس سال کے بعد بھی پورا نہ کیا گیا ۔ان کی دردشا کرنے میںسابقہ کم از کم  چار  پانچ سرکاریںاور موجودہ ایل جی  سرکار ذمہ دار ہیں۔جن  میںڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس ،عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس ،مفتی محمد سعید کی  سرکار ،غلام نبی آزاد کی ،محبوبہ مفتی کی اور موجودہ ایل جی کی سرکار یںذمہ دار ہیں،جو خالی تماشائی کا کردار ادا کر کے ان کا جی بھر کر استحصال کرنے میںپیچھے نہ رہیں،اگر ایم ایل اے و ایم ایل  سیز کی تنخواہ بڑھانے کا معاملہ سامنے آیا توتمام اختلافات کو بھالا کر سگے بھائیوںکی مانند چندگھنٹوںکے اندر معاملہ سلجھایا جا تا رہا ہے مگر مزدور کو اس کی مزدوری دینے کے لئے کبھی اخلاص کا ثبوت نہ دیا ۔ساست  دانوںکی سیاست بھی کمال کی ہوتی ہے ،اقتدار میںرہتے ان پر ظلم و جبر ڈھایا جا تا رہااور اقتدار چھن جانے کے بعد ان کے ساتھ ہمدردی جتائی جا تی ہے اور اقتدار میںآنے پر ان کی جائز مانگ کو پورا کرنے کا تار چھیڑا جا تا ہے ۔ یہ سبھی سیاسی جماعتوںکا شیوارہا ہے ، بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اکر احتجاج کی جگہ پرجا کر ان کی مانگ کو جائز قرار دے کر اقتدار میںآنے پر ان کی مانگ پورا کرنے کا یقین دلاتے رہے لیکن جب جموںکی  عوام نے ان کو فرش سے عرش پر پہنچایا تو یہ بھی ان مزدوروںکی مفلسی کا مذاق اڑاتے رہے ، یادر ہے کہ جموںوکشمیر ریاست کو دوٹکڑوںمیںمنقسم کرنے کے فیصلے پر مٹھائیاںاسی لئے بانٹی گئی تھیںکہ اب کسی کے ساتھ کوئی سوتیلا سلوک نہ ہو گا ،کوئی کسی کا حق غصب  نہیںکر ے گا ،یہاںپر دودھ کی نہریںبہیںگی ،مگر آج چار سال کا عرصہ ہونے کے بعد ان عارضی ملازمین کو کم از کم اجر ت نہ دی گئی ،جبکہ ملک بھراور تمام یوٹیز میںسرکاری یومیہ اجرت سات سو ادا کی جاتی ہے مگر ڈبل انجن کی سرکار کے باوجود مزدورمزدوری سے محروم ہیں۔سوال کیا جا سکتا ہے کہ آج جبکہ بھاجپا کا راج ادھر اور ادھر بھی ہے تو پھر انصاف کا ترازو کیوںڈگمگا رہا ہے ۔اسی کو جملہ بازی کہا جا تا ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ لاکھوںروپے ماہانہ تنخواہ لینے والے بیورو کریٹ ایک ماہ کی سیلری لیٹ ہونے پر مضطرب ہو جاتے ہیں مگر ان جفا کش عارضی ملازمین کو چند سو ماہانہ ادا کرنے میںکئی ماہ تک لگ جا تے ہیں،سیاست دانوںو بیورو کریٹ اور ایل جی انتظامیہ موجودہ مہنگائی کے دور میںبھی عارضی ملازمین کو فاقہ کشی یا موت کی آغوش سے نکالنے کی زحمت گوارا نہیںکررہی ،کیا اس دور میںمحض نو ہزارروپے سے ایک کنبہ کا گذارہ ہو سکتا ہے ،یہ ممکن ہی نہیںہے ،اسی لئے ان کے گھروںمیںکبھی چولہا جلتا ہے کبھی بجھا ہی رہتا ہے ،کیونکہ قرض کے بوجھ تلے پہلے ہی یہ دب چکے ہیں،ان کو اشیاء خوردنی ادھار دینے کے لئے تیار ہی نہیں،کسمپرسی کی وجہ سے ان کے بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں،یہ بچے عید اور دیوالی سے محروم ہیںکیونکہ ان کے پاس مالی وسائل نہ ہونے کے برابرہیںجس کی وجہ سے ان کے اندر ہر وقت احساس کمتری چھلکتا ہے ۔کیونکہ ہروقت غریبی ان کو ستاتی ہے ،ایک دن کاکھانا کھانا نصیب ہوا تو دوسرے دن کی فکر ستاتی ہے ۔اس مزدور کی کون کونسی پریشانی کا ذکر کیاجائے اس کا حال ہی بے حال ہو چکا ہے ،اگر دوران ڈیوٹی کسی کی موت واقع ہو جائے جیسا ہوا بھی ہے ،تو متعلقہ محکمے کا غیر انسانی چہرہ نظر آتا ہے ،کوئی آفیسر اس جانفشاںمزدور کے لئے دوالفا ظ بولنے کی زحمت نہیںکرتا  ،مرحوم  کی آخری رسومات میںشامل ہونا تو دور کی بات رہی ،لواحقین کی ڈھارس بندھوانے کی کوئی زحمت نہیںکرتا ہے ۔اس خاندان یا بیوہ یا یتیم بچوںکی کوئی امداد نہیںکرتا ،ایسا سلوک کیا جا تا ہے جیسے کسی دشمن ملک کا باشندہ مرگیا ہو۔ایسے ظلم وو ستم  کے پہاٖ ڑسہتے کتنے ہی خدا کو پیارے ہو گئے،کتنے عمرکی حد کو پار کر گئے ،ان کی زندگی میںتاریکی چھا گئی مگر کسی کا ضمیر نہ جاگا ۔اس قسم کی مشکل بھری زندگی میںان کو جسمانی و ذہنی پریشانی لاحق ہو نے سے قسم قسم کی بیماریوںسے واسطہ پڑتا ہے جس کے ذمہ دار ہمارا سسٹم ہے جو ان کے ساتھ غلط برتائو کر رہا ہے ۔جبکہ ہمارے بیورو کریٹ کا اگر کتا گم ہو جائے تو اس کو ڈھونڈنے کیلئے پورا لائو لشکرلگایا جاتا ہے۔اب کہاجا رہا ہے کہ یہ تو سابقہ سرکاروںنے لگائے ہیںیہ پریشانی انہوںنے کھڑی کی ہے ،مگر ریاست کے مالک آپ ہیں،وقت کی بادشاہ آپ ہیں،رعایا کی بھلائی ان کے دکھ درد کو دور کرنا سابقہ حکمرانوںکی ڈیوٹی میںشامل نہیںہے ،اس لئے سوال تو آپ سے پوچھے جائیںگے  ،دیکھئے پی ایچ ای والوںکو احتجاج کرتے کرتے 380 دن ہو گئے ہیں،مگر کسی کا دل پسیج  نہ رہا ہے ،سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس کہاںگھاس چرنے چلا گیا ہے ۔لیکن ہمارا سلام  ان بہادر مزدوروںکو ہے جو اس قدر کسمپرسی  و ظلم و ستم سہنے کے باوجود اپنا فرض انجام  دینے میںکوئی کوتاہی  نہ برتتے ہوئے اپنی جدوجہد کو زندہ و پائندہ رکھے ہو ئے ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ گھنے بادلوںسے سورج کسی دن باہر آئے گا لیکن ابھی تک جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے اس پر جتنا افسوس کیاجا ئے کم ہے ۔جنتا دل ایس کے پردیش صدر مست ناتھ یوگی نے کہا کہ یہ عارضی ملازمین پر بہت بڑا ظلم ہے ،یہ لوگ ہمارے سماج کے شہری ہیں،ان کی خدمات کو جموںوکشمیر کے شہری و ارباب  اقتدار کیسے بھلا سکتے ہیں،جبکہ راجستھان و پنجاب کی سرکاروںنے اپنے عارضی ملازمین کو مستقل کیا ہے تو جموںوکشمیر میںان کے ساتھ کئی دہائیوںسے زیادتی ہو رہی ہے ،جو انسانی اقدار کے منافی ہے ۔ان کا قصور کیا ہے کہ ان کو اپنے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے ۔یہ افسوسناک ناک ہے کہ کچھ ملازمین تو اس دنیا کو خیر باد کہہ گئے اور کئی عارضی ملازم ہی ریٹائر ہوگئے ئے ،ان کو آگے کی زندگی اندھکار میںگذارنی پڑے گی ،یوگی نے کہا کہ ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک کی کسی بھی ریاست کا ایم ایل اے یا ایم ایل سی یا ایم پی ایک دن کام  کرتا ہے تو وہ زندگی بھر بھاری پنشن پانے کا حقدار کہلاتا ہے جبکہ یہ غریب ملازم زندگی کے قیمتی بیس تیس سال سرکاری خدمات انجام دیتے ہیںمگر ارباب  اقتدار ان کو ملازم تصور کرنے سے معذور ہے ۔انہوںنے کہا کہ ایل جی سرکار و مرکزی سرکار وںکو فوری طور پر بنا کسی لاگ لپٹ کے ان عارضی ملازمین کو مستقل کرنے کے احکامات جاری کرنے چاہئے اور جن کے سات سال مکمل نہ ہوئے ہیںان کو ملک کے دوسرے حصوںکے برابر یومیہ سات سو روپے اجرت کی ادائیگی کی جانی چاہئے جو بہت کم ہے مگر گذارہ مؤبمشکل ہو سکتا ہے ۔یوگی نے کہا کہ جو ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے یا ہوئی ہے اس پر جتنا افسوس کیا جا ئے کم ہے ۔