الطا ف حسین جنجوعہ
جموں//”جموںبند“ اور پہیہ جام ہڑتال ، سیاسی ، تجارتی ،سماجی وملازمین تنظیموںکے احتجاج کے بیچ پیر کے روز دربار موو¿ دفاتر آئندہ چھ مال کے لئے سرمائی راجدھانی جموں میں کھل گئے۔وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی صبح9:30بجے سول سیکریٹریٹ پہنچی جہاں پر انہیں جموں وکشمیر پولیس کے دستوں نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ اس کے ساتھ ہی سول سیکریٹریٹ، راج بھون، پولیس ہیڈکوارٹر اور دیگر دفاتر نے بھی اپنا کام کاج کرنا شروع کر دیا ۔ اس دوران سرمائی دارالحکومت میں بنداورچکا جام ہڑتال کی وجہ سے زندگی درہم برہم رہی جب کہ نیشنل کانفرنس، کانگریس ، چیمبرآف ٹریڈرز فیڈریشن کی احتجاجی ریلیوں، نیشنل پینتھرز پارٹی کی” للکار ریلی“ اور مختلف دیگر سماجی وملازمین تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کر کے دربار موو¿ دفاتر کا استقبال کیا۔ احتجاجی مظاہر وں ونعرہ بازی کا سلسلہ دن بھر جاری رہا جس کی وجہ سے پولیس کو کافی محنت کرنا پڑی۔حکام نے احتجاجی ریلیوں کو ناکام بنانے کے لئے سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے اور جگہ جگہ پر پولیس کی بھاری نفری کے علاوہ خار دار تاریں بچھاکر رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔سول سیکریٹریٹ کے آس پاس انتظامیہ نے احتیاطی طور پر دفعہ144نافذ کر رکھاتھا۔ شہر کے بعض علاقوں میں مکمل اور کچھ میں جزوی ہڑتال کی گئی جبکہ کئی بازاروں میں تجارتی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہیں۔ شہر جموں کے متعدد بازاروں میں صبح سے ہی اکا دکا دکانیں وتجارتی کاروباری ادارے کھلے رہے، جبکہ دوپہر12بجے کے بعد رگھوناتھ مندر بازار اور اولڈ ہسپتال روڈبازار مکمل طور کھل گیا۔البتہ ٹرانسپورٹروں کی طرف سے دی گئی پہیہ جام ہڑتال کا اثر شہر جموں اور مضافات میں بھی دیکھنے کو ملا۔ پبلک ٹرانسپورٹ دن بر سڑکوں سے تقریباًغائب رہا البتہ آٹور کشا اور نجی گاڑیاں معمول کے مطابق چلتی رہیں۔ بند اور پہیہ جام ہڑتال کی وجہ سے سرکاری دفاتر میں حاضری کم رہی جبکہ سرکاری سکولوںونجی تعلیمی اداروں میں طلبہ وطالبات کی حاضر ی پر بھی واضح اثر دیکھنے کو ملا۔ پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب رہنے کی وجہ سے عام لوگوں کو اپنی منازل کی طرف جانے میں سخت دقتوں کا سامنا رہا۔اس دوران پیر پنجال اور وادی چناب سے جموں آنے اور یہاں سے جانے والی گاڑیاں بھی کم ہی چلیں۔ کانگریس لیڈران اور کارکان نے احتجاج کے بطور گرفتاریاں پیش کیںجبکہ نیشنل کانفرنس لیڈران کو احتیاط کے طور حراست میں لیاگیا۔ کانگریس پارٹی کی طرف سے ریاستی صدر غلام احمد میر کی قیادت میں حکومت کی مبینہ ناکامی کے خلاف احتجاج کے بطور ایک ریلی نکالی گئی ۔ یہ ریلی پارٹی دفتر شہیدی چوک سے شروع ہوئی، جس میں کانگریس کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ احتجاج کرتے کانگریس کارکنان اور لیڈران نے سول سیکریٹریٹ کی طرف پیش قدمی کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں شالیمار چوک سے آگے جانے نہیں دیاگیا۔ وہاں سے غلام احمد میر سمیت پارٹی کے متعدد لیڈران ، ممبران قانون سازیہ اور کارکنوں نے گرفتاریاں پیش کیںجنہیں ضلع پولیس لائن جموں لے جایاگیا۔کانگریس ریلی کے کچھ دیر بعد نیشنل کانفرنس کارکنان نے سرجیت سنگھ سلاتھیا اور دویندر سنگھ رانا کی قیادت میں پارٹی دفتر شیر کشمیر بھون سے اسی طرح کا جلوس نکالا گیاجس میں سینکڑوں کی تعداد میں ورکروز ولیڈر شامل تھے۔ پولیس نے پہلے سٹی چوک اور بعد میں شالیمار چوک کے نزدیک ریلی کے شرکاءکو روکا۔طرفین کے مابین ہاتھا پائی کے بعد پولیس نے ریلی میں شامل کئی لیڈران اور کارکنوں کو احتیاط کے بطور حراست میں لیا۔کانگریس اور نیشنل کانفرنس کارکنان نے ہاتھوں میں پلے کارڈز بھی اٹھارکھے تھے جن پر حکومت مخالف نعرے درج تھے۔اس دوران پینتھرس پارٹی کے کارکنوں نے بھی ایک احتجاجی ریلی نکالی۔چیمبرآف ٹریڈرز فیڈریشن اور ٹیم جموں نے بھی شہر جموں میں گاڑیوں پر احتجاجی ریلی نکالی اور مختلف علاقوں کا چکر لگایا۔ اس دوران مظاہرین نے پی ڈی پی۔ بی جے پی سرکار ہاے ہائے ، بی جے پی غدار، بی جے پی غدار کے نعرے بھی لگائے۔ آل جموں وکشمیر ٹرانسپورٹ یونین نے بھی اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا۔ سٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن سے رضاکارانہ طور پر سبکدوش ہوئے ملازمین نے پریس کلب کے باہر احتجاج کیا۔ پلس ٹو کنٹریکچول لیکچررز نے بھی پریس کلب سے احتجاجی ریلی نکالی اور سول سیکریٹریٹ کی طرف جانے کی کوشش کی لیکن پولیس کی بھاری جمعیت نے ہاتھا پائی، دھمکا مکی کے بعد ڈوگرہ چوک سے آگے مظاہرین کو نہیں جانے دیا۔جموں وکشمیر گوجر یوتھ دیش باڈی کے بینر تلے چوہدری نزاکت کٹھانہ کی قیادت میں گوجر بکروال طبقہ کے لوگوں نے بھی پریس کلب کے باہر پر امن احتجاج کیا۔ خانہ بدوش گوجر بکروال لوگوں نے مال مویشیوں سمیت سول سیکریٹریٹ کا گھیراو¿ کرنے کا پلان بنایا تھا لیکن پولیس نے بھینسوں کو گوجر نگر، بکرم چوک، بیلی چرانہ اور بھیڑ بکریوں کو کنال روڈ سے لانے کی اجازت نہ دی اور انہیں اپنی تحویل میں لیا۔ جس کے بعد ان لوگوں نے پر امن طور پر پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور حکومت سے مطالبہ کیاکہ ان کو ہراساں نہ کیاجائے۔یاد رہے کہ دربار مو کے پہلے روز جموں کی تجارتی تنظیموں نے چیمبر آف ٹریڈرس فیڈریشن کے بینر تلے جموں بند کی کی کال دی تھی۔یہ کال بیرون ریاست سے درآمد ہونے والی اشیاءپر ٹول ٹیکس عائد کرنے کے خلاف اورڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے یوم پیدائش کے روز سرکاری تعطیل کے حق میں احتجاج کے بطور دی تھیوہیں دوسری اور ٹرانسپورٹروں نے اپنے دیرینہ مطالبات کے حق میں چکہ جام ہڑتال کال دی گئی تھی۔ دربار مو دفاتر کھلنے پرجموں شہر میں سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے ۔سیکریٹریٹ ،ایم ایل اے ہوسٹل اور دیگر اہم سرکاری تنصیبات کے گردو نواح میں پولیس اور سیکورٹی فورسز کے اضافی دستے گشت پر مامور نظر آئے۔گذشتہ شب سے ہی شہر میں ایک طویل عرصے کے بعداہم چوراہوں اور مصروف بازاروں میں خصوصی ناکے لگاکر گاڑیوں اور راہگیروں کی چیکنگ کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا،اہم شخصیات کی سیکورٹی بھی بڑھادی گئی ہے ۔خفیہ کیمروں کو ہمہ وقت متحرک کردیا ہے۔اس دوران ٹریفک جام سے بچنے کےلئے شہر کے ٹرانسپورٹ نظام میں تبدیلیاں عمل میں لائی گئی ہیں ۔علاقوںمیں چلنے والی والی گاڑیوں کے روٹ بھی تبدیل کئے گئے ہیں۔
دربار کھلا مگر دارالحکومت بند ہڑتال ، چکہ جام اور دن بھر چلنے والی احتجاجی ریلیوں سے شہر میں زندگی درہم برہم وزیر اعلیٰ و پولیس کے دتسوں نے گارڈ آف آنر پیش کیا
![](https://www.dailyudaan.com/wp-content/uploads/2017/11/Congress-Protest-2.jpg)