ویسے تو سیاسی لیڈروںکے اعلانات و دعوئوںپر بہت کم ہی یقین کیا جا تا ہے کیونکہ اگر سیاسی لیڈروںکے دعوے حقیقت میںبدل دئے جاتے تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی ،آج بھی 80کروڑ افراد کو پانچ کلواناج کا سہارا لینے پر مجبور نہ ہو نا پڑتا ۔لیکن موجودہ سرکار کے دور میںترقیاتی کاموںکی تصویر ویسی نہیںرہی جو پہلے ہوا کرتی تھی ،یعنی آج ترقیاتی کاموںکے لئے جو ڈیڈ لائن مقرر کی جاتی ہے ،حتی الوسع کوشش کی جاتی ہے کہ کام کو مقررہ معیاد کے اندر مکمل کیا جا ئے گو معیار کے بارے سمجھوتہ ہو تا ہے ،لیکن بڑے بڑے پلان کے بارے قطعی ایسا نہیںہے ،ان کے بارے کئی بار ڈیڈ لائن دی جا تی ہے مگر ان کو مقررہ معیاد کیاندر مکمل نہیںکیا جا تا ہے ،جیسے جموںکا وقاری راجہ کا محل ،اس کے بارے کئی بار کہا گیا کہ فلاںمعیاد کے اندر مکمل کیا جا ئے گا لیکن جس انداز سے کام چل رہا ہے اباھی کئی سال اس کی تکمیل کو لگیںگے جبکہ ایک اور جموںکا وقاری پروجیکٹ مصنعی جھیل کا کئی دہائی کے بعد بھی پورا نہ ہو سکا ،حالانکہ اس پروجیکٹ کو بہت پہلے مکمل کیا جا نا چاہئے تھا مگر بار بار ڈیڈ لائن بدلتی گئی جس سے پروجیکٹ کی لاگت بڑھ جاتی ہے وہیںاس کے مقاصد پورے ہونا مشکل ہو جا تا ہے ،اس پروجیکٹ کو کشمیر ریل پروجیکٹ سے جوڑ کر دیکھا جا رہا تھا ،اس کا مقصد یہ تھا کہ دہلی کشمیر لنک ہونے کی صورت میںتجارت و یاتریوںکا جو نقصان جموںکو ہو گا ۔اس کی بھر پائی اس پروجیکٹ سے کرنی تھی ،اس مصنوعی جھیل کی تکمیل ہونے کے بعد سیاحوںو یاتریوںکا اس جھیل کی طرف راغب کرنا تھا ،مگر جو حال اس پروجیکٹ کا ہے اس سے لگ نہیںرہا ہے کہ اگلے دو تین سال میںبھی اس پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا ئے گا ۔اب سننے میںآرہا ہے کہ ہر گھر نل اس سال جون میںمکمل کیا جا ئے گا لیکن جو صورت حال جموںوکشمیر کی ہے اس سے بالکل لگتا نہیںہے کہ اس ٹارگٹ کو بھی بروقت مکمل کیا جا ئے گا ،کیونکہ جموںوکشمیر کے دور دراز علاقہ جات کے ساتھ بڑے بڑے شہروںسرینگر و جموںمیںاس محکمہ کی حالت قابل رحم ہے ،جبکہ پہاڑی علاقہ جات میںخدا ہی حافظ ہے ۔اس لئے ماہ جون تک ہر گھر کو نل دینا دور کی کوڑی لگتی ہے ۔نل لگانے سے ویسے بھی کام پورا نہیںہو تا ہے کیونکہ نل میںجل لازم ہے تبھی نل لگانے کا مقصد پورا ہو تا ہے مگر ایسا سالہال تک جموںوکشمیر میںہونا ناممکن لگتا ہے ۔اس لئے ڈیڈ لائن دینے سے قبل اس پر کافی غور کیا جا نا چاہئے ۔