مکہ مسجد بٹھنڈی میں ملی اتحاد کا عظیم مظاہرہ

مکہ مسجد بٹھنڈی میں ملی اتحاد کا عظیم مظاہرہ
بس اڈہ جموںسے کشمیر اور خطہ چناب جانے والی گاڑیاں بھی یہیں منتقل
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//15فروری کو بلوائیوں کے ہجومی تشدد کے دوران گوجر نگر، پریم نگر، ریزیڈنسی روڈ، شہیدی چوک، جانی پور، بن تالاب اور دیگر بستیوں میں گاڑیوں اور دیگر املاک کو نقصان پہنچانے سے خوفزدہ مقامی وغیرمقامی مسلمانوں کے لئے ’مکہ مسجد بٹھنڈی ‘جموں احساس تحفظ فراہم کرنے اور اعتمادسازی میں اہم رول ادا کر رہی ہے۔ مکہ مسجد بٹھنڈی میں ملی اتحاد کا عظیم مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے جہاں پر مقامی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہاں پر آباد خطہ پیر پنچال، چناب اور وادی کشمیر کے مسلمانوں نے مل جل کر مصیبت کی اس گھڑی میں پریشان حال افراد کو سہارا دیاہے۔ بڑی تعداد میں بزرگ اورنوجوان ا س میں پیش پیش ہیں۔بیک وقت دولنگر قائم کئے گئے ہیں جہاںپرچائے، کھانا وغیرہ پکانے کا عمل دن بھر جاری رہتا ہے اور ہر آنے والے شخص کو کھلایاجارہاہے۔اس کے لئے مقامی مسلمانوں نے بھرپور مالی مدد کی ہے، کس نے گیس سلنڈر دیئے، کسی نے چاول، کسی نے دودھ، کوئی پھل اور کسی نے نقدی رقم دی۔ علاوہ ازیں جموں وکشمیر بنک نے بھی ریلیف کیمپ قائم کیا ہے۔ بٹھنڈی اور سنجواں کی مختلف مساجد ومدارس کے علماءحضرات، ائمہ مساجد،افسران، امیرترین افراد بھی یہاں خادم بن کر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔بٹھنڈی میں غیر معمولی چہل پہل دیکھنے کو مل رہی ہے، مکہ مسجد احاطہ اور اس کے باہر سینکڑوں کی تعداد میںدرماندہ لوگ ہیں جن میں خواتین، بزرگ، بچے ، نوجوان شامل ہیں۔ کثیر تعداد بیرون ریاست میں زیر تعلیم طلبا کی بھی ہے ، جوکہ دھمکیوں کے بعد وہاں سے پڑھائی چھوڑ کر واپس لوٹے ہیں۔ہرسوں بستر اور سامان باندھے لوگ دیکھے جاسکتے ہیں۔ایک بزرگ نے اڑان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ”جو بھیڑجموں سرینگر قومی شاہراہ یا بٹوت کشتواڑ شاہراہ بند رہنے کی وجہ سے بس اڈہ جموں یا اس کے آس پاس کے علاقوں میں ہوتی تھی، وہ اب بٹھنڈی مکہ مسجد کے پاس دیکھی جاسکتی ہے۔لگاتار کرفیو اور وادی کے درماندہ مسافروں کی طرف سے گذشتہ ہفتہ بس اڈہ پر مبینہ طور احتجاج کے دوران ملک مخالف نعرہ بازی کے الزامات کے بعد بس اڈہ سے سبھی لوگ بٹھنڈی میں منتقل ہوگئے ہیں، بس اڈہ پر اُلو بول رہے ہیں۔بی سی روڈ اور بس اڈہ پر کشمیر جانے والی جوچھوٹی بڑی گاڑیوں جن میں ٹیمپو، ویڈیو کوچ، طویرہ،ٹاٹاسومو وغیرہ شامل ہیں، سبھی بٹھنڈی ہیں جہاں سے مسافروں کو براستہ بائی پاس سدھڑا کشمیر کی طرف منتقل لے جایاجارہاہے۔ بٹھنڈی میں مکہ مسجد کے آس پاس موجود سبھی سڑکوں پر سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے بس اڈہ پر درماندہ ہونے سے بہتر ہے کہ مستقبل میں وہ بٹھنڈی میں ہی آکر پناہ لی جائے جہاں جانی احساسِ تحفظ بھی ہوگا اور مقامی مسلم آبادی سے راحت بھی ملی جائے گی۔بانڈی پورہ سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور جوکہ اکثربیرون ریاست مزدوری کے لئے جاتے ہیں، نے بتایاکہ متعددبار ماضی میں وہ بس اڈہ جموں پر کئی کئی دنوں تک درماندہ رہے جس دوران انہیں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بس اڈہ پر موجود دکاندار لوگوں کی مجبوری کا فائیدہ اُٹھاکر کھانے پینے کی قیمتی کئی گناہ بڑھا دیتے تھے جس سے چند دنوں کے اندر ہی ان کا سارا پیسہ ختم ہوجاتارہا۔ بس اڈہ میں انتظامیہ کی طرف سے بھی کوئی انتظامات نہ ہوا کرتے تھے۔اب بٹھنڈی کو بس اڈہ جموں کا متبادل کے طور دیکھاجارہاہے، 15اور16فروری 2019بلوائیوں اور شرپسند عناصر نے جس طرح سے مخصوص طبقہ ، مخصوص گاڑیوں، مخصوص املاک اور محلہ جات کو منصوبہ بند طریقہ سے نقصان پہنچایا، اس کے نتیجہ میں اب بیرون ریاست سے بذریعہ بس یاریلوے آنے والے مسلم طبقہ کے لوگ بس اڈہ جموں کے بجائے لوگ بٹھنڈی کو ہی ترجیحی دیں گے کیونکہ ریلوے اسٹیشن اور انٹرسٹیٹ بس ٹرمینل نروال سے بٹھنڈی کافی نزدیک ہے۔ قاضی گنڈ سے تعلق رکھنے والے ایک ڈرائیور کا کہناتھاکہ کشمیر ہویاخطہ پیر پنچال وچناب جولوگ یہاں چند دنوں کے لئے علاج ومعالجہ یا کسی دوسرے کام کی غرض سے آتے ہیں یا بیرون ریاست سے واپسی ہو، اکثر لوگ بس اڈہ یااس کے آس پاس واقعہ جیول، مچھی مارکیٹ، رگھوناتھ بازار وغیرہ کے ہوٹلوں میں رہتے ہیں جہاں اب پیدا شدہ حالات میں جاناجان جوکھم میں ڈالنے کے متراد ف ہے ،اس سے ہے کہ بٹھنڈی میں پناہ لی جائے۔اس ڈرائیورکا کہناتھاکہ بی سی روڈ پر بس اڈہ کے باہر انہیں ضلع پولیس جموں کے ساتھ ساتھ مقامی ایجنٹوں کے عتاب کا بارہا شکار ہونا پڑتا تھا اور وہاں سے جانا بھی خطرہ ہے، اس لئے یہاں سے گاڑیاں بھر کر سدھڑا بائی پاس سے کشمیر کی طرف جانا قدرِ بہتر ہے۔