پچیس سال میں بہت کچھ بدل گیا، گھر کا راستہ تلاش کرنا بھی مشکل

پچیس سال میں بہت کچھ بدل گیا، گھر کا راستہ تلاش کرنا بھی مشکل
عبدالغنی نے25سالوں میں رشتے، احساسات ،جذبات، یادیں سب کچھ کھویا
محمد اصغر بٹ
ڈوڈہ//بے گناہی کے 25 سال جیل خانہ میں گزارنے کے بعد جب اڑھائی دہائی بعد عدلیہ نے انصاف دلایا تو ضلع ڈوڈہ کے بھدرواہ سے تعلق رکھنے والے عبدالغنی گونی کو بھی رہا کر دیا گیا۔انصاف اتنا آہستہ چلا کہ 25 سال گزر گئے ایک طرف رہائی سے خوش بھی ہیں لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ زندگی کے قیمتی پچیس سال برباد ہو گئے آج سے 25 سال قبل بھدرواہ کے عبدالغنی گونی جن کی عمر اْس وقت محض 23 برس سے تھی گریجویشن کرکے ایک نجی سکول چلا رہا تھا نوجوان تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی وابستہ تھا اور سال 1994 میں گجرات میں تبلیغ کرنے کے سلسلہ میں گیا ہوا تھا اسی دوران صورت کی ایک چائے کی دکان سے پولیس نے گرفتار کر لیا تھا میڈیا رپورٹس کے مطابق گونی کو مسلسل 40 روز تک جسمانی اذیتیں پہنچائی گئی اور اس بات کو قبول کرنے کا دباؤ بنایا گیا کہ وہ خود کو لشکر انصار کا ملی ٹینٹ تسلیم کرے۔گھر والوں کو تین ماہ بعد گرفتاری کا پتہ چلا لیکن تب تک گونی کو راجستھان کی جیل بھیج دیا گیا تھا رہا ہونے کی تمام امیدیں ختم ہونے کے بعد عدلیہ نے اْنہیں بے گناہ قرار دیا۔وادی کشمیر کے تین بے گناہ قیدی جب بے گناہی کی سزا بھگت کر آئے مفلوج سسٹم نے ایسا لمحہ دکھایا کہ جس کا شاید ہی کبھی اْنہوں نے سوچا تھا ایک معصوم بچہ جب اْس کی عمر صرف 19 برس تھی اپنی کھیل کود بھری سرگرمیوں کے درمیان اچانک جب ظالم طاقت کے ہاتھ لگے تو مختلف ٹارچر جھیلنے کے بعد مختلف جیل خانوں میں پابند سلاسل رہے۔وہ لمحہ واقعی درد برا تھاافسوس مایوسی اور بے چینی میں گن گن کر گزرنے والے دن جب بیت گئے تو واپس گھر آ گئے۔ جب ماں اور باپ کے سایہ میں پلنے والا بچّہ جب سسٹم کی خرابی کی وجہ سے اپنوں سے دور ہو گیا ۔جب انصاف ملا تب اپنوں میں سے دکھ درد سْننے والا کوئی نہ ملا قبرستان جاکر جی بھر کر رویا کہ جیتے جی والدین سے ملاقات نہ ہوئی آخری وقت میں خوشی کے آنسوؤں تھے باپ بیٹے کو پہچان نہ سکا بیٹا باپ کی جدائی میں اپنے مستقبل کو برباد کر بیٹھا۔وادی کشمیر کے تین مظلوم افراد کے ساتھ بھدرواہ کے ایک اور معصوم عبدالغنی گونی جب بے گناہی کی سزا بھگت کر بے عزت بری ہوا تب اْس کے لئے اپنے گھر کا راستہ ڈھونڈنا مشکل ہو گیا جس گھر میں جنم لیا اْس کی دہلیز پوچھ کر تلاش کرنا پڑا وہ لمحہ انتہائی تکلیف دہ رہے گا اور تاعمر اس بات کا ملال رہے گا کہ کیوں سسٹم نے ایک خاندان کو اْس کی خوشیاں چھین لی۔مسلسل 25 سال جیل میں بند رہنے کے بعد عدالت نے کیس سے اْن کو بے عزت بری کر دیا۔بھدرواہ کے پاسری محلہ کا تب کا نوجوان عبدالغنی کوہلی آج پچاس برس سے زائد عمر پار کر چکا ہے۔اْن کی آمد میں گھر والوں نے کیا کیا تیاریاں کی ہوں گی اْن بچّوں کے لئے وہ ایک ایسا شخص کہلائے گا جس کو اْنہوں نے کبھی نہیں دیکھا کیا وہ اْس کو بے گناہ تسلیم کریں گے کیا ریاستی حکومت اْن کے 25 برس کی برپائی کر پائی گی اْس کے مستقبل کی برپائی کرنا ممکن نہیں ہے حکومت کو ہر اْس سیکنڈکا حساب دینا ہو گا جس نے گونی جیسے کئی لوگوں کی زندگیاں برباد کر دیں۔انصاف ملنے میں ہمارے ملک اتنا کیوں پیچھے رہ گیا ہے۔57سالہ عبدالغنی ڈوڈہ ضلع سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک سکول چلا رہے تھے۔ عبدالغنی کا کہنا تھا کہ دوران اسیری میں نے اپنی ماں، اپنے باپ اور چچائوں کو کھودیا۔ آج ہم رہا کردئے گئے لیکن ہماری زندگی کے یہ قیمتی لمحات ہمیں واپس کون لوٹائے گا۔ بیگ کاکہنا تھا کہ ایام اسیری کے دوران میری بہن کا نکاح بھی طے ہوا جبکہ آج کی تاریخ میں میری بھانجی بھی نکاح کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔یاد رہے کہ 1996میں پیش آچکے سملیتی اور لاجپت نگر بم دھماکوں میں مبینہ طور پرملوث عبدالغنی سمیت 3کشمیری نوجوانوں کو 23 برس بعد بے گناہ قرار دے کر بری کیاگیا ۔ 23برسوں کے دوران عدالت نے کھبی بھی انہیں پیرول یا ضمانت پر نہیں چھوڑا۔ 22مئی 1996کو سملیتی گائوں جے پورمیں گاڑی کے اندر ایک زور دار دھماکہ ہوا جس میں 14افراد مارے گئے جبکہ دیگر 37افراد مضروب ہوئے تھے۔ مذکورہ گاڑی آگرہ سے بیکانئر کی جانب رواں دواں تھی۔ اس دھماکے سے ایک روز قبل نئی دہلی کے لاجپت نگر میں بھی زور دار دھماکہ ہوا تھا جس میں 13افرادہلاک ہوئے تھے۔پولیس نے چارج شیٹ میں بتایا تھا کہ مذکورہ نوجوان جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس بات کا بھی دعویٰ کیا تھا کہ گرفتار کئے گئے نوجوانوں میں سے بعض جے پور شہر میں 1996میں سوائے من سنگھ اسٹیڈیم دھماکے میں بھی ملوث رہے ہیں۔اسکے بعد دلی پولیس نے دعویٰ کیا کہ دونوں بم دھماکوں میں5 ملوثین کو گرفتار کیا گیا جن کی شناخت لطیف احمد وازہ، مرزا نثار حسین اور علی محمد بٹ ساکنان سرینگر کے علاوہ عبدالغنی ساکن ڈوڈہ اور 56سالہ رئیس بیگ ساکن آگرہ کے بطور کی گئی۔رئیس احمد بیگ کو8جون 1997کو گرفتار کرلیا جبکہ دیگر افراد کو17جون1996سے27جولائی 1996تک گرفتار کرلیا گیا۔