یو این آئی
نئی دہلی// نیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ گذشتہ شام یہاں انڈیا ٹوڈے گروپ کی جانب سے منعقدہ ’ایجنڈا آج تک‘ تقریب کے دوران اس وقت شدید غصے میں آگئے جب صحافی پونیہ پرسون باجپائی نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ خود کو بھارتی شہری مانتے ہیں۔ یہ سوال سنتے ہی فاروق عبداللہ پونیہ پرسون باجپائی پر برس پڑے اور انہیں ذہنی مریض قرار دیتے ہوئے ماہر نفسیات کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ تاہم انٹرویو کے دوران نیشنل کانفرنس صدر اپنے ایک حالیہ ویڈیو کلپ پر زبردست ہنس پڑے جس میں انہیں مرکزی حکومت سے مخاطب ہوکر یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ’ارے یہ (پاکستان زیر انتظام کشمیر) تمہارے باپ کا ہے کیا؟ ‘۔ جب ’آج تک‘ کے صحافی پرسون باجپائی نے ڈاکٹر عبداللہ سے پوچھا کہ ’کیا وہ خود کو بھارتی شہری مانتے ہیں‘ تو وہ شدید غصے میں آگئے اور کہنے لگے ’کیا آپ کو اس پر کوئی شک ہے۔ مجھے اپنے ہندوستانی ہونے پر شک نہیں ہے۔ کیا آپ سامعین میں کسی سے پوچھیں گے کہ آپ ہندوستانی ہیں یا نہیں۔ آپ کو یہ پوچھنے کا کس نے حق دیا ہے ۔ آپ کی یہ پوچھنے کی ہمت کیسے ہوئی؟ آپ کو یہ بیماری لگ گئی ہے۔ آپ کو ماہر نفسیات کے پاس جانا چاہیے۔ مجھے چیلنج کرنے کی ہمت مت کرو‘۔ یہ پوچھے جانے پر ’کشمیریوں کو ملک کے دوسرے حصوں میں شک کی نظر سے دیکھنے کے سلسلے پر بریک لگانے کی سمت میں کیا کرنا ہوگا تو فاروق عبداللہ کا جواب تھا ’راستہ ایک ہی ہے کہ آپ اپنے دل سے یہ بات نکال لیجئے کہ ہم ہندوستانی نہیں ہیں۔ جس دن آپ یہ اپنے دل سے نکال لیں گے، اس دن کسی کشمیریوں کو شک کی نظر سے دیکھنا بند ہوگا۔ اس شک نے آپ لوگوں کو مارا ڈالا ہے۔ یہ شک ہے یا سیاست، یہ تو آپ لوگ ہی جانتے ہو۔ تم لوگوں نے تو بہت سیاست کھیل لی ہے‘۔ انٹرویو کے دوران نیشنل کانفرنس صدر اپنے ایک حالیہ ویڈیو کلپ پر زبردست ہنس پڑے جس میں انہیں مرکزی حکومت سے مخاطب ہوکر یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ’پاکستان ایک حصہ دار ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی قرارداد ہے کہ جو حصہ پاکستان کے پاس ہے، وہ ہمارا ہے۔ ارے تمہارے باپ کا ہے کیا؟تمہارے پاس وہ طاقت نہیں ہے کہ تم وہ حصہ لے سکو۔ نہ ان کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ یہ حصہ لے سکے‘۔ تاہم انہوں نے اپنے موقف کے دفاع میں کہا ’ہم نے چار جنگیں کی ہیں، کیا ہم وہ حصہ حاصل کرپائے ہیں۔ لائن آف کنٹرول تو وہیں پر ہے۔ سرحدوں پر رہنے والے مر ررہے ہیں۔ وہاں سے گولہ باری ہوتی ہے تو ہمارے لوگ مرتے ہیں اور ہم یہاں سے گولہ باری کرتے ہیں تو وہاں بھی ہمارے لوگ مرتے ہیں۔ بربادی کے سوا کچھ حاصل ہوتا ہے؟ یہ لوگ کشمیر آنے سے ڈرتے ہیں۔ پہلے ہزار دفعہ پوچھتے ہیں کہ ہم آئیں یا نہ آئیں۔ لندن جائیں گے۔ مگر ہمارے یہاں نہیں آئیں گے‘۔