ماضی سے سبق سیکھیں،انتظامیہ ناجائز تجاوزات مخالف مہم روکے ـ:غلام حسن میر کشمیر میں پھلدار درختوں کی کٹائی افسوس کن،جموں وکشمیر میں غیر قانونی رہائشی بستیوں کو ریگولر آئزڈ کیاجائے

اُڑان نیوز
جموں//اپنی پارٹی سنیئر نائب صدر غلام حسن میر نے ناجائز تجاوزات مخالف مہم کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے جس سے جموں وکشمیر کے ہزاروں لوگوں میں خوف وڈر کا ماحول قائم ہے۔پارٹی دفتر گاندھی نگر جموں میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے غلام حسن میر نے کہاکہ ’’جس طریقہ سے ناجائز تجاوزات مخالف مہم چلائی جارہی ہے وہ ایک فلاحی وجمہوری مملکت کے اصول وضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ ایک فلاحی مملکت میں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بے گھر افراد کو گھر مہیا کرے ، یہاں پر تو ہزاروں لوگوں کو بے گھرہونے کا خطرہ ہے۔ گھروں پر بلڈوزر چلاکر لوگوں کو بے گھر کرنے کا کوئی منطق اور جوازیت نہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا’’انہوں نے اراضی قابضین اور مجبوری کی حالت میں اپنی بنیادی ضروریات کی خاطر رقبہ سرکار چاہئے وہ نزول ہویا کاہچرائی ، اْس پر چھوٹے قطعہ اراضی پر ڈھانچے کھڑے کرنے پر مجبور ہوئے، اْن کے درمیان فرق کیاجانا چاہئے‘‘۔ انہوں نے کہاکہ لینڈ مافیا کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے اور اس ضمن میں کوئی مخالفت نہیں لیکن چھوٹے گھروں اور کاروباری اداروں جورقبہ سرکار پر تعمیر ہیں، کو مسمار کرنا افسوس کن ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ لینے سے پہلے تمام پہلووں پر اچھے سے غور نہیں کیا اور ایک ایسا حکم نامہ پاس کیا جس سے عوام میں خوف وڈر کا ماحول پیدا ہوا ہے‘‘۔غلام حسن میر نے کہاکہ اپنی پارٹی کی اِس معاملہ پر پوزیشن واضح ہے۔ اِس ضمن میں وزیر داخلہ امت شاہ اور جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے سامنے بھی اپنی بات رکھی ہے منطق اور جوازیت ہونی چاہئے۔ناجائز تجاوزات کا مطلب لوگوں کو بے گھر اور بے روزگار کرنا نہیں ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا’’ہمیں ڈر اِس بات کا ہے کہ اِس سے ناراضگی پیدا ہوگی اور اِس کے پورے جموں وکشمیر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جہاں ایک طویل جدوجہدلوگوں نے تشدد کے گھپ اندھیرے سے خود کو باہر نکالاتھا۔ اِن حدشات کے پیش نظر فیصلہ واپس لیا جانا چاہئے۔اِن حقائق کے تناظر میں وزیر داخلہ اور لیفٹیننٹ گورنر نے وعدہ کیاتھا اور یقین دلایاتھاکہ کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی لیکن پچھلے چند روز سے زمینی سطح پر کیا ہورہا ہے،اس سے یقین دہانیوں اور زمینی حقائق کے درمیان واضح فرق نظر آرہا ہے۔ ہمیں آج بھی یقین ہے کہ حکومت غریب اور چھوٹے کاروباریوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔غلام حسن میر نے کہاکہ ’’اپنی پارٹی حکومت کو یہ بھی بتانا چاہتی ہے کہ وہ ان بلڈوزروں کو روکے ، مسمار کرنے کی کارروائیاں، فیصلے پر نظر ثانی کرے اور بنیادی انسانی ضروریات کو دیکھ کر اس میں ترمیم کرے۔ جنہوں نے زمین پر قبضہ کر کے جرم کیا ہے ان کے ساتھ قانون کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے اور اس کے لئے قانون میں باقاعدہ گنجائش موجود ہے۔انہوں نے مزید کہا ’’عام لوگوں جنہوں نے اپنی زندگی کی کمائی لگاکر آشیانے بنائے یا کاروبار شروع کئے، سے صلہ رحمی کی جای چاہئے۔ انہوں نے وہ کیا جو حکومت کو کرنا چاہیے تھا – مکانات تعمیر کیے، حکومت پر دباو کم کیا اور خود روزگار نوجوانوں نے بھی فوری معاملات سے نمٹنے میں حکومت کی مدد کی ہے۔ ایسے وقت میں جب اسٹارٹ اپس کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ن خود روزگار کے کاروبار کو اْکھاڑنا کہاں کا انصاف ہے؟انہوں نے کہاکہ ’’بہتر راہ یہ ہے کہ حکومت کوباقاعدہ آڈرز جاری کرنے چاہئے، عمارتوں کے مالکان سے کرایہ لیاجائے اور معمول کے مطابق چیزوں کو چلنے دیاجائے۔ دوم ملک کے دیگر حصوں میں جوقواعد رائج ہیں، اْنہیں کا اطلاق جموں وکشمیر میں بھی کر کے رہائشی بستیوں کو ریگولر آئزڈ کیاجائے، چاہئے وہ جموں میں ہیں یا کشمیر میں۔ چند سال قبل دہلی میں 6ہزار کالونیوں کو ریگولر آئزڈ کیاگیا۔اسی طرح حکومت کو جنگلات علاقہ جات جن پر تجاوزات کی گئی ہے، میں درختوں اور میوہ دار درختوں کی کٹائی کی بجائے، زمین چاہئے وہ کم ہے یا زیادہ کو اپنے کنٹرول میں لے، اْس کے بعد باغات میں میوہ دار درختوں کو رکھنے کے لئے کوئی بہتر فیصلہ لے۔ یہ ایک فلاحی مملکت /ریاست کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ درختوں کی کٹائی اور باغبانی کو تہس نہس کر رکھنے سے زمین کی بھی بربادی اور لوگوں کو بھی دْکھی کرنا ہے۔ اس سے غلط فہمیاں بھی پیدا ہوں گیں۔ حکومت کو یہ طریقہ کار ترک کرنا چاہئے۔انہوں نے کہاکہ جہاں تک لیز زمین کا تعلق ہے تو اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے پورے خطہ کی تاریخ کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔پہلی چیز یہ کہ پہلگام اور گلمرگ میں زیادہ تر لیز 1970کی دہائی میں دی گئی ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب کشمیر میں کام کا سیزن محدود ہوتا تھا، خاص کر اِن سیاحتی مقامات پر ، جوکئی ماہ تک برف میں ڈھکے رہتے تھے۔ ہر چیز ہاتھ سے ہوتی تھی۔ اِن پٹہ داروں کو اپنے کاروباری مراکز کو قائم کرنے میں دہائیاں لگیں۔ بمشکل دو سے تین سال انہوں نے کام کیاتھاکہ کشمیر میں بدقسمتی سے بندوق اور گرنیڈ کا کلچر شروع ہوا۔ ہرچیز رْک گئی۔ تین دہائیوں تک اْن کا کوئی کاروبار نہیں ہو، صرف مالی بوجھ کے تلے ہی دبے رہے‘‘۔انہوں نے مزید کہا’’اب جب حالات میں بہتری آئی اور سیاح آنے شروع ہوئے تو حکومت نے لیز کی تجدید کا آرڈر لے آئی۔ یہ پہلگام اور گلمرگ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی تکالیف، پریشانیوں اور تاریخ کو نظر انداز کر کے کیاگیا۔ ملک کے دیگر حصوں میں یہ قاعدہ ہے کہ ، پٹہ داروں کے حق میں ہی، لیزکی تجدید کی جاتی ہے، جموں وکشمیر میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے‘‘۔غلام حسن میر نے کہاکہ کوئی وجہ نہیں کہ جموں وکشمیر کے ساتھ الگ رویہ اختیا رکیاجائے۔ یہ مشورہ رہے گاکہ پٹہ داروں، اْن کے ساتھ کام کرنے والے ملازمین اور علاقہ کی معیشت کو دیکھتے ہوئے لیز کی تجدید پٹہ داروں کے حق میں ہی کی جائے اور اْن سے فیس جوبھی ہو، وصول کی جائے۔اپنی پارٹی سنیئر نائب صدر نے مزید کہاکہ ’’اگر ڈھانچوںکو واپس لینا ہے تواِنہیں عوام کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ ان کو اسکولوں، ڈسپنسریوں یا صحت مراکز میں تبدیل کیا جا سکتا ہے یا اس معاملے کے لیے پنچایت گھر یا دیگر سہولیات جن کی خاص علاقوں میں ضرورت ہو سکتی ہے۔ ڈحانچوںکو منہدم کرنے سے لوگوں میں ناراضگی پیدا کرنے کے علاوہ دوہرا نقصان ہوگا۔آخر میں غلام حسن میر نے کہا’’حکومت کو انسانی اور حقیقت پسندانہ ہونا چاہئے اور معیشت کو بچانا چاہیے۔ بصورت دیگرہمیں ڈر ہے کہ احساس ِ عدم تحفظ بیگانگی عام ہو جائے گی اور اگر پچھلے 30 سالوں نے ہمیں کچھ سکھایا ہے تو اِس خلا کو پْرکرنا بہت مشکل ہوگا۔ہمیں تاریخ سے سیکھنا چاہئے اور دوبارہ ایسی کوئی غلطی دوہرانی نہیں چاہئے جو مجموعی طور خطہ کے مفاد میں نہ ہو۔