محمد اصغر بٹ
ڈوڈہ//سائنسی ترقی کے باعث مشینوں کی بھر مار اور کمپیوٹر نے جہاں دیگر دستکاریو ں اور دستکاروں کے فن کو قریب قریب ناپید کر دیا ہے وہیں مسگری (ٹھٹھیاری) کا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ہے۔ لیکن وادی چناب کے مرکزی و تاریخی قصبہ فرید آباد ڈوڈہ کے قدیم صدر بازار میں آج بھی ایک شخص ہمیشہ اپنی دھن میں سر جھکائے اپنی قدیم طرز کی دوکان پر کام کرتا ہوا نظر آ تا ہے۔غلام حسن مسگر نامی یہ شخص نہ صرف خطہ چناب بلکہ صوبہ جموں کے آخری چند کاریگروں میں سے ایک ہے، جو آج بھی اپنے ہاتھوں سے ایسی چیزیں تیار کرتے ہیں جو زمانہ قدیم میں تیار ہوتی تھیں۔ فن کے قدردانوں اور ماہرین کے ہاں ہاتھ سے بنی ہوئی چیزوں کی کافی اہمیت اور افادیت ہے تاہم بقول محمد حسین مسگر، اب ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ فن آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ مسگر کا کہنا ہے کہ اس کے گاہکوں کا دائرہ نہ صرف ڈوڈہ بلکہ اودھمپور ،جموں اور امرتسر تک ہے ۔اِسی طرح وادی کشمیر سے بھی لوگ ان کے پاس آتے ہیں اور مختلف قسم کی شیا بنوا کر لے جاتے ہیں ۔انہیں یہ فن اپنے والد مرحوم غلام رسول مسگر سے ملا جنہیں یہ اپنے آباؤ اَجدداد سے ورثہ میں ملا تھا ۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ایک روایت کے مطابق قصّبہ ڈوڈہ کی وجہ تسمیہ اْن کا ہی ایک بزرگ ہے جس کا نام’’ڈیڈہ‘‘ تھا ۔ڈوڈہ کے کئی بزرگوں کا کہنا ہے کہ اسے ( محمد حسین مسگر) کا بچپن سے ہی اس فن کے تئیں کافی لگاؤ تھا اور وہ ہر روز نت نئے تجربات کرنے میں گہری د لچسپی رکھتا تھا۔اسی مہم جوئی نے اس کو وقت کا منفرد فن کار بنا دیا ۔چند روز قبل مسگر کے ہاتھوں تانبے سے بنا ہوا گنبد جامع مسجد شریف بررونی بھاگواہ میں نصب کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ڈوڈہ ،دیسہ ، کپرن، ویری ناگ سڑک پر ’’ بیرونی بھاگواہ‘‘کی مسجد کا گنبد بھی ان کے ہاتھوں کا شاہکار ہے۔ شائد اِس عظیم فن کار کے ہاتھوں تیار ہوئی یہ آخری نشانی ہو گی کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ محمد حسین مسگر جسمانی طور اب کافی کمزور ہو چکے ہیں ۔ان کی تیار کردہ کئی تخلیقات ایسی ہیں جو صرف ان کا خاصہ تھا ۔ ڈوڈہ کا یہ کاریگر اپنی دست کارانہ صلاحیتوں سے نہ صرف تامبے اور پیتل سے عمدہ ترین برتن، عبادت گاہوں کے مینار اور گنبد پر سجنے والا (برنگ) تیار کرتا ہے بلکہ علاقہ سراج اور ریاست کے دیگر حصّوں میں بالخصوص مختلف مذہبی یاتراؤں اور تہواروں کے مواقع پر استعمال کئے جانے والے آلات سازتْرئی اورنرسنگھ ،مندروں کے ترشول کے علاوہ دیوی دیوتاؤں کے چڑھاوے کے لئے استعمال ہونے والے کٹھ بھی اپنے فنکار ہاتھوں سے تیار کرتا ہے۔ حالانکہ ان کے پسران میں سے ایک اپنے والد کے ساتھ دوکان پر اس فن سے وابستہ ہے لیکن محمد حسین کا کہنا ہے کہ شائد ان کی موت کے ساتھ ہی یہ فن یہاں سے یہ فن ختم ہو جائے ۔
ماضی کی روایات کا علمبردار ڈوڈہ کا کہنہ مشق فن کار محمد حسین مسگر آج بھی قدیم طرز سے تانبے و پیتل سے برتن و دیگر چیزیں بناتا ہے قدر دانوں کا دائرہ ریاست کے علاوہ ہمسایہ ریاست پنجاب تک موجود

Reading Time: 2 minutes