سرکردہ علمی وادبی شخصیت نثار راہی کا82سال کی عمر میں انتقال!

آبائی گاوں دوداسن بالا میں پُرنم آنکھوں سے سپرد ِ لحد،تجہیز وتدفین میں ہزاروں لوگوں کی شرکت

الطاف حسین جنجوعہ
جموں//پہاڑی اور اُردو زبان کے معروف شاعر وادیب، محقق، نقاد، مورخ، مترجم اور خطہ پیر پنجال کی سرکردہ علمی وادبی شخصیت نثار راہیدار الفناءسے دارالبقاءکی طرف رُخصت ہوگئے۔ اُن کی عمر82سال تھی۔ ضلع راجوری کی تحصیل تھنہ منڈی کے آبائی گاوں دواسن بالاءمیں 19فروری کی شام11:30بجے اچانک دل کا دورہ پڑا، فوراً گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ اسپتال راجوری لایاگیا تاہم وہ راستہ میں ہی دم توڑ گئے تھے۔اُن کی نماز جنازہ 20فروری کو بعد دوپہر د بجے آبائی گاو¿ں ددداسن بالاءمیں ہی ادا کی گئی ۔ اُن کے آخری سفر میں زندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والے سرکردہ سیاسی، سماجی، ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ اضلاع پونچھ اور راجوری کے علاوہ صوبہ جموں کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کی شرکت کی اور پُرنم آنکھوں سے سپرد ِ لحد کیاگیا۔ اُن کے پسماندگان میں اہلیہ، چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جن میں ایس ایس پی ممتازاحمد ، ڈپٹی سیکریٹری آفاق احمد(KAS)، ایڈووکیٹ شہزاد احمد، شفیق احمد (فزیکل ٹیچر)، شوکت احمد ٹیچرشامل ہیں۔ سب سے چھوٹا فرزند اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد نجی کاروبار کرتے ہیں۔ بڑی بیٹی محکمہ کوآپریٹو سے بطور منیجر سبکدوش ہوچکی ہے ، ایک بیٹی محکمہ صحت اور دوسری محکمہ اسکول تعلیم میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

بچپن
سبز جزیرے میں نثار راہی خود رقم طراز ہیں کہ والدین کے مطابق اُن کی یوم ُپیدائش ۳ بھادوں ۷۹۹۱ءبکرمی بمطابق عیسوی تقویم 18-08-1940 ہے جبکہ کاغذی ریکارڈ میں 4مارچ1941اُن کاجنم دن ہے۔ بچپن دادی کی گود میںگذرا ‘ جن کا آبائی تعلق درہال تھنہ منگ کے شیخ خاندان سے تھا اور وہ رمضانی شیخ کی دختر ور اکبر شیخ کی بہن تھی۔ اُن کے والد فارسی‘عربی اور اُردو جانتے تھے۔ والد صاحب تہجد گزار اور پابند صوم و صلوٰة تھے۔فقہ ترتیب’باراک اللہ ‘ کا زیادہ حصہ انہیں زبانی یاد تھا۔ مسئلے مسائل سے بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔ قُرآ نی آیات کے ترجمہ کو مجلسوں میں بیان کرتے تھے۔سال 1976ءکے دسمبر ماہ کی پندرہ تاریخ کو اُن کے والد صاحب طویل علالت کے بعد اس دنیا سے چل بسے۔
تعلیم وتربیت

1947کو تقسیم ہند وپاک کے وقت اُن کا داخلہ پہلی جماعت میں ہوا تھا لیکن شورش کی وجہ سے پڑھائی متاثر ہوئی۔ سانحہ برصغر ِ ہنداور شورش کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑی اور چھ سال کا عرصہ اُجڑے ہوئے آشیانے کو دوبارہ سے بسانے میں لگ گیا۔بعد ازاں ابتدائی تعلیم مڈل اسکول درہال سے کی۔نویں دسویں کی تعلیم ہائی سکول راجوری سے ہوئی۔ 1957میں دسویں کا امتحان پاس کیا۔ اُس وقت دسویں کا امتحانی مرکز پونچھ تھا اور اُن کے ساتھ امتحان دینے والوں میں سابقہ لیجسلیچر سرنکوٹ چوہدری محمد اسلم بھی شامل تھے۔ والد چاہتے تھے کہ وہ ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کریں لیکن کچھ مسائل کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔ اُن کے دوسرے بھائی نامساعد حالات کے دوران پاکستان چلے گئے تھے اور یہاں وہ صرف اکیلے تھے ، اس لئے والدین اُنہیں اپنے سے دور کہیں جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ اس لئے کالج میں ریگولر تعلیم حاصل کرنے کی حسرت دل میں رہ گئی۔
ملازمت
سال1958کو بغیر کسی امتحان یا درخواست دیئے خود گھر ہی سرکاری ٹیچر اور محکمہ جنگلات میں حکومت کی طرف سے فارسٹرکے آرڈر پہنچے ۔ فارسٹر کے لئے جموں جانا تھا لیکن انہوں نے والد کے اصرار پرٹیچر کی نوکری جوائن کی۔۔ نوکری کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔1995میں گریجویشن حاصل کی ۔ میدان صحافت میں زیادہ دلچسپی تھی، اس لئے انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایل ایل بی کرنے کے لئے رُخ کیا لیکن وہاں پہنچنے تک داخلے کا سلسلہ بند ہوچکا تھا۔ پھر بعدازاں 1970میں انگریزی لٹریچر میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ اس دوران مواد مطالعہ کے لئے دہلی اور علی گڑھ تک کی خاک بھی چھاننی پڑی۔ انگلش لٹریچر میں پی جی کرنے کے بعد اُنہیں وسطی ایشیاءبحرین میں انگریزی ٹیچر کا آفر آیا۔ پانچ سال کا کنٹریکٹ تھا، اچھی خاصی اُجرت بھی تھی ۔ نثار راہی نے سوچا کہ پانچ سال وہ وہاں جائیں تاکہ اقتصادی خوشحالی ہوجائے لیکن والدین نے اس لئے نہیں ماناکہ وہ زندگی کے آخری پڑاو¿ پر ہیں، اسوقت اُنہیں اُس کا پاس ہونا زیادہ ضروری ہے۔ اس لئے اِس پیشکش کو ٹھکرانا پڑا۔1977 سے لے کر 1981 تک میں بحیثیت سنیئر ماسٹر انگلش کے طور پر رہا ۔سنیئرماسٹر بعد میں لیکچررمیں متبدل ہو گیا۔ 1981 سے 1984 تک بحیثیت پروجیکٹ افسرنان فارمل ایجوکیشن راجوری تعیناتی رہی اور یہ پوسٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر کے ساتھ ہی منسلک تھی۔ اُنہیں کچھ دیر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کا چارج بھی دیاگیا۔31 مارچ 1999 کو بحیثیت پرنسپل گرلز ہائرسکینڈری اسکول راجوری سے 41سالہ ملازمت کے بعد سبکدوش ہوئے ۔
صحافتی سفر

نثار راہی کو شروع سے صحافت میں بہت گہرا لگاو¿ تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے ہفتہ وار اُردو اخبار ’دستور‘نکالنا شروع کیا جس کی باقاعدہ رجسٹریشن بھی کروائی۔سال2001کو اِس کا پہلا شمارہ نکالا۔ اُس وقت چونکہ کمپیوٹر کا اِتنا زیادہ دور نہیں تھا ، اس لئے اُنہیں ہفتے میں چار دن اخبار کی اشاعت وطباعت کے سلسلہ میں جموں آنے جانے میں لگتے تھے۔ اس وجہ سے اُن کے تخلیقی کام پر بہت اثر پڑنے لگا، نیز اُس وقت کے نامساعد حالات میں کچھ لوگوں نے جانبداری کا مظاہرہ کرنے اور خوشنودی حاصل کرنے کو کہا لیکن ضمیر نے اُنہیں ایسا کرنے کی اجازت نہ دی۔ مجبوراًاخبارنکالنے کا سلسلہ بند کر دیا اور اِس پادداش میں گھر بھی چھوڑنا پڑا ۔ چا ر سال تک راجوری ضلع صدر مقام پر قیام کیا۔حالات بہتر ہونے کے بعد پھر گھر واپسی کی اور تخلیقی سفر کو مزید آگے بڑھایا۔
ادبی سفر
نثار راہی نے اُردو زبان میں شاعری اور نثری تخلیقات کا آغاز کیا بعد ازاں کلچرل اکیڈمی میں شعبہ پہاڑی قائم ہونے کے بعد پہاڑی میں لکھنا شروع کیا اور مسلسل ہر شیرازے میں اُن کے تخلیقی مقالات، مضامین اور شاعری شائع ہونے لگی۔ اُردو میں اُن کی دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں سبز جزیرے (سفرنامہ و آپ بیتی) ، حرف ِ تمنا(شعری مجموعہ)جبکہ جرس (انشائیے)اشاعت کے مرحلہ میں ہے۔پہاڑی میں اُن کا افسانوی مجموعہ(تُہند)، پرکھ پرچول( تحقیقی تہ تنقیدی مضامین)،شعری مجموعہ ورق ورق، سجری سوچ( تحقیقی تہ تنقیدی مضامین)شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اُلنے دینہہ( افسانوی مجموعہ)زیر طباعت ہے۔ انہوں نے دو انگریزی کتابوں کا بھی پہاڑی میں ترجمہ کیا ہے جن میں کشمیر اِن سن ‘لائٹ اینڈ شیڈس اور ڈاکٹر عبدلکلام آزاد کی انگریزی کتاب اِگنائٹڈ مائنڈس کا ترجمہ شامل ہے۔’سبز جزیرے‘ میں نثار راہی کے تین اہم سفر شامل ہیں۔ اِن میں ان کا پہلا سفر ’سفرِ محمود‘ ،دوسرا سفر’شمال سے جنوب تک‘اور تیسرا سفر’گوا کا سفر‘ شامل ہیں۔ ’شمال سے جنوب تک‘ اِن کا ایک تحقیقی اور ثقافتی سفر ہے جو انہوں نے آل انڈیا مُسلم تھنک ٹینک ایسوسیشن ‘بنگلور مرکز کے ایک وفد کی راجوری ہمالین ایجوکیش مِشن میںآمد اوراُس وفد کے یہاں قیام کے دوران یہاں کے جغرافیائی حالات ‘ مُسلم سماج کی زبوں حالی‘تعلیمی ‘اقتصادی اور صحت عامہ کے حالات کو جاننے کے بعد مسلم تھنک ٹینک ایسویشن مرکز‘بنگلور کی دعوت پر فاروق مضطر ‘روح ِ رواں ہمالین ایجوکیشن مِشن ، سید اعظم شاہ،طالب ملک اور رشید قمر درہالوی کے ہمراہ کیا تھا۔

اعزازات
1995میں حکومت ِ جموں وکشمیر نے اُنہیں بیسٹ ٹیچر ایوارڈ سے نوازا۔ 2016کو جموں وکشمیر کلچرل اکیڈمی نے اُن کے پہاڑی افسانوی مجموعہ (تُہند)کوسال 2013کی بہترین کتاب کا ایوارڈ دیا۔ جموں وکشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لانگویجز کی طرف سے اُن کی اعزاز پوشی بھی کی گئی۔ رواں برس 26جنوری کے موقع پر پہاڑی زبان وادب میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیئے جانے پر اُنہیں حکومت ِ جموں وکشمیر نے اسٹیٹ ایوارڈ کے لئے بھی چنا لیکن افسوس کہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے سے قبل ہی وہ اِس دُنیا سے رحلت فرماگئے۔

سیاسی سرگرمیاں
1970 میں ضلع راجوری کی ٹیچرس ایسوسی ایشن کا مجھے صدر منتخب کیا گیا اس طرح ایک کامیاب جدوجہد کا سرا ہمارے ہاتھ لگا۔ اسی طرح 1978 پلس ٹو فورم کا مجھے جنرل سیکریٹری جبکہ راجہ رام شرما صاحب کو صدر منتخب کیا گیااسی دوران میں سنئیر ماسٹرسے لیکچرار اکا Nomenclature بدلایا گیا۔اس ضمن میں جناب مرحوم شیر کشمیر سے ملاقات کا سلسلہ رہا۔ اور پلس ٹو کے اساتذہ کی تنخواہوں و دیگر کنفرمیشن کے معاملات حل کیے جانے پر زور دیا گیا۔1974 میں ایک ہڑتال کی گئی۔ جس میں تلک راج سوری مرحوم (سندربنی والے) اور دھیان سنگہ بٹہیرا والے معہ دیگر ساتھیوں کے گرفتار کئے گئے۔اُن کی رہائی کے لئے جدوجہد کرنی پڑی۔ 1980میں راجوری میں دو روزہ ”پہاڑی کانفرنس“ جس میں نذیر مسعودی کو فورم صدر اور نثار راہی کو جنرل سیکریٹری بنایا گیا ۔اکتوبر2005 کو ایک روزہ ” پہاڑی“ کانفرنس اوڑی میں دوبارہ اُنہیں جنرل سیکریٹری چن لیا گیا۔1987کو وقف کونسل کا انتخاب کیا گیا جس میں اُنہیں تحصیل کمیٹی تھنہ منڈی میں کا ممبر چن لیاگیا۔ جولائی 2012میں آل انڈیا مسلم تھنک ٹینک ایسو سی ایشن کی جموں و کشمیر شاخ کا مجھے صدر نامزد کیا گیا۔امن کے حوالے درجنوں کانفرنسوں میں سرینگر، جموں ، نئی دہلی اور کراچی کانفرنس مین مارچ 2005 شرکت کر کے امن پسندانہ نقطہِ نظر کو پیش کرنے کا موقع بھی ملا۔مہذب لہجہ، متانت و سنجیدگی، خیالات کی پاکیزگی اور نرم و شیریں لب و لہجہ کے لیے نثار راہی کو برسوں یاد رکھا جائے گا۔

میرے لئے یہ ذاتی صدمہ:ظفر منہاس
سرینگر//جموں وکشمیر کلچرل اکیڈمی کے سابقہ سیکریٹری ، سابقہ لیجسلیچر اور اپنی پارٹی کے موجودہ نائب صدر ظفر اقبال منہاس نے نثار راہیکی وفات پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔ تعزیتی پیغام میں انہوں نے کہاکہ”میں سرکردہ قلمکار، محقق، استاد اور سماجی کارکن نثار راہی صاحب کی وفات پر ہوئے دُکھ کا اظہار کرنے سے قاصر ہوں ۔ میرے لئے یہ ذاتی نقصان ہے۔ اُن کی وفات کی وجہ سے 40سالہ وابستگی اور تعلقات کا خاتمہ ہوا۔ چند روز قبل ہی اُن سے بات ہوئی تھی، جنہوںنے مجھے بار بار راجوری آنے کا اصرار کیا ۔ جب میں نے اُن کو یقین دلایا ہے میں ضرور آو¿ں گا تو انہوں نے جواب میں کہا”بھائی کل کس نے دیکھا ہے، آو¿ کچھ یادیں تازہ کرتے ہیں“۔ ظفر اقبال منہاس نے تعزیتی پیغام میں مزید لکھا ہے کہ ”کل ہی یعنی انتقال سے 12گھنٹے قبل، انہوں نے میرے برادر ِ اصغر وحید منہاس کو فون کیا اور معلوم کیاکہ کیا اُس نے مکان مکمل کرلیا ہے اور پوچھاکہ ” کیامیرا کمرہ تیار ہے ، جونہی مغل شاہراہ کھلے گی تو میں کئی دنوں تک اُن کے پاس آکر قیام کریں گے۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ موت کا کوئی کلینڈر نہیں ہوتا“۔ انہوں نے افراد خانہ، دوست واحباب، اُن کے طلبا اور پہاڑی زبان وادب کے ہزاروں محبان سے دلی تعزیت کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ زبان وادب کے میدان میں اُن کو خدمات کو ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔ اللہ پار مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔

پہاڑی زبان میں مرحو م
کی خدمات ناقابل ِ فراموش:عبدالحق خان
سرینگر//سابقہ کابینہ وزیر اور سنیئر پہاڑی لیڈر عبدالحق خان نے نثار راہی کی وفات کو عظیم نقصان قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ شریف النفس ، ملنسار، خوش اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ علم ادب کے سمندر تھے جنہوں نے پہاڑی زبان وادب کی چار دہائیوں کے زائد عرصہ سے اپنی قلم سے خدمت کی اور ادبی سرمائے میں اہم حصہ ڈالا۔ انہوں نے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ وہ نثار راہی کی وفات سے اُنہیں بہت دکھ پہنچا۔ وہ غمزدہ کنبے کے ساتھ دُکھ کی اِس گھڑی میں برابر کے شریک ہیں ۔

ناقابل ِ تلافی نقصان:الطاف بخاری
سرینگر//اپنی پارٹی صدر سید محمد الطاف بخاری نے خطہ پیر پنجال کی معروف علمی وادبی شخصیت نثار راہی کی وفات پر گہرے دُکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔ معروف ادیب، محقق، نقاد ، مورخ اور ماہر ِ تعلیم نثار راہی کل شام دیر گئے آبائی گاو¿ں دوداسن بالا ضلع راجوری میں حرکت قلب بند ہونے سے رحلت فرماگئے تھے۔ وہ ایس ایس پی ممتاز اور کے اے ایس افسر آفاق کے والد تھے۔ تعزیتی پیغام میں الطاف بخاری نے کہاکہ ”مجھے نثار راہی صاحب کی وفات کی خبر سن کر بہت دکھ ہوا۔، وہ ضلع راجوری کی قدر آور شخصیت تھے۔ وہ شاعر، مصنف اور ٹیچر تھے ، اُن کی وفات سے جوخلاءپیدا ہوئی ہے، کو پُر کرنا مشکل ہے، اللہ پاک اُنہیں جوار ِ رحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔ میں دُکھ کی اس گھڑی میں غمزدہ کنبہ کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ غمزدگان کو یہ ناقابل ِ تلافی نقصان بردداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔

لواحقین کے غم میں شریک ہوں:غلام نبی آزاد
جموں//ڈیموکریٹک آزاد پارٹی صدر اور سابقہ وزیر اعلیٰ جموں وکشمیر غلام نبی آزاد نے نثار راہی کی وفات پر دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔ تعزیتی پیغام میں انہوں نے کہاکہ نثار راہی کی وفات کی خبر سُن کر اُنہیں بہت دکھ ہوا۔ مرحوم نیک سیرت، باکرداراور دانشور تھے۔ سیاسی معاملات پر بھی باریک بینی سے نظر رکھتے تھے۔ تحقیق میں اُن کا تخلیقی کام قابل ستائش ہے۔ انہوں نے کہاکہ دُکھ کی اِس گھڑی میں غمزدہ کنبہ کے ساتھ برابر کا شریک ہوں اور اللہ سے دُعا گو ہوں کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت ہو۔

خطہ پیر پنجا ل سرکردہ علمی شخصیت سے محروم :اقبال کاظمی
جموں//خطہ پیر پنجال کی معروف سماجی شخصیت اور اُڑان گروپ آف پبلی کیشن کے سرپرست اقبال کاظمی نے پہاڑی اور اُردو زبان کے نامور ادیب، شاعر، محقق، نقاد، مورخ ، مترجم اور ماہر تعلیم نثار حسین راہی صاحب کی وفات پر گہرے دُکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔ یہاں جاری تعزیتی پیغام میں اقبال کاظمی نے کہا”طلو ع آفتاب کے وقت نثار راہی صاحب کے سانحہ ارتحال کی خبرمیرے لئے ایک بہت بڑا دھچکا تھا، نثار راہی صاحب میں عاجزی، انکساری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ پہاڑی زبان وادب کی ترقی وترویج میں جس محنت ولگن سے انہوں نے کام کر کے تحقیق وتنقید کے شعبہ میں بہترین ادبی سرمایہ فراہم کیا، وہ ایک عظیم سرمایہ ہے۔ انہوں نے ہاکہ خطہ پیر پنجال عظیم علمی شخصیت سے محروم ہوگیا۔انہوں نے ایس ایس پی ممتاز احمد، ڈپٹی سیکریٹری آفاق احمد سمیت دیگر سبھی سوگواران ِ کنبہ سے دلی ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی جنت نشینی کے لئے دُعا کی ہے۔