اڑان نیوز
جموں/ کٹھوعہ ضلع کے گاؤں رسانہ کی ننھی آصفہ کی عصمت دری اور قتل معاملے میں حالانکہ ابتدا سے ہی یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ وحشتناک واردات ایک خصوصی منصوبے کے تحت انجام دی گئی اور اس کی تصدیق اس وقت ہو گئی تھی جب بچی کی لاش کو بھی خرید شدہ مقامی قبرستان میں دفنانے نہیں دیا گیا تھا ۔ لیکن اس معاملے میں اب رفتہ رفتہ جس طرح ایک کے بعد ایک پرت کھل رہی ہے ، اس سے نہ صرف وہاں پر رہنے والے گوجر بکروال طبقہ کے خدشات بلکہ ریاستی کرائم برانچ کے انسپکٹر جنرل کی طرف سے کلیدی ملزم ایس پی او دیپک کھجوریہ کی گرفتاری کے بعد دئے گئے اس بیان کی صد فیصد تصدیق ہو تی ہے کی واردات مقامی گوجر بکروالوں ( مسلمانوں ) کو خوفزدہ کرکے وہاں سے نکالنے کے لئے انجام دی گئی تھی ۔ حالیہ دنوں اچانک ” ہندو ایکتا منچ نامی “ کا جنم ہوا جس نے ملزم کے حق میں ترنگا مارچ نکالا تھا جس پر وزیر اعلیٰ نے بھی کافی افسوس کا اظہار کیا تھا ۔ لیکن اب معاملہ یہاں تک ہی نہیں رکا ہے بلکہ اس شرمناک جرم کی تحقیقات میں اڑنگے ڈالنے اور معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگت دے کر ملزمان کے لئے ہمدردری حاصل کرنے نیز حکومت اور کرائم برانچ پر دباؤ ڈالنے کی مسلسل کو شش ہو رہی ہے ۔ چناچہ بدھوار کے روز بھی ہندو ایکتا منچ نامی تنظیم کے درجنوں کارکنوں نے بدھ کے روز کیس کو سی بی آئی کے حوالے کرنے کے مطالبے کو لیکر ایک بار پھر ریلی نکالی اور پولیس تھانہ ہیرا نگر میں اجتماعی گرفتاریاں پیش کیں۔ واضح رہے کہ منگل کے روز رسانہ گاو¿ں کی اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والی قریب ڈیڑھ درجن خواتین یہ کہتی ہوئے ایک نزدیکی گاو¿ں کوٹہ موڑ یہ کہہ کر منتقل ہو گئیں کہ کرائم برانچ پولیس انہیں ہراساں کررہی ہے۔ان خواتین کا کہنا تھا کہ پولیس اصل مجرموں کوبچانے کے لئے بے گناہوں کو گرفتار کررہی ہے۔ تاہم ریاستی پولیس نے بدھ کی صبح نقل مکانی کرنے والی خواتین اور دیگر تین لوگوں کو حفاظتی تحویل میں لیا۔ اس دوران ہندو ایکتا منچ کے درجنوں کارکنوں نے نقل مکانی کرنے والے خواتین کو حراست میں لینے کے خلاف اور کیس کو سی بی آئی کے حوالے کرنے کے مطالبے کو لیکر ایک بار پھر ریلی نکالی اور پولیس تھانہ ہیرا نگر میں اجتماعی گرفتاریاں پیش کیں۔ گرفتاریاں پیش کرنے سے قبل ہندو ایکتا منچ کے کارکنوں نے ’ہم کیا چاہتے سی بی آئی انکوائری، ہم پتھر باز نہیں ہیں‘ جیسے نعرے لگائے۔ ہندو ایکتا منچ کے صدر ایڈوکیٹ وجے کمار جو احتجاجیوں کی قیادت کررہے تھے، نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ” بھارت ماتا کی جے بولنے“ والوں کے خلاف ناانصافی کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا ’کرائم برانچ نابالغ بچوں کو گرفتار کررہی ہے۔ ان کو مارا جارہا ہے اور ان کا ٹارچر کیا جارہا ہے۔ ان کو زبردستی گواہ بنایا جارہا ہے۔ ڈروخوف کی وجہ سے جب لوگ رسانہ گاو¿ں چھوڑ کر کوٹہ پہنچے تو انہیں وہاں سے زبردستی نکالا گیا۔دوسری طرف پولیس ذرائع نے بتایا کہ نقل مکانی کرنے والوں نے علاقہ میں نافذ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی تھی اور اس بناءپر انہیں گرفتار کیا گیا۔تاہم ملزمان کے حق میں ان لوگوں کی طرف سے چلائی گئی مہم میں تیزی آتی جا رہی ہے اور کیس کی تحقیقات کرائم برانچ سے چھین کر مرکزی تحقیقاتی بیورو کو سونپنے کے مطالبہ کی آڑ میں خوب زہر پھیلایا جا رہا ہے ۔ خود ڈپٹی کمشنر کٹھوعہ روہت کھجوریہ نے بھی بدھ کے روز ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات چیت کے دوران تسلیم کیا کہ ” کچھ لوگ تحقیقاتی عمل میں مداخلت کررہے ہیں“ ۔انہوں نے کہا کہ واقعہ کی تحقیقات چل رہی ہے۔ قتل ہوا ہے اورکوئی تو قاتل ہوگا۔انہوں نے بتایا ” پولیس کسی کو تفتیش کے لئے بلاتی ہے تو یہاں چند افراد ایسے ہیں جن کا کام صرف اعتراض کرنا ہے۔ کسی نہ کسی نے یہ کرائم تو کیا ہوگا۔ جس کو پولیس تفتیش کے لئے بلاتی ہے تو یہ بولتے ہیں کہ یہ ملوث نہیں ہے“۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کی انکوائری سی بی آئی کے حوالے کرنے کا حق صرف ریاستی حکومت کو حاصل ہے اور کا حکم ایک ڈپٹی کمشنر صادر نہیں کرسکتا۔۔ انہوں نے کہا ” یہ جو چند لوگ اس کے لئے احتجاج کررہے ہیں، وہ جموں میں بیٹھے اپنے بڑے بڑے لیڈروں سے اپروچ کیوں نہیں کرتے۔ میں خود زیادہ سے زیادہ ڈویژنل کمشنر کو اپروچ کرسکتا ہوں، میں نے کیا ہے۔احتجاج کرنے والے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔ یہاں بیٹھ کر احتجاج کرنے سے سی بی آئی انکوائری نہیں ہوگی“۔ قابلِ ذکر ہے کہ تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاو¿ں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی آصفہ بانو کو 10 جنوری کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو پانی پلانے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ قتل اور عصمت دری کے اس واقعہ کے خلاف مقتولہ بچی کے کنبے اور رشتہ داروں نے شدید احتجاج کیا تھاجبکہ اپوزیشن نے اسمبلی میں اپنا احتجاج کئی دنوں تک جاری رکھا تھا ۔پہلے پولیس نے ایک 15سالہ لڑکے کو گر فتار کر کے دعویٰ کیا تھا اس جرم میں وہ ملوث تھا ۔ لیکن جب پولیس کی اس تھیوری پر کئی سوال اٹھے نیز لواحقین کے علاوہ کئی سیاسی و سماجی تنظیموں نے احتجاج جاری رکھا تو ریاستی حکومت نے کیس کی تحقیقات ریاستی کرائم برانچ کو سونپ دی تھی ۔ کرائم برانچ نے ابتدائی تحقیقات کے بعد دیپک کھجوریہ نامی ایک ایس پی او کو گرفتار کر لیا جس پر لواحقین پہلے ہی اپنا شک ظاہر کر چکے تھے ۔ 28 سالہ ملزم ایس پی او پولیس تھانہ ہیرانگر میں تعینات تھا۔ دیپک کھجوریہ اُس پولیس ٹیم کا حصہ تھا جو آصفہ کے اغوا کے بعد اس کی تلاش کررہی تھی۔بعد میں آئی جی کرائم برانچ الوک پوری نے ایک نیوز چینل کو بتایا تھا کہ کھجوریہ نے کم عمر لڑکے کے ساتھ مل کر آصفہ کو 8روز تک یرغمال بنا کر رکھا اور اس کی عصمت دری کے بعد قتل کیا ۔ رپورٹ کے مطابق اس عصمت ریزی اور قتل کا مقصد علاقہ میں مقیم خانہ بدوش گوجر بکروال طبقہ کو خوفزدہ کرنا تھا۔ اس دوران حکمران اتحاد کی اکائی بھارتیہ جنتا پارٹی ، جس نے ابتدا میں ” ہندو ایکتا منچ “ سے بریت کا اظہار کیا تھا ، بھی اب اسی کی زبان میں بات کرنے لگی ہے ۔ پارٹی کے جموں ، پونچھ حلقہ سے ممبر پارلیمنٹ جگل کشور شرما نے بدھ کے روز یہاں ایک تقریب کے حاشئے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ”بھاجپا بے گناہوں کی پکڑ دھکڑ برداشت نہیں کرے گی“۔ا نہوں نے کہا کہ رپورٹیں آرہی ہیں کہ کیس کی آڑ میں ایک مخصوص کیمونٹی سے وابستہ لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ وزن برابر کرنے کے لئے انہوں نے کہا ”اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ آصفہ ہماری اپنی بیٹی اور سماج کی بیٹی تھی۔ اس کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔ جس نے یہ جرم انجام دیا ہے اس کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن رپورٹیں آرہی ہیں کہ اس کیس کی آڑ میں ایک مخصوص کیمونٹی سے وابستہ لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہے“۔ ممبر پارلیمنٹ نے الزام لگایا کہ کسی کے کہنے اور کسی کو خوشی کرنے کے لئے بے گناہوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ ان کا مزید کہا تھا ”جو بچے اس کیس میں ملوث نہیں ہیں، انہیں گرفتار کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ میں یہ سرکار سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اس کیس کو سنجیدگی سے لے“۔
ننھی آصفہ عصمت دری و قتل معاملہ تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے و سانحہ کو فرقہ وارانہ رنگت دینے کی کوششیں تیز کیس کی آڑ میں ایک مخصوص کیمونٹی سے وابستہ لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہے: جگل کشور شرما
![](https://www.dailyudaan.com/wp-content/uploads/2018/03/Kathua-rape-and-murder.jpg)