نوجوانی کچھ کرنے کا نام ہے

شہباز رشید
بلندیوں کے خواب دیکھنا اور ان پر چڑھنے اور ٹھہرنے کی تدبیر کرنا ایک کارِآسان ہے لیکن بلندیوں پر چڑھنے اور ٹھہرنے کی مشقت کو برداشت کرنا یقیناً ہمت و جراءت کا متقاضی ہے ۔ خوابوں اور خیالوں میں کامیابی کے مناظر دیکھنا تو ہر ایک کے بس میں ہے لیکن کامیابی کو حاصل کرناہر ایک کے لئے ممکن نہیں ۔تمنا اور چاہت ہر انسان کا مہمان بن سکتے ہیں لیکن ہر ایک کو ان کی میزبانی مقدر میں نہیں ۔ایک انسان کی اولولعزمی و جواں مردی اس نوعیت کی ہونی چاہئے کہ منزلیں اس راہی کےقدموں کو باعث فخر محسوس کریں،میدان و شعبہ جات ان کے نام سے اپنا تعارف پیش کریں اور عالم انسانیت ان کے وجود پر رشک کرے۔
ملت مرحوم کا نوجوان طبقہ جمود کی راہوں پر گامزن ،سستی و نااہلی کے پیالے تھامے ہوئے اپنی خوابوں کی دنیا کو حقیقت میں تبدیل کرنے کاخواہاں تو ضرور ہےلیکن اپنے آپ کو بری عادات و اطوار ،برے افعال و اعمال ،منشیات و مسکرات کے چنگل سے آزاد کرنے کے لئے تیار نہیں ۔زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنے کے بدلے منشیات کے زہریلے دانےاور خمر کے جان لیوا گھونٹ سےاپنے آپ کو حال سے بے حال کرنے کے درپےہیں ۔لاتبقی ولا تذر والی بری جگہ کو بھولے ہوئے ،فیھا شمس ولا زمھریرا پر مشکوک اور ضعفِ ایمانی کا مجسم بنے ہوئے دنیا کے پیچھے ایسے سرگرداں ہیں کہ جیسے یہاں سے کبھی جانا نہیں ۔اس دنیا سے وصال ہرلحظہ ممکن ہے لیکن یہ اللہ کے فضل کی عطا ہے کہ مہلت کے لمحات انسان کو زینت ِدنیا سے مستفید ہونے کا موقعہ فراہم کر رہے ہیں ۔خدا کی خدائی بے لاگ اور منصفانہ فیصلہ صادر کرتی ہے جس میں کسی بھی مخلوق کا کوئی دخل نہیں ،وہ بے نیاز ہے جو چاہے جب چاہے کر گذرتا ہے ۔اس نے موقعہ پوری انسانیت کو ایک محدود وقت کے اندر بااختیار بنا کے دیا ہے اماشاکرا واماکفورا۔لیکن ایک حاضری کا وقت بھی مقرر ہے جب اس کے حضور ہر ایک کو اپنے کئے کا حساب کتاب دینا ہوگا ۔نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ بچپن گذر گیا ،جوانیاں بھی ڈھل جائیں گیں اور پھر بڑھاپے کا خزاں جسم پر طاری ہوگا ۔بچپن کی معصومانہ حرکات ،نوجوانی کی دلربا ادائیں اور سنجیدگی کے وہ ادوار سب کچھ یاد آئیں گے جس سے انسان گذر کر آیا ہو ۔لیکن یاد کرنے سے کچھ بھی واپس نہیں لوٹے گا ۔ اس لئے نوجوانی کو غنیمت جان کر ارزل العمرکو آسان بنائیں،نوجوانی کی حفاظت کریں تاکہ آخرت کا سایہ پا سکواور نوجوانی کو باحیا بناو تاکہ جہنم تم پر حرام کردی جائے ۔اپنی توائنائیوں کے مصرف کومثبت جگہ فراہم کریں ،عرقِ انفعال کے قطروں کو کریم اور رحیم کی بارگاہ میں ٹپکا دیں اور نفس کی شرارتوں کو جان کر ضمیر کی پناہ میں آکر ان سے محفوظ رہیں ۔نوجوانی میں نفس کا وار نہایت قوی اورذوردار ہوتا ہے جس سے انسان کی فطرت سلیم کی بنیادیں تک متزلزل ہوتی ہیں اور پھر سنبھلنا کسی کسی کا ہی ملکہ ہوتا ہے اس لئے نفس کو اپنے آپ پر ہاوی کبھی بھی نہ ہونے دیں ۔اگر نفس سے تم مغلوب ہوئے تو تاریخ کے بدنما اور شیطانی کردار کا آشیانہ تمہاری شخصیت بنے گی ۔
یہ جان لیں کی نگاہوں کی حفاظت ہی تمہیں سخت جان بنا سکتی ہے پھر تم کسی بھی چیلنج کا سامنا کر سکتے ہو ۔نگاہوں کی حفاظت تمہارے اندر پختہ اور تعمیری سوچ پیدا کرتی ہے ،ایک ایسی فکر کا تمہیں خالق بناتی ہے جو جو پوری انسانیت کے لئے مفید اور رحمت ہوتی ہے ۔بلند خیالات ہمیشہ محفوظ نگاہوں کی حفاظت میں پروان چڑھتے ہیں اور یہی بلند خیالات انسان کو کچھ کرنے کا جذبہ بخشتے ہیں ۔اسی لئے تمہارے رقیب تمہیں پہلے وار میں نگاہوں کی آوارگی کا عادی بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔نگاہوں کو آوارہ کرنے کے لئے شیطان نے آج جگہ جگہ اور لمحہ بہ لمحہ بےحیائی کی بدترین نمائش سجا کر رکھی ہے تاکہ ہر جھانکنے ولا اور سوچنےوالا اس نمائش سے آنکھوں کی لذت اور نفس کی تسکین کا سامان حاصل کر سکے ۔کیا تم نے کبھی غور کیا کیوں بے حیائی کا شریفانہ ایڈیشن شائع کیا گیا ہے جس میں سر پر حجاب اور ہونٹوں پہ رنگ ،موضوع ہے اخلاق کا لیکن آواز میں شہوانی لچک اور پروگرام ہے مذہب کا لیکن اس سے اپنی خبیث نمائش مقصود ہے۔اس لئے کبھی بھی کسی کے جھانسے میں نہ آنا ،نہ کسی کے لباس سے اور نہ کسی کے گفتار سے دھوکہ کھانابس تمہیں اپنی منزل پہ نطر رہے ۔
مغربی افکار نے جو ہنگامہ دنیا میں برپا کیا ہے اس سے کوئی بے خبر نہیں لیکن ان افکار کا ناقدانہ اور عالمانہ رد مسلم نوجوانوں سے شاذونادر ہی ہوتا ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تم اپنے دین سے ،اسلام سے اور قرآن سے پہلو تہی کر رہے ہو ۔اس پہلو تہی سے تمہارے اندر عالمانہ اور ناقدانہ رویہ کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکتا ۔بس ماند پڑ گئی ہے وہ درخشانی جس کا بھرم تاہنوز ہم رکھتے آرہے ہیں !بس سو گئے ہیں ہم یہ سبق پڑھاتے پڑھاتے کہ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ۔وہ نکتہ سنج اور نکتہ رس ذہن جس سے ہمارے اسلاف متصف تھے کب کا ہم رٹ اور نقل کی نذر کر چکے ہیں ۔اس لئے اس کھوئی ہوئی میراث کو واپس لانے کے لئے تمہیں ہی کچھ کرنا ہے ۔یہ دور ایک ایسے مسلم نوجوان کا مطالبہ کرتا ہے جو اس کی تمام مقتضیات سے آشنا ہو ۔یہ دور شعرو ادب سے آگے کچھ عملی اقدام کرنے کا قدرداں ہے ۔اشعار میں گرجنے کے بدلے میدان عمل میں خاموشی اختیار کرکے اپنی چھاپ قائم کریں ۔تمہارے اندر ایک آتش ہمیشہ دھکتی رہنی چاہئے جو تمہیں سونے نہ دے ،تمہیں اوقات کے زیاں سے بچائے اور تمہیں تب تک متحرک رکھے جب تک نہ تم اپنا مقصود حاصل کرو ۔وہ آتش تم جان لو کہ وہ ایمان ہے جس کے کمزور ہونے سے تم پر سستی و کاہلی طاری ہوتی ہے جو تمہاری ناکامیوں پر منتج ہوتی ہے ۔ میرے عزیزوں منزل کے مفہوم کو بدل دو جو دنیا نے اختیار کی ہے ۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ منزل اور مقصد کے متعلق تم بھی دنیا والوں کے ہم زباں ہو ۔تمہاری منزل بس اب ملازمت حاصل کرنا ہے حالانکہ اگر گہرائی سے دیکھا جائے یہ تو بس پیٹ پالنے کا ذریعہ ہے جسے تم اپنا مقصد سمجھ بیٹھے ہو ۔اس طرح سے تمہارا اور جانوروں کےدرمیان فرق ہی مٹ جاتا ہے ۔یہ ایک المیہ ہے جسے بیان کرنے میں شرمساری کا ایک احساس پیدا ہوتا ہے لیکن مجبور ہوں کہ بیان نہ کرنا ایک بار سمجھتا ہوں ۔