وزیراعظم ہندکادورہ جموں وکشمیرـخطہ چناب پھرنظرانداز

محمد اصغر بٹ

ڈوڈہ؍؍تین فروری کو وزیر اعظم ہند نریندر مودی کی جموں و کشمیر آمد کے موقعہ پر تینوں خطوں کا دورہ کیا گیا۔ لداخ میں وزیر اعظم نے اپنے ہاتھوں سے یونیورسٹی کا افتتاح کیا اس کے بعد بھاری ہجوم کے ساتھ وادی کشمیر کے جھیل ڈل کا معائنہ کیا گیا اْنہوں نے ہاتھ ہلا کر سب کو یاد کیا مگر وادی پوری طرح فوجی چھاونی میں تبدیل تھی۔وادی کے لئے ایک مرتبہ پھر حکومت ہند نے پیکیج دیا جموں کے آر .ایس پورہ وجے پور میں مہا سبھا کے نام سے عوامی جلسے کا انعقاد کیا گیا پوری ریاست کی رحمت کی بارشیں گزشتہ پانچ برسوں سے جموں کے مضافاتی علاقوں میں برس رہی ہیں جموں اور کشمیر کا اینڈ یعنی خطہ چناب ایک مرتبہ پھر نظرانداز کیا گیا سات اسمبلی نشستوں والے خطہ چناب میں ترقیاتی پروجیکٹ ،تعلیمی اِدارے ،بے روزگاری کو دور کرنے کے لئے کوئی بھی اعلان نہ ہوا بدقسمتی سے چند برس قبل ڈوڈہ کے لئے منظور کلسٹر یونیورسٹی کو جموں شہر کے اندر قائم کیا گیا امتیازی سلوک کی زندہ مثال چار یوم قبل وجے پور میں ایمز کا سنگ بنیاد رکھنا ہے۔(ایمز) میڈیکل کالج جموں ، سپر سپیشلٹی ہسپتال ،شالمار،ماتا ویشنو دیوی نارائن سپر سپیشلٹی و دیگر معیاری اِداروں سے محض چند کلو میٹری دوری پر واقع ہے۔ افسوس کہ وادی چناب جو جغرافیائی لحاظ سے الگ پہچان رکھتا ہے کو حسب روایت نظرانداز کیا گیا خطہ چناب کا جموں صوبہ کے ساتھ منسلک تعلیمی نظام بْری طرح متاثر ہو رہا ہے۔گریجویشن کے بعد بیشتر بچّے تعلیم کو ترک کردیتے ہیں غریب والدین اپنے بچّوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھوپال ،دہلی ،علی گڑھ نہ بھیج سکتے ہیں چونکہ اْن کو دو وقت کا کھانہ میسر نہ ہوتاہے ایسے میں کلسٹر یونیورسٹی کا ڈوڈہ سے جموں منتقل کرنا یہاں کے لاکھوں غریب عوام کے بچّوں کے مستقبل پر وار کرنا ہے اور آنے والی نسل کا استحصال کرنے کے مترادف ہے۔سیاسی حلقوں میں تعزیت ،مزمت و دیگر تمام بیانات اْس وقت دئیے جاتے ہیں جب اْن کو ووٹ چائیے ہوتا ہے۔عوام کی قدر صرف اْس وقت کی جاتی ہے جب انتخابات ہوتے ہیں تب سیاسی گھرانوں میں غریب جنتا کی قدر مہمان نما ہو جاتی ہے پھر ووٹ کے بعد فقیر کا درجہ دیا جاتا ہے یہی ہمارے جمہوری نظام کا حصّہ ہے۔خطہ کے ساتھ گزشتہ ستر برسوں کے ساتھ استحصالی سیاست کی جا رہی ہے۔بی.جے.پی صوبہ جموں کو صرف جموں توی شہر مان کر چل رہی ہے جبکہ پیر پنجال ،وادی چناب کا ہزاروں مربع کلو میٹر علاقہ اْن کی بھینٹ چڑ رہا ہے۔ڈوڈہ کے حصّے میں پہلی مرتبہ میڈیکل کالج آیا ہے۔سال 2006 میں یونیورسٹی کمپس کا افتتاح ایک بار نہیں دو بار کیا گیا جو عوام کے ساتھ بھدا مذاق ہی نہیں بلکہ بیوقوفی کی بدنما مثال موجود ہے گزشتہ چودہ برسوں کے دوران مذکورہ کمپس میں تاحال کلاسیں شروع نہ کی گئی ہیں بلکہ یونیورسٹی کے قیام کی جد وجہد میں طلباء￿ یونین کے درجنوں کارکنان کو حراست میں کے لیا گیا تھا۔تعلیمی شعبہ خطہ میں زبوں حالی کا شکار ہے لیکن سرکاری سطح پر مسلسل نظر انداز علاقہ تعلیم کے ساتھ دیگر اہم ضروری مسائل سے دوچار ہے۔ڈگری کالج ڈوڈہ میں بیشتر مضامین پڑھانے کے لئے مستقل عملہ موجود نہ ہے۔یونیورسٹی کمپس بھدرواہ میں بھی چند مضامین کا درس و تدریس جاری ہے کشتواڑ میں تعلیمی بحران ہے چونکہ ضلع میں تعلیمی اِداروں کی عدم دستیابی پسماندگی کی بڑی وجہ ہے۔ڈوڈہ کے کاستی گڑھ علاقہ میں سال 2014 میں عمر عبداللہ سرکار میں ڈگری کالج کو منظوری دینا بھی خواب بن گیا ہے۔ البتہ حالیہ پچیس کالجوں کو منظوری ملی مگر بٹوت کے سوا خطہ کو کچھ ہاتھ نہ آیا لوگ حیران ہیں کہ منظور شدہ پروجیکٹ ا دارے نامنظور کس نے اور کیوں کئے گئے۔عوام کی بے بسی اور سیاسی قلندروں کی مستعدی لمہ فکری ہے ضلع رام بن کے تمام علاقوں کے بچّوں کو ڈگری کالج رام بن آکر تعلیم مل رہی ہے لیکن خطہ میں بڑے تعلیمی اِداروں کا نہ ہونا یہاں بے روزگاری بیکاری کی سب سے بڑی وجہ ہے سرکاری سکولوں میں ملنے والی تعلیم بھکاری کو ملنے والی بھیک کے مترادف ہے چونکہ ہر بار امتحانات کے نتائج میں صرف نجی تعلیمی اِداروں کے بچّے کامیاب ہوتے ہیں اور سرفہرست کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ سرکاری سکولوں میں کامیاب ہونے والے طلباء￿ سے زیادہ ناکام ہونے والے طلباء￿ کی تعداد ہوتی ہے۔سیاسی اقتدار سے لے کر گورنر صدر راج کے باوجود بھی کوئی پیش رفت نہ ہو رہی ہے۔