خالدہ بیگم//سرنکوٹ، پونچھ
بنیادی ضروریات جیسے بجلی، پانی، گھر، اناج اور تعلیم ایک ایسی ضرورت ہے جس کو ایک برابرحاصل کرنے کا سبھی کو حق ہے۔ یہ حق ہمارے آئین نے ہمیں فراہم کیا ہے۔ س کی کمی سے زندگی کا ہرشعبہ متاثر ہوتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ خواتین اورلڑکیاں متاثر ہوتی ہیں۔ جس کے بارے میں بہت کم چرچا کی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ معاشرے کو خواتین کو ہونے والی دشواری سے کو ئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے۔بات اگر موسم کی تبدیلی کی ہی کریں تو اس سے بھی خواتین اور لڑکیاں متاثر ہوتی ہیں۔جب جب ہم موسمیاتی تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو ذہن میں ایک ہی نام آتا ہے اور وہ ہے کسان۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ جو مخلوق اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے، وہ خواتین ہیں۔ جس کا ذکر کئے بغیر موسمیاتی تبدیلی پر بحث ادھوری ہے۔ ہر سال موسم گرما میں مون سون کی بارشیں کوہ ہمالیہ سے نمودار ہو کر ہندوستان کے مختلف علاقاجات میں قدرتی طور پر کسانوں کی فصلوں کی سینچائی کا کام کرتی ہیں۔ہزاروں کسان اس موسم کے منتظر ہوتے ہیں۔دراصل برصغیر ہند و پاک میں گرمی کی آمد کے ساتھ ساتھ مون سون کا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے۔جہاں ہندوستان کے دیگر حصوں میں مون سون کی بارشیں مختلف طریقے سے اپنا اثر دکھاتی ہیں وہیں جموں کشمیر میں بھی مون سون کا ایک خاص دور ہوتا ہے۔اس کے شروع ہوتے ہی مختلف شعباجات کے لوگوں خصوصاََ کسانوں کو بارش کا بے صبری سے اپنی فصلوں کی سینچائی کرنے کا انتظار ہوتا ہے تو وہیں اسکی بارشیں متعدد پہلوں سے لوگوں کے لئے پریشانییاں بھی لیکر آتی ہیں۔ مون سون کی بارشیں جہاں شہروں و میدانی علاقوں میں سیلاب کی شکل اختیار کر لیتی ہیں وہیں دیہی علاقاجات میں سکونت اختیار کرنے والے ہر شعبہ کے انسان پربرے طریقے سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ بالخصوص دیہی علاقاجات میں رہاہش پزیر خواتین مون سون کے دوران بہت سارے مسائب کا شکار ہوتی ہیں۔
دراصل ضلع پونچھ میں کاروباری نظام نہ ہونے کی وجہ سے دیہی علاقوں کے مرد حضرات محنت مزدوری کی خاطر ضلع پونچھ سے منتقل ہوکر بیرون ریاست چلے جاتے ہیں اور خواتین کے سر پر گھر کا پورا بھوج ہوتا ہے۔ جوں ہی مون سون کی بارشین شروع ہوتی ہیں تو ان خواتین کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ضلع پونچھ کے علاقہ لون سے تعلق رکھنے والی فریدہ اختر عمر 32 پیشہ خانہ داری کہتی ہیں کہ”میرے تین بچے ہیں۔ ان کا پیٹ پالنے کے لئے میرا شوہر ہر سال موسم گرما میں مزدوری کی خاطر ہماچل جاتا ہے اور میں گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ اکیلی ہوتی ہوں۔ ہمارا گھر سڑک سے کوسوں دور ہے اور مجھے گھر کے تمام کام خود ہی سرانجام دینے پڑتے ہیں۔ شوہر کی عدم موجودگی میں میرے کاندھوں پر دوہری ذمہ داری آجاتی ہے۔ بچوں کی دیکھ بال، انکی کفالت، فصلوں کی دیکھ بال کی بھی ذمہ داری میرے سر آجاتی ہے۔ جب مون سون کی بارشین شروع ہوجاتی ہیں تو مجھے اپنے اکیلے پن کا احساس ہونے لگتا ہے۔ میں اگر کتنی بھی بہادر ہوں لیکن تب بھی مجھے اپنے اس کچے مکان کے گر جانے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ وہیں دن میں بچوں کی فکر ستاتی رہتی ہے کہ اسکول سے آتے وقت کہیں میرے بچے بارش یا کسی نالے کی زد میں نہ آجائیں۔ تحصیل منڈی کے علاقہ ناگاناڑی کی رہائشی آسیہ فردوس کہتی ہیں کہ”میں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم اپنے گاؤں کے ایک نزدیکی اسکول میں حاصل کی ہے۔میرا شوق تھا کہ میں تعلیمی میدان میں سبقت حاصل کر کے اعلی تعلیمی میدان میں بازی ماروں۔لیکن سڑک کی عدم دستیابی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے میرا یہ شوق مجھ سے چھین لیا ہے۔کیونکہ میرا گاؤں پہاڑی کی اوپری سطح پر آباد ہے۔ مون سون کی بارشیں عین موسم گرما میں شروع ہوتی ہیں اور اسی دوران جنگلی جانور بھی ہمارے گاؤں کا رخ کر لیتے ہیں تو راستے پر چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ میرے والدین نے مجھے اسی لئے اعلی تعلیم کے لئے گھر سے دور نہیں بھیجا۔ میرے گھر سے ہائیر اسکینڈری اسکول پانچ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے جہاں ہر روز پہنچنا میرے اختیار میں نہ تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہمیں خاص کر خواتین اور لڑکیوں کا بہت نقصان ہوتا ہے لیکن کسی کو ہماری پرواہ نہیں ہوتی ہے۔ نہ ہی معاشرہ اور نہ ہی میڈیا کو اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ اس حالت میں خواتین کس طرح زندگی بسر کر رہی ہونگی؟ لڑکیاں کیسے اسکول جاتی ہونگی؟سب کو فکر ہے لیکن ملک کی آدھی آبادی کس طرح زندگی گزار رہی ہے اس بات کی کسی کو فکر نہیں ہوتی ہے۔لڑکیوں کا عالمی دن صرف ایک تقریب بن کر رہ جاتا ہے۔
تحصیل سرنکوٹ کے گاؤں ہاڑی کی ایک رہائشی پروین (نام تبدیل) کہتی ہیں کہ ”دو سال قبل میں درد زہ کی حالت میں تھی اور گھر سے ہسپتا ل کی جانب پیدل سفر شروع کیا تو اسی دوران شدید بارش شروع ہوگئی۔ بارش کی دوران ہی دو اشخاص نے مجھے چار پائی پر اٹھا کر ہسپتال سرنکوٹ کی جانب سفر شروع کیا۔ راستے میں شدید بارش شروع ہوگئی اور میری طبیعت بھی بہت خراب ہوگئی۔میں سڑک تک جب پہنچی تو مجھے تکلیف زیادہ ہوگی اور گاڑی کا انتظار کرنے کے بعد بالآخر گاڑی آئی اور مجھے ہسپتال تک پہنچایا گیا۔ جب میں نے بچے کو جنم دیا تو میرا بچہ زندہ نہ تھا۔ اگر اس علاقہ میں سڑک کا کوئی نظام ہوتا تو شائد میں وقت پر ہسپتال تک پہنچ گئی ہوتی اور میرا بچہ بھی شائد آج زندہ ہوتا۔ اس تعلق سے علاقہ سرنکوٹ سے تعلق رکھنے والی ایک ماہر خاتون سے جب بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ”شہر پونچھ کے دیہی علاقاجات میں رہنے والی خواتین کو مختلف اوقات میں متعدد مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ انکے لئے بچوں کی پیدائیش سے لیکر دیگر گھریلو کام تک کا سفر بہت مشکل ہوتا ہے۔ دیہی علاقاجات میں سڑکوں کا معقول نظام نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی خواتین کو کئی بار موت کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ وہیں خوراک کی تبدیلی کی وجہ سے بھی ان خواتین کو متعدد مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔“ موسم کے کروٹ بدلنے کے ساتھ ہی ضلع پونچھ کے دیہی علاقاجات میں رہائش پزیر خواتین متعدد مشکلات کا شکار ہوجاتی ہیں۔ سڑکوں کی ناقص صورت حال، شعبہ صحت کا کو معقول نظام نہ ہونا، اور اعلی تعلیمی اداروں کا ان علاقوں میں تعمیر نہ کیا جانا یہاں کی خواتین کے لئے مشکلات کا باع ث ہیں۔ کیونکہ اگر تمام تر بنیادی سہولیات ان علاقوں میں وافر مقدار میں فراہم کی جائیں تو یہاں کی خواتین پر یہ مشکلات اثر انداز نہ ہوں۔ مقامی خواتین نے اس بات پر زور دیاکہ دیہی علاقاجات میں سڑکوں کی ناقص صورت حال کو اگر ضلع انتظامیہ درست کرے تو ممکن ہیکہ بقیہ تمام سہولیات بھی ان دیہی علاقاجات میں پہنچ سکیں۔ جس سے خواتین کی زندگی بہتر بن سکے اور لڑکیاں بھی اپنی تعلیم مکمل کر سکیں۔