خطہ پیر پنچال کے مسائل اور انتخابی سیاست میں نوجوانوں کا رول
الطاف حسین جنجوعہ
احوالِ پیر پنچال
جموں وکشمیر ریاست کے صوبہ جموں کے سرحدی اضلاع پونچھ اور راجوری جنہیں عرفِ عام میں’خطہ پیر پنچال‘کے نام سے جانا جاتاہے، جغرافیائی، موسمی، تہذیب وتمدن، رہن سہن کے لحاظ سے دیگر خطوں سے الگ ہے۔یہاں کے سیاسی، سماجی، تعلیمی اور اقتصادی مسائل بھی قدرِ مختلف ہیں۔اس خطہ کی عوام نے ہمیشہ سیکولر ازم کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس، کانگریس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی حتیٰ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی پر اپنا اعتماد ظاہر کیااور انہیں منڈیٹ دیامگر جوبھی جماعتیں اقتدار میں آئیں انہوں نے ہمیشہ اس خطہ کے ساتھ زیادتی کی ۔وزارتی کابینہ میں شمولیت ہو یا کسی آئینی ادارہ میںنمائندگی دینے کا معاملہ ہو ، اِس خطہ کے ساتھ انصاف نہیں کیاگیا۔اس کی بڑی وجہ ہماری خود کی بھی کچھ خامیاں، غلطیاں اور کمزوریاں رہی ہیں جن کا اعتراف کرنے سے گریزنہیں کرنا چاہئے۔ذات برادری کے نام پر تقسیم اور سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی اندرونی خلفشار اور رسہ کشی اہم وجوہات رہی ہیں۔علاوہ ازیںجس کسی کو ایک مرتبہ قانون ساز اسمبلی میں نمائندگی کاموقع عوام فراہم کرتی ہے وہ پھر یہی چاہتا ہے کہ آخری سانس تک وہ ’کُرسی‘سے چپکاہی رہے۔ اس ’سیاسی اجارہ داری ‘کی وجہ سے نوجوان جوکہ عوامی خدمت کا زبردست جذبہ رکھتے ہیں یا سیاست کو اپنا کیرئر بنانا چاہتے ہیں، اُنہیں آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیاجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطہ پیر پنچال پر اگر آپ نظر دوڑائیں گے تو ایسے نوجوان سیاستدانوں کی تعداد بہت کم دکھائی دے گی جوعوامی سطح ُ پر مقبول ترین ہوں۔نیزاگر کوئی آگے بڑھنا بھی چاہتا ہے تو اس کی اصلاح کرنے یا رہنمائی کی بجائے اُس کی ٹانگیں کھینچنا شروع کی جاتی ہیں۔سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت بھی ان کمزوریوں کافائیدہ اُٹھاکر اپنا الو سیدھا کرتی ہیں۔ اُمیدواروں کو بھی منڈیٹ دیتے وقت ’میرٹ‘ سے زیادہ جوڑ توڑکی سیاست کی جاتی ہے۔عوام کی غیر جانبدارانہ ،ایمانداری اور خلوص نیت سے نمائندگی کرنے کی بھرپورصلاحیت رکھنے والوں کی پارٹی لیڈرشپ کے ہاں وہ قدرومنزلت نہیں بلکہ لوگوں کو تقسیم کر کے سیاسی فائیدہ حاصل کرنے والوں کو ترجیحی ملتی ہے۔
اِس ساری صورتحال کی وجہ سے خطہ پیر پنچال کی مجموعی تعمیر وترقی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔آج بھی خطہ کی بیشتر آبادی پینے کے صا ف پانی، بجلی رابطہ سڑکوںاور طبی سہولیات کی عدم دستیابی سے پریشان حال ہیں۔پچھلی سات دہائیوں کے زائد عرصہ سے لیڈران ’پانی، بجلی، سڑک ، تعلیم ، صحت ‘مدعوں پر ہی ووٹ مانگتے اوراقتدار حاصل کرتے رہے ہیں لیکن آج تک یہ مسائل نہ ہوسکے۔اراکین قانون سازیہ جن کا بنیادی رول اپنے حلقوں کے لئے بڑے پروجیکٹ،منصوبے لانا ہوتا ہے لیکن ان کی سیاست صرف راشن کارڈ، انکم سرٹیفکیٹ، چھوٹی نوعیت کے خانگی وزمینی تنازاعات کے ازالہ تک ہی محدود رہتی ہے۔ چونکہ اب پنچایتی انتخابات کے بعد نومنتخب سرپنچ وپنچ آئے ہیں ، یہ معاملات اب اُن کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی لیڈران کو یہ احساس دلایاجائے کہ وہ اِن معمولی نوعیت کے معاملات سے خود کو باہرنکال کرلیجسلیچر کے تقاضوں کو پورا کریں اور اس کاحق ادا کریں۔اب سرپنچی، پنچی نہیں بلکہ ایم ایل اے کا رول نبھائیں۔چونکہ رواں 2019انتخابی سال ہے جس میں لوک سبھا اور اسمبلی کے انتخابات ہونے ہیں، اس لئے وقت کی ضرورت ہے کہ خطہ کے ذی شعور افراد اور تعلیم یافتہ نوجوان خطہ پیر پنچال کے مجموعی اور متعلقہ اسمبلی حلقوں کے مخصوص مسائل ومعاملات کو اُجاگر کر کے سبھی سیاسی جماعتوں کے اُمیدواروں ،جوکہ انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں، پردباو¿ بنائیںکہ وہ اپنی سیاست ان مدعو ں پر کریں۔ اس حوالہ سے عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
خطہ پیرپنچال کے وسیع مفادات اور تعمیر وترقی کے حوالہ سے چند اہم بڑے مدعے ہیں جن کے حل سے خطہ میں انقلابی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے ان میں ….(1)پونچھ۔ راجوری ریلوے لائن کی تعمیر….(2)تاریخی مغل شاہراہ کو سال بھر آمدورفت کے قابل بنانے کے لئے ٹنل کی تعمیر….(3) خطہ پیر پنچال کو لداخ کی طرز پر پہاڑی خود مختیار پہاڑی ترقیاتی کونسل کا درجہ دینا….(4)راجوری پونچھ الگ سے لوک سبھا حلقہ بنانا….(5)خطہ پیر پنچال کے لئے اعلیحدہ سے ہائی کورٹ بنچ کا قیام ….(6) راجوری پونچھ میں قدرتی حسن سے مالاسیاحتی مقامات، مذہبی سیاحت اور ایڈونچر ٹورازم کو فروغ دینے کے لئے اعلیحدہ سے ’خطہ پیرپنچال ٹورازم سرکٹ ‘کا قیام….(7) کم سے کم پونچھ اور راجوری ضلع اسپتالوں میں سبھی ماہر معالجین کی تعیناتی اورضروری مشینری (سٹی اسکین، ڈیجیٹل ایکسرے، ایم آر آئی ودیگر اہم ٹسٹوں کے لئے لیبارٹری کی دستیابی) یقینی بنانا….(8)خطہ کے تمام کالجوں،یونیورسٹیوں، کلسٹر یونیورسٹیوں، سٹیلائٹ کیمپس میں سبھی مضامین متعارف کرنے اور فیکلٹی کی دستیابی قابل ذکر ہیں ۔اس کے علاوہ نوشہرہ سندربنی،کالاکوٹ، درہال، راجوری، پونچھ حویلی، سرنکوٹ اور مینڈھر اسمبلی حلقوں کے مخصوص مسائل بھی ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔گنجان آبادی اور وسیع رقبہ کے پیش نظر پونچھ، راجوری اور مینڈھر حلقوں کی سرنو حدبندی بھی بڑا مدعا ہے۔ متذکرہ بالا معاملات کے لئے سبھی سیاسی جماعتوں سے وابستہ لیڈران کے مابین کم سے کم مشترکہ لائحہ عمل ہونا ناگزیر ہے۔سرحدی خطہ ہونے کی وجہ سے پونچھ راجوری کے متعددمسائل ایسے ہیں جن کا حل مرکز کے پاس ہے، جن کے ازالہ کے لئے پارلیمنٹ کے اندر بات ہونا ضروری ہے لیکن جموں پونچھ لوک سبھا حلقہ سے آج تک جوبھی ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوتا ہے وہ کالی دھار سے آگے کبھی بات نہیں کرتا، اس کا دائرہ صرف سانبہ اور جموں اضلاع تک محدود رہتا ہے۔ پونچھ اور راجوری کو یکسر نظر انداز کیاجاتاہے، اس لئے پونچھ اور راجوری کیلئے الگ لوک سبھا نشست کے حق میں زور دار آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔عدالت عظمیٰ اس بات پرزور دے رہی ہے کہ ’انصاف ہرگھر کی دہلیز تک‘مگر آج بھی پونچھ اور راجوری کے افراد کو انصاف کے لئے جموں ہائی کورٹ میں آنا پڑتا ہے جس دورن انہیں کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے، اس لئے پونچھ راجوری کے لئے اعلیحدہ ہائی کورٹ بنچ ہونا چاہئے، اس کے لئے جدوجہد شروع کرنے کی ضرورت ہے جس میں وکلاءبرادری کو متحرک ہونا ہوگا۔
خطہ کی تعمیر وترقی کے حوالہ سے سب کچھ سیاسی لیڈران پرچھوڑنا اور مکمل طور اُن پر انحصار کرنا ٹھیک نہیں، اس لئے پونچھ اور راجوری کے ذی شعور افراد خاص طور سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی آگے آناہوگا۔ وکلاءبرادری اس حوالہ سے نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں۔آنے والے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات سے قبل چاہئے کہ خطہ پیر پنچال کی تعمیر وترقی سے متذکربالا معاملات اور اسمبلی حلقوں کے مخصوص مسائل ومطالبات پر غیرجانبدارانہ سروے کر کے کتابچہ کی صورت میں جامع رپورٹ تیار کی جائے ۔اِس کی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے تاکہ خطہ کے ہرشخص اس سے بیدار ہو۔راجوری پونچھ کی تعمیر وترقی سے متعلق جامع رپورٹ کتابچہ کی صورت میں ہر سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس، کانگریس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، بھارتیہ جنتا پارٹی، جموں وکشمیر نیشنل پینتھرز پارٹی، پیپلز کانفرنس اور دیگر سیاسی دھڑوںکی لیڈرشپ تک پہنچائے جائیں اور ان سے کہاجائے کہ وہ لوک سبھا اور اسمبلی چناو¿ کے لئے تیار کئے جانے والے منشور’ Election Manifesto‘میں ان مدعوو¿ںکو شامل کریں اور عہد کریں کہ اگر کل اقتدار میں آئیں تو ان کا ازالہ کیاجائے گا۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ’Pressure Group‘کی صورت میں سبھی سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ پر یہ واضح کریں کہ اب کی بار ووٹ بنک استحصالی سیاست نہیں بلکہ مدعوو¿ں پر ووٹ سیاست کی جائے۔اب یہاں سے ان کے امیدواروں کو صرف قانون ساز اسمبلی میں اپنی تعداد بڑھانے اور ٹریجری بنچ پر بیٹھ کر ٹیبل پیٹنے کے لئے نہیں ، بلکہ ان کو ووٹ صرف مدعوں کو حل کرنے کے لئے دیاجائے گا۔ پارٹی لیڈرشپ پرزور دیاکہ جائے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران جب پونچھ راجوری کادورہ کریں اور ریلیوں سے خطاب کریں تو بھی ان مطالبات پر بات کریں ۔اس وقت سب سے اہم ضروری یہ ہے کہ سب سے پہلے نوجوان اس بات کو یقینی بنائیں کہ خطہ کے اہم مسائل ومطالبات سبھی پارٹیوں کی لیڈرشپ کی نوٹس میں لائی جائیں اور انتخابی منشور میں اِن کو شامل کرایاجائے۔خطہ پیرپنچال سے تعلق رکھنے والے سبھی سیاسی لیڈران چاہئے وہ کسی بھی جماعت سے وابستہ ہوں، ان کو اس بات پر مجبور کرنا ہوگاکہ وہ خطہ کی جامع ترقی کے حوالہ سے کم سے کم مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں۔لیڈران کو اِ س بات کا احساس دلانا ہوگاکہ وہ قانون سازیہ کے ایوانوں میں اور اس سے باہر پیر پنچال کی تعمیر وترقی سے متعلق اہم معاملات پر یک زباں آواز اُٹھائیں اور اس وقت سیاسی ونظریاتی وابستگیوں سے بالاترہوکر اپنے خطہ اور عوام کے لئے آگے آئیں۔خطہ کے سیاستدانوں کوبھی یہ سمجھنے کی ضرورت کہ وہ جس بھی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں، اپنے خطہ کی ترقی سے متعلق سمجھوتہ نہ کیاجائے اور اپنی لیڈرشپ کو مجبور کیاجائے کہ وہ مسائل کو حل کریں۔بنیادی طور پر سیاسی لیڈران خطہ کی ترقی کے لئے ہی تو میدان سیاست میں آتے ہیں، اگر اس بنیادی مقصد سے ہی سمجھوتہ کیاجائے تو پھر وہ اپنے آپ اور اپنی عوام سے بہت بڑا دھوکہ کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ:مضمون نگار پیشہ سے صحافی اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]
خطہ پیر پنچال کے مسائل اورانتخابی سیاست میں نوجوانوں کا رول
![](https://www.dailyudaan.com/wp-content/uploads/2019/02/2018081121.jpg)