اعلیحدگی پسنداور حریت لیڈران کیخلاف کریک ڈاؤن ْکشمیر میں وسیع پیمانے پر گرفتاریوں فورسز کی اضافی کمپنیوں کی تعیناتی سے سراسیمگی

یو این آئی
سرینگر//وادی کشمیر میں انتظامیہ نے علیحدگی پسند اور مذہبی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کے لیڈران و سرگرم کارکنوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈائون شروع کرکے قریب 150 لوگوںکو مختلف جیلوں میں مقید کردیا ہے۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر مرکزی نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیاں کشمیر روانہ کردی ہیں۔ اچانک اٹھائے جانے والے ان اقدامات نے وادی بھر میں خوف و ہراس کا ماحول برپا کردیا ہے۔ وادی میں یہ افواہیں گردش کرنے لگی ہیں کہ مرکزی حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے دفعہ 35 اے کو منسوخ یا علیحدگی پسند رہنمائوں کو وادی سے باہر منتقل کرسکتی ہے۔ تاہم سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ان افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ دوسری جانب مرکزی اور ریاستی حکومت علیحدگی پسند اور مذہبی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاون اور مرکزی نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیاں وادی بھیجنے کی ضرورت درکار پڑنے کی وجہ بیان کرنے پر خاموش ہیں۔ واضح رہے کہ جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے اس وقت عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔ امکانی طور پر عدالت عظمیٰ معاملے (دفعہ 35 اے) کی سماعت پیر کو کرے گی۔ ایک مقامی خبر رساں ایجنسی نے ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار کے حوالے سے کہا ہے کہ وادی میں نیم فوجی دستوں کی 100کمپنیوں کا وارد وادی ہونا، حریت لیڈروں اور جماعت اسلامی کے لیڈروں اور کارکنوں کی گرفتاری ریاست میں انتخابات کو بحسن خوبی منعقد کرانے کو یقینی بنانے کا ایک حصہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ انتظامیہ علیحدگی پسندوں کی طرف سے الیکشن بائیکاٹ کی کسی بھی مہم کو چلنے کی اجازت نہیں دے گی اور تمام ایسے لوگوں بشمول حریت لیڈروں کو گرفتار کرکے ریاست میں صاف وشفاف اور افرتفری سے پاک انتخابات کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وادی میں سیکورٹی فورسزکی اضافی کمپنیوں کی تعیناتی سے لوگوں کو خوف وہراس محسوس نہیں کرنا چاہئے۔ ذرائع نے بتایا کہ ریاستی پولیس نے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کے دوران جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو مائسمہ میں اپنے گھر سے گرفتار کرکے پولیس تھانہ کوٹھی باغ میں مقید کردیا۔ اس کے علاوہ شبانہ چھاپوں کے دوران جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے درجنوں لیڈران اور سرگرم کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ حراست میں لئے جانے والوں میں جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، ترجمان ایڈوکیٹ زاہد علی بھی شامل ہیں۔ مرکزی حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیاں کشمیر روانہ کردی ہیں۔ اس سلسلے میں مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے ریاستی حکومت کے چیف سکریٹری بی وی آر سبھرامنیم کو بھیجے گئے ایک ہنگامی فیکس میں کہا گیا ہے کہ جو 100 اضافی کمپنیاں وادی بھیجی جارہی ہیں، اس میں سینٹرل ریزو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کی 45 ، بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کی 35 ، سشستر سیما بل اور انڈو تبتی بارڈر پولیس کی دس دس کمپنیاں شامل ہوں گی۔ فیکس میں آئی جی سی آر پی ایف ذوالفقار حسن سے کہا گیا ہے کہ وہ ان کمپنیوں کی نقل وحرکت کو یقینی بنائیں۔ ادھر سری نگر میں مقامی شہریوں نے بتایا کہ انہوں نے معمول کے برخلاف رات بھر فضائی ٹریفک چلنے کی آوازیں سنیں۔ رات بھر فضائی ٹریفک چلنے کی وجہ سے شہر کے بیشتر علاقوں میں لوگ خوفزدہ ہوئے۔ قابل ذکر ہے کہ 14 فروری کو جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں سری نگر جموں قومی شاہراہ پر ہوئے ہلاکت خیز خودکش دھماکے جس میں قریب 50 سی آر پی ایف اہلکار جاں بحق ہوئے، کے بعد حکومت نے وادی میں قریب 20 علیحدگی پسند لیڈران اور کم از کم 150 مین اسٹریم سیاسی لیڈران و کارکنوں کی سیکورٹی واپس لی۔ دریں اثنا جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ’جماعت اسلامی وادی کے شمال و جنوب میں پولیس کی طرف سے تنظیم کی مرکزی و ضلعی قیادت سمیت سینکڑوں ارکان جماعت کی گرفتاری کے لامتناعی سلسلے کی کڑی الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور اس طرح کی کارروائیوں کو غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی قرار دیتی ہے‘۔ بیان میں کہا گیا کہ جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب کو ریاستی پولیس اور دیگر فورسز ایجنسیوں نے جنوبی، وسطی اور شمالی کشمیر میں جماعت کی مرکزی و ضلعی قیادت سمیت سینکڑوں کی تعداد میں ارکان جماعت کو بلاوجہ گرفتار کرلیا۔ پولیس کی بھاری جمعیت علی الصبح 4بجے کے قریب امیر جماعت اسلامی جموں وکشمیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض کی رہائش گاہ پر پہنچی اور انہیں حراست میں لیتے ہوئے ہمہامہ کیمپ پہنچایا گیا۔ اسی طرح ترجمان اعلیٰ ایڈوکیٹ زاہدعلی کو بھی اپنے آبائی گھر واقع نہامہ پلوامہ سے گرفتار کرتے ہوئے پہلے تھانہ شیر گڑی سری نگر اور بعد میں یہاں سے کاکہ پورہ پولیس تھانے منتقل کیا گیا۔ پولیس نے گرفتاریوں کے سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے مرکزی ،ضلعی اور تحصیلی قیادت کے ساتھ ساتھ جنوبی کشمیر کے بیشتر مقامات پر سینکڑوں امرائے حلقہ جات کو بھی حراست میں لیتے ہوئے چہار سو غیر یقینی فضا کو جنم دیا۔ بیان میں کہا گیا ’پولیس نے یہی پر بس نہیں کیا بلکہ دوران شب ہی چھاپوں کا سلسلہ تیز کرتے ہوئے غیر آئینی اور غیر اخلاقی طور پر کپوارہ، ہندوارہ، بارہمولہ، سوپور، ٹنگمرگ، بڈگام، بیروہ، گاندربل، پلوامہ، شوپیان، کولگام اور اننت ناگ علاقوں میںگرفتاریوں کے سلسلے کو بڑھاتے ہوئے قریباً ڈیڑھ سوارکان جماعت جن میں بیشتر عمر رسید ارکان جماعت شامل ہیں کو پابند سلاسل کردیا‘۔ بیان میں کہا گیا کہ جماعت اسلامی پرامن اور جمہوری طریق کے ذریعے اپنے دعوتی پروگرام کو آگے بڑھانے میں یقین رکھتی ہے جس میں تشدد یا جبر کے لیے کوئی بھی جگہ موجود نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کااپنا الگ دستور ہے جواپنے کارکنان کو اپنے نصب العین کو حاصل کرنے کی خاطر پرامن اور جمہوری طریقے استعمال کرنے پر زور دیتی ہے ۔ جماعت کے دستور میں کہیں بھی جبر یا تشدد پر مبنی پالیسی کی گنجائش موجود نہیں ہے اور یہاں ہر ایک سرگرمی عوام کے سامنے ظاہر و باہر ہے ، لہٰذا پولیس اور دیگر فورسز ایجنسیوں کی طرف سے جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی مرکزی قیادت اور سینکڑوں ارکان جماعت کی گرفتاری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ جماعت کا ماننا ہے کہ مسئلہ کشمیرجنوب ایشیائی خطے کا دیرینہ حل طلب معاملہ ہے جس کے حل میں خطے میں رہ رہے کروڑوں عوام کی فلاح و ترقی مضمر ہے۔ مسئلہ کشمیر ہندوپاک کی مملکتوں کے درمیان 1947 ء سے ہی لٹکتا آرہا ہے جس کے نتیجے میں اب تک دونوں ممالک کے درمیان کئی خونین جنگیں واقع ہونے کے ساتھ ساتھ لاکھوں کی آبادی زندگی کے حق سے محروم ہوگئی تاہم معاملہ ہنوز حل طلب ہے۔ جماعت اسلامی جموں وکشمیر یہاں اپنے دیرینہ مؤقف کا اعادہ کرنا چاہتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں یا سہ فریقی مذاکرات میں ہی مضمر ہے تاکہ خطے میں بغیر کسی کشت و خون کے امن وسکون کو پنپنے کا موقعہ دیا جائے۔ بیان میں کہا گیا ’جماعت پولیس کی طرف سے لگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے اس طرح کی کارروائی کو فرقہ پرست قوتوں کے ڈکٹیشن سے تعبیر کرتی ہے۔ بی جے پی اور اس قبیل کی فرقہ پرست تنظیمیںریاست کو خصوصی پوزیشن فراہم کرنے والی دفعہ 35 اے کو نشانہ بنانے کی تاک میں ہے تاکہ یہاں کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی راہ ہموار ہوجائے البتہ دفعہ 35 اے کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ ریاستی عوام کے لیے ناقابل قبول ہوگی‘۔