دشمنی جم کر کرو، لیکن یہ گنجائش رہے….

دشمنی جم کر کرو¿، لیکن یہ گنجائش رہے….
الطا ف حسین جنجوعہ
جموں//سیاسی لیڈران کس طرح نظریاتی طور پر رنگ بدلتے ہیں، کیسے غیر متوقع فیصلے لیتے ہیں،اِس کی مثالیں اِ ن دنوں خوب دیکھنے کو مل رہی ہیں۔کل تک جولیڈران ،اپنے جن حریفوں کے لئے نازیبہ الفاظ کا استعمال کرتے تھے آج انہیں کی تعریف کے لئے ،ان کے پاس الفاظ کم پڑ رہے ہیں۔یہ سب پہلے بھی ہوتا تھا لیکن چونکہ آج انٹرنیٹ فور جی کا زمانہ ہے، اس لئے سوشل میڈیا پر لیڈران جوبھی بیانات دیتے ہیں، اس کا ریکارڈ کہیں نہ کہیںمحفوظ ضرور رہتا ہے، ایسے میں آج بہت جلد سابقہ اور حال کے بیانات اور فیصلوں کا موازانہ بھی لوگ ٹھوس شواہد کے ساتھ بہت جلد کرتے ہیں۔کانگریس کے سنیئرلیڈرشام لال شرماجنہوں نے پہلی مرتبہ جموں سے ہندو وزیر اعلیٰ بنانے کا نعرہ بلند کیاتھا، کی بھاجپا میں شمولیت سے، ان کے سابقہ کئی بیانات سوشل میڈیا پر شیئرکئے گئے۔۔5اکتوبر2018میں ایک تقریب کے دوران شام لال سے جب ایک رپورٹر نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی صدر راویندر رینہ کے کانگریس مخالف بیان پر رد عمل میں چاہا توانہوںنے کہا”راویند رینہ کے بیان کو زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے، ہم جانتے ہیں کہ وہ کتنے بڑہے لیڈر ہیں، ان کی کیاقبولیت ہے،یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی لیڈرشپ جموں وکشمیر میں دیوالیہ پن کا شکار ہے، اس لئے راویندر رینہ جیسے شخص کو صدر بنادیاجنہیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں“۔ شام لال شرما نے یہ بھی کہاتھاکہ کانگریس کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ بھارتیہ جنتا پارٹی سے نہیں چاہئے، کانگریس نے کبھی بھی قومی مفادات سے سمجھوتہ نہیں کیا، جبکہ بھاجپا کا رول روز اول سے مشکوک ومنفی رہا ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی مواقعے ہیں جب شامل لا ل شرما نے بی جے پی کی ریاستی اور ملکی قیادت کو نہ صرف تنقیدکا نشانہ بنایابلکہ ان کے خلاف سخت ترین الفاظ بھی استعمال کئے ۔اکھنور اسمبلی حلقہ سے دو مرتبہ کانگریس کی ٹکٹ پررکن اسمبلی رہ چکے شامل لال کی پچھلے ایک ہفتہ سے بی جے پی میں شمولیت کی جب خبریں گردش کرنے لگیں تو ’ بااخلاق اور اخلاقی اقدارکے پاسدار لوگوں کو یقین نہیں تھاکہ ایسا ہوسکتا ہے لیکن چونکہ دھواں تو تبھی اُٹھتا ہے جب آگ سلگتی ہے، اس لئے شام لال کی زعفرانی خیمہ میں شمولیت کی خبر مصدقہ ثابت ہوئی۔28مارچ کو اکھنور میں منعقدہ بھاجپا کی مہا ریلی جس سے وزیر اعظم نریندر مودی نے خطاب کیا، میں ان کی شمولیت طے تھی لیکن تین چار دن تک در پردہ کانگریس سنیئرلیڈران کی شرما کو منانے کی کوششوں سے جوائنگ میں تاخیر ضرورہوگئی مگرموصوف کانگریس قیادت مطمئن نہ ہوئے اور وہی کیا جس کے خبر پہلے تھی۔ 30مارچ2019کوبی جے پی صدر دفتر واقع تریکوٹہ نگر جموں میں منعقدہ پرہجوم پریس کانفرنس میں شام لال شرما نے بھاجپا کے اویناش رائے کھنہ سے لیکر ریاستی اور ضلع سطح کے سبھی لیڈران وکارکنان کے نہ صرف نام انتہائی ادب واحترام سے لئے بلکہ ان کی تعریف وتوصیف میں بھی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔راویند رینہ اور شام لال شرما میڈیا کے سامنے جوش طریقہ سے ایکدوسرے سے ملے ۔شاہد ملاقات کے وقت تھوڑی بہت ندامت بھی محسوس ہوئی ہو لیکن انہوں نے ایسا کر کے یہ واضح کیاکہ سیاست میںکس حد تک ضمیر کو مارنا پڑتاہے۔یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، اس سے قبل بھی کانگریس کے کئی لیڈران ایسا کرچکے ہیں، جس میں بڑا نام چوہدری لال سنگھ کا ہے، جو اب بھاجپا سے بھی بظاہر اعلیحدہ ہوکر ڈوگرہ سوابھیمان سنگٹھن کے بینر تلے سرگرم عمل ہیں۔لال سنگھ جوکہ کانگریس کی ٹکٹ پر اودھم پور۔ ڈوڈہ لوک سبھا حلقہ سے دومرتبہ رکن پارلیمان اور دو مرتبہ رکن اسمبلی رہے ہیں، نے سال 2014کو لوک سبھا انتخابات کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے انتہائی غیر اخلاقی اورناشائستہ الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے ان کو ایک جانور سے تشبیہ دی تھی لیکن یکم اگست2014کو کٹھوعہ میں منعقدہ ایک مہاریلی کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر امت شاہ کی موجودگی میں بھاجپا کا دامن تھاماتھا۔جس طرح سے جموں وکشمیر میں سیاسی لیڈران یک دم نظریاتی وابستگیاں بدلتے ہیں، اُس سے لوگوں کے لئے ایک سیاسی لیڈر پر یقین کرناانتہائی مشکل بنتاجارہاہے۔شاہدلوگوں کو کسی سیاسی لیڈر کی باتوں پر یقین کرنے سے قبل ہزار ہا مرتبہ سوچنا پڑے گا۔خاص کر ریاست میں تو سیاسی لیڈران کے کئی چہرے اور بیانیہ ہیں جوحالات ، واقعات اور مقامات کی تبدیلی کے ساتھ بھی بدلتے رہتے ہیں۔ پل بھر میں اپنی وفاداریاں بدلنے کے اس تشویش کن رحجان کے پس منظر میں سیاستدانوں کو شاعر بشیر بدر کے اس شعر پر تھوڑا بہت عمل کرنا چاہئے کہ ….دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے ….جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں۔!!