جہیز کی بدعت و ہمارا سماج

اس وقت سماج سماجی برائیوںسے بھرا ہوا ہے ۔جن کو دور کرنا سماج کے ذی شعور معززین و علماء کا کام ہے ۔جبکہ فرد واحد کو بھی اس پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔لیکن انسان سب کچھ جانتے ہوئے اور علماء کے بتائے ہوئے سبق آموز خطبات کے باوجود سماجی برائیوںکی فکر کرنے کی بجائے ان کا ارتکاب کرتا ہے جس کا اثر پورے سماج پر پڑتا ہے ،اس وقت سماج میںجہیز کی بدعت ایک ایسی بیماری بن کر سامنے آگئی ہے جس سے ہزاروںبہنیںو بیٹیاںشکار ہو کر رشتہ ازدواج سے محروم ہو رہی ہیں،۔بارہا دیکھا گیا ہے کہ صاحب ثروت اصحاب شادی بیاہ وہ بیٹے کا ہو یا بیٹی کا اس قدر بھاری رقوم صرف کرتے ہیںجیسے پیسہ پیڑ پر اگتا ہو ،لاکھوںروپیہ طعام پر صرف کیا جا تا ہے ۔کئی کئی دن دعوتوںکا اہتمام کیا جا تا ہے ۔ہر ایک کی کوشش رہتی ہے کہ وہ سماج پر اپ نا رعب ڈالنے کے لئے بھاری زر صرف کرتا ہے ۔جبکہ جہیز لینے یا دینے میںکئی لاکھ صرف کرتے ہیں۔جس کا منفی اثر سماج پر پڑتا ہے جس سے غریب و اوسط درجہ کی زندگی گذارنے والوںکو بیٹیوںکی شادی کرنے کی ہمت نہیںہو تی ،وہ اتنی بھاری رقوم لائے کہاںسے ،بعض اوقات اس کو اپنوںسے قرض لینا پڑتا ہے ،یا بینک سے لون لینے پر مجبور ہو نا پڑتا ہے ،مگر یہ بھی سب کے بس کی بات نہیںہے ۔جہیز لینا اور دینا جرم ہے مگر سماج میںیہ جرم عام ہے ،حالانکہ جموںوکشمیر سرکار نے شادی بیاہ کے لئے قانون وضع کیا ہوا ہے لیکن قانون پر عمل کروانے والے اور جن کیلئے قانون بنایا گیا ہے دونوںاس کی پرواہ نہیںکرتے ،جس سے جہیز اس سماج کے لئے ایک ناسور کی شکل اختیا رکر گیا ہے ۔جس سے سماج کی اکثر پڑھی لکھی و اعلی تعلیم یافتہ بچیاںو لڑکے شادی سے محروم ہیں۔جن کی وجہ سے جہاںبچے خود ذہنی و جسمانی پریشانی کا شکار ہو رہے ہیںوہیںوالدین بھی پریشان حال ہیںلیکن ان کے پاس کوئی راہ نہیں۔جس سے یہ بچے غلط ہاتھوںمیںپڑ جاتے ہیں،مگر بڑے بڑے عالموںو اعلی تعلیم یافتہ حضرات بھی جہیز لینے یا دینے یا بلا ضرورت اصراف کرنے میںپیچھے نہیںرہتے تو سماج کا پچھڑٖا یا غریب طبقہ کیا کرے ۔یہاںیہ بات قابل ذکر ہے کہ کشمیر میںاب ایسی رضاکارا تنظیمیںسامنے آئی ہیںجو سماج کے غریب بچیوںکی اجتماعی شادی کرانے میںپیش پیش رہتے ہیں جو ان شادیوںمیں خود بہت ضروری سامان بھی لڑکیوںکو دیتے ہیں،یقینا ایسی تنظیموںکی سراہنا کی جانی چاہئے جو سماج کے غریب و نادار لڑکیوںکی شادی بیاہ کا انتظام کرتے ہیں۔،لیکن سماج کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری دینی تعلیم ہمیںکیا سبق دہتی ہے لیکن عملی زندگی میںہم دین سے کتنے دور چلے گئے ہیں،کیا ہمارا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے مگرخود کو مسلمان کہلانے میںفخر محسوس کرنے کے باوجود جہیز لینے و دینے کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں،اس لیئے ہم سبھی کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے اس فعل سے سماج پر اس کا کتنا بڑا اثر پڑ رہا ہے ،اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔