خطہ پیر پنچال میں جمہوریت کا چوتھا ستون’شعبہ صحافت ‘ غلط ہاتھوں میں

پونچھ اور راجوری میں سوشل میڈیا پر نام نہاد جرنلزم ریاست کی سلامتی ، حرمن امن اور آپسی بھائی چارہ کیلئے خطرہ!
ضلع انتظامیہ اور پولیس فوری طور پر یوٹیوب چینلوں، وہاٹس ایپ گروپوں اور فیس بُک پر آزادی اظہار رائے کا غلط استعمال کرنے والوں پر نکیل کسے

٭ یوٹیوب چینلوں کی باقاعدہ رجسٹریشن ہونی چاہئے
٭ وہاٹس ایپ گروپوں اور فیس بک پر چینل بنانے والوں کا باقاعدہ اندراج ہو
٭ انتظامیہ اور سیاستدانوں کی بلیک میلنگ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے
٭ سوشل میڈیا کے ذریعہ جرنلزم کا دعویٰ کرنیو الوں کی مکمل تفاصیل متعلقہ پولیس تھانوں، ضلع محکمہ اطلاعات دفاترمیں رکھی
جائے۔
٭ باقاعدہ اندراج شدہ مستندیوٹیوب چینلوں، وہاٹس ایپ اور فیس بک میڈیا گروپوں کی مکمل فہرست مرتب کر کے اس کو عوام
کی سہولت کے لئے متعلقہ پولیس تھانوں اور ضلع وتحصیل دفاتر کے باہر چسپاں کیاجائے ۔
٭ درجنوں سیاسی لیڈران اور ٹھیکیدار بھی صحافی ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

نیوزڈیسک
جموں//جموں وکشمیر ریاست کے صوبہ جموں میں سرحد اضلاع پونچھ اور راجوری جنہیں عرف عام میں ’خطہ پیر پنچال‘کے نام سے جانا جاتاہے، میںنام نہاد صحافیوں کی طرف سے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کئے جانے سے ملک وریاست کی سلامتی، آپسی بھائی چارہ، مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے خطرہ بن گیاہے۔ پونچھ اور راجوری میں سینکڑوں کی تعداد میں ’یوٹیوب چینل‘بنائے گئے ہیں جن کا کہیں کوئی اندراج نہیں، ان یو ٹیوب چینلوں پر صحافتی اصول وضوابط کو بالائے طاق رکھ کر مخصوص نظریہ، حقیراور ذاتی مفادا ت کی خاطر غلط استعمال کیاجارہاہے۔ وہاٹس ایپ پر ہزاروں کی تعداد میں گروپ بنائے گئے ہیں جن پر طرح طرح کی من گھڑت، بے بنیاد اور ایسی خبریں چڑھائیں جاتی ہیں یا افواہیں پھیلائی جارہی ہیں جس سے حرمن امن کو زک پہنچنے کا احتمال ہے۔فیس بک لائی پربھی متعدد چینل بنائے گئے ہیں جن کی کوئی رجسٹریشن نہیں،کسی بھی قواعد وضوابط پر عمل نہیں کیاجارہا۔سال 2016میں Jio Internetملک بھر میں متعارف کئے جانے کے بعدہر کوئی شخص جس کے پاس اچھاسمارٹ اور اینڈرائڈ فون ہے، وہ خود کوصحافی مان بیٹھا ہے۔پونچھ راجوری اضلاع کے اندر یہ یوٹیوب چینل، وہاٹس ایپ گروپ اور فیس بک ٹی وی نام سے چلائے جارہے گروپوں پر کوئی انتظامیہ کو بلیک میل کر رہاہے تو کوئی سیاستدانوں کی بلیک میلنگ کی جارہی ہے۔ ان دنوں فیس بک پر خاص طور سے ایک رحجان راجوری پونچھ میں کافی دیکھنے کو مل رہا ہے، کہ چند افراد الگ الگ حلقوں سے تین چار سیاستدانوں کی تصاویر ایک ساتھ پوسٹ کر کے نیچے اس پر لوگوں سے یہ رائے طلب کر رہے ہیں کہ آئندہ اسمبلی انتخابات کے لئے کون سا موزوں لیڈر ہے، دعویٰ یہ کیاجارہاہے کہ وہ سروے کر رہے ہیں جس پر بعد میں خبریں اور غیر ضروری تبصرے وتجزیئے کرکے عام لوگوں میں بد اعتمادی پھیلائی جارہی ہے۔ذرائع نے بتایاکہ سرنکوٹ، مینڈھر، پونچھ، منڈی، لورن، بالاکوٹ، منکوٹ، منجاکوٹ، تھنہ منڈی، راجوری، نوشہرہ، درہال، کوٹرنکہ، خواص، بدھل، کالاکوٹ، سندر بنی، شاہدرہ شریف، بیرن پٹن، پنج گرائیں، گمبھیر مغلاں، چنگس وغیرہ میں اس طرح کے سینکڑوں یو ٹیوب چینل، ویب پورٹل، وہاٹس ایپ اور فیس بک میڈیا گروپس ہیں جومائیک لیکر متعلقہ علاقوں میں سرکاری ملازمین، افسران ، معزز شہریوں اور سیاستدانوں کو ذاتی مفادات کی خاطر بلیک میل کر رہے ہیں۔بغیر تصدیق کئے من گھڑت خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔ ایک شخص نے بتایاکہ پونچھ اور راجوری اضلاع میں ہر دوسرے تیسرے دن حکومت کی طرف سے انتظامیہ میں پھیر بدل سے متعلق خبریں اور باقاعدہ فرضی آرڈرز بھی اپ لوڈ کئے جاتے ہیں۔ آرڈرز پر متعلقہ اعلیٰ افسران کے نام اور دستخط فوٹوشاپ اور کورل ڈراسافٹ ویئر ودیگر موبائل ایپلی کیشنز کے ذریعہ اس طرح ایڈیٹ کیاگیاہوتا ہے کہ ایک پڑھا لکھا آدمی بھی اس کو صحیح مان بیٹھتا ہے۔اِ ن دنوں چونکہ ریاست میں گورنر رول نافذ ہے اور اسمبلی فی الحال معطل رکھی گئی ہے جس کے پیش نظر حکومت سازی کے امکانات موجود ہیں، اس پر روزانہ پونچھ راجوری کے وہاٹس ایپ گروپوں، یوٹیوب چینلوں اور فیس بک میڈیا گروپوں پر کبھی نیشنل کانفرنس۔ بی جے پی، کبھی کانگریس، پی ڈی پی، این سی تو کبھی کوئی اور ایلائنس کربنا کر خبریں پھیلائی جاتی ہیں، حکومت بن گئی ہے۔صرف یہیں تک نہیں بلکہ باقاعدہ طور پر وزارتی کونسل کی بھی فہرست مرتب کی جاتی ہے جس میں اراکین قانون سازیہ کا محکمہ جات بھی تفویض ہوتے ہیں۔کوئی محکمہ دیہی ترقی کے پیچھے پڑا ہے تو کوئی کسی بی ڈی او کے۔ کوئی اے سی ڈی کے خلاف پروپگنڈہ کر رہاہے تو کوئی اسسٹنٹ ریجنل ٹرانسپورٹ افسر(اے آر ٹی او)کوبلیک میل کر رہاہے، کوئی کسی لیجسلیچر کی قصیدہ گوئی ، تعریفات میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہاتو کوئی کسی لیجسلیچر کے ساتھ مخالفت کی تمام ترحدیں پار کر رہاہے۔ایک شخص نے اس حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ صحافت کا تقاضا ہے کہ آپ مکمل طو ر غیر جانبدارہوں، ایک صحافی کے لئے مذہب، ذات، پات، رنگ ونسل، جنس، علاقہ، مسلک، فرقہ، امیر ، غریب، سفید وسیاہ میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ غیر جانبدارانہ طریقہ سے اپنے فرائض انجام دیئے جائے۔ حقائق واعدادوشمار کو کبھی بھی ترو ڑ مروڑ کرنہ پیش کیاجائے بلکہ اصلیت کو سامنے لانے کی کوشش کی جائے مگر پونچھ اور راجوری اضلاع کا خدا ہی خافظ ہے، جب سے Jioانٹرنیٹ آیا ہے، ہر شخص صحافی اور ہرکوئی خود کو رجت شرما اور ارنب گوسوامی ہونے کا دعویٰ کر رہاہے۔لوگوں کا مطالبہ ہے جس طرح سے کشتواڑ اور ڈوڈہ میں بلیک میلنگ کرنے والوں اور صحافت کے نام پر بدنما داغ صحافیوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی ہے اسی طرح پونچھ راجوری کے متعلقہ ضلع ترقیاتی کمشنرز بھی کارروائی کریں۔ ایسے تمام افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے جوبھی افراد یوٹیوب، وہاٹس ایپ اور فیس بک میڈیا گروپ یا چینلوں کے ذریعہ صحافت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کی باقاعدہ رجسٹریشن ہو، ان کانام ، پتہ، ولدیت، تعلیمی قابلیت اور دیگر بیک گراؤنڈ کے بارے میں مکمل تفاصیل جمع رکھی جائیں۔راجوری پونچھ میں حیران کن امر یہ ہے کہ سینکڑوں ایسے صحافی ہیں جوکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران، عہدادران، ٹھیکیدار یا پھر سرکاری ملازمین ہیں، کچھ صحافی ساتھ ساتھ سماجی ورکروز ہونے کا بھی دعویٰ کر رہے ہیں۔انتظامیہ کو چاہئے کہ جمہوریت کا چوتھا ستون کہلانے والے شعبہ صحافت کی تنزلی اور اس کو بدنام کرنے والوں پر وقت رہتے شکنجہ کسے۔