موت سے فرار ممکن نہیں

شہباز رشید بہورو

انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کی فطرت میں زندہ رہنے کی خواہش ہردم جواں رہتی ہے ۔اس کے اندر زندہ رہنے کی تمنا کبھی بھی مدھم نہیں پڑتی ہر لحظہ اسے مستقبل کا نظارہ عزائم اور حوصلے بلند رکھنے کی تحریک فراہم کرتا ہے ۔وہ ہمیشہ اس دنیا سے جدائی کا تصور کرنے سے گریز کرتا ہے اور پھر کبھی اگر بادل ناخواستہ اسے ایسا ماحول بھی ملتا ہے جہاں موت کا تذکرہ ہو رہا ہو وہ مضوع کا رخ تک بدلنے کی کوشش کرتا ہے ۔زندگی کی آخری سانس تک اسے زندہ رہنے کی خواہش رہتی ہے ۔وہ ساری پلاننگ ،ساری کاوشیں اور اپنی ہر صلاحیت زندگی کی بقا کے لئےاستعمال  کرتا ہے ۔اس  کی ہر تمنا ،خواہش اور منشا زندگی سے منسلک رہتی ہے ۔وہ اپنے پورے عرصہ حیات میں زندگی سے وفا نبھانے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی بھی اسے تکلیف نہیں پہنچنے دیتا ہے۔غرضیکہ ہر انسان کو اپنی زندگی پیاری ہے اور وہ اسے ہمیشہ ہمیشہ بسر کرنے کی خواہش رکھتا ہے ۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانی خواہش ،تمنا ،منشا اور چاہت ایک ذاتِ اعلی ٰ کی منشا کے سامنے بے بس ومجبور ہے ۔اس لئے وہ لوگ بھی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جن کے اشارے پر ان کی مملکت میں ہلچل مچتی تھی،جن کی حرکت سے لاکھوں لوگ جام میں پھنس جاتے تھے ،جن کی ایک ایک ادا پر ہزاروں لوگ پاگلوں کی طرح فدا ہوتے تھے اور جن کے ایک حکم سے لاکھوں انسان قتل ہوجاتے تھے ۔لیکن جناب ِ موت نے ان سب کو خاک میں ملا دی ,ان کی ذات کو فنا کر دیا اور ان کے وجود کو ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے گم کردیا۔

انسان دنیاداری موت سے بچنے کے لئے برتتا ہے ۔وہ اپنے ہر فعل کے ذریعے خوشحالی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے کی کوتاہ بینی اور عقلِ ناقص میں خوشحالی ہی اسے لقمہ اجل بننے سے بچا سکتی ہے ۔اسی لئے آپ دیکھتے ہیں بے شمار لوگ حلال اور حرام کی تمیز کئے بغیر دولت کے حصول میں منہمک ہیں ۔جسم میں کمزوری ،آنکھوں کی بینائی مدھم اور اعصاب کی کمزوری کے باوجود انہیں دھن اور دولت کا نشا سوار ہوتا ہے ۔کبھی بھی موت کی فکر نہیں کرتے بلکہ غفلت میں ڈوبے رہتے ہیں یہاں تک کہ اقترب الناسِ حسابھم وھم فی غفلۃ معرضون ان کی آنکھیں کھول دے لیکن اس وقت کوئی چیز اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ اسے پیسوں میں اپنی دائمی زندگی دکھتی ہے پھر اس سے ایک قدم اور آگے جاکر اسے اقتدار میں اپنا دوام نطر آتا ہے اس لئے وہ اقتدار کے حصول کے لئے جمع کی ہوئی دولت کا منھ کھول دیتا ہے  اور جب اسے اقتدار حاصل ہوتا ہے اب اسے ظلم کرنے میں دوام محسوس ہوتا ہے اس لئے وہ ہر اس انسان کو یا انسانی گروہ کو قتل یا قید کرواتا ہے جس کا اسے خطرہ  محسوس ہوتا ہے یعنی وہ اپنی موت کو لوگوں میں تلاش کرتا ہے کہ فلاں فلاں میری موت کا باعث بن سکتے ہیں اس لئے انہیں راستے سے ہٹانا چاہئے۔غرضیکہ انسان موت سے بچنے کے لئے کوئی بھی کسر باقی نہیں رکھتا لیکن  موت کے سامنے انسان کی ہر تدبیر مکمل طور پر ناکام ہوتی ہے اور اس موقع پر قرآن کے یہ الفاظ یاد آتے ہیں اینماتکونو یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدہ ۔انسان کو ہر معاملے میں اپنے مسائل کا نجاتِ دہندہ پیسہ اور اقتدار نظر آتا ہے اس لئے وہ ان کے حصول کے لئے مذہب ،اخلاق اور آخرت کو بلائے طاق رکھ کر و تذرون الاخرۃ کی عملی تصویر پیش کرتا ہے۔

ایک بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ کہ انسان کے اختیار میں خواہش اور تمنا خدا نے رکھ دی ہے لیکن ان کا بالفعل ممکن ہونا اپنا لئے مختص کردیا ہے اور ہاں انسان کو کوشش جاری رکھنے کا حق بھی دے رکھا ہے ۔اس لئے اپنی زندگی اور دنیا کا چلن انسان کی منشا کے تحت نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ اللہ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے ۔