ترکی اور شام میں شدت کے زلزلوں سے تباہی کم سے کم2300افراد ہلاک ہزاروں زخمی، شدید تباہی، 24 گھنٹے میں زلزلہ کے 3 جھٹکے، ترکی سمیت 7 ممالک کی زمین کانپ گئی

مانیٹرنگ ڈیسک
استنبول //ترکی میں 24 گھنٹے کے اندر 3 شدید زلزلوں نے تباہی کا عالم برپا کر دیا ہے۔ یہ جھٹکے صرف ترکیے میں ہی محسوس نہیں کیے گئے بلکہ شام، لبنان، عراق، اسرائیل، سائپرس، گریس، جارجیا اور اردن کی زمین بھی کانپتی ہوئی محسوس ہوئی۔ شام کی سرحد کے قریب واقع ترکی کے جنوب مشرقی علاقے غازی عنتیپ میں 7.8 کی شدت کا زلزلہ آیا ہے جس سے سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ترک صدر نے کہا ہے کہ ملک میں زلزلے کی تباہی سے اب تک 1000 سے زیادہ ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ 5300 سے زیادہ زخمی ہیں۔شام سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اب تک زلزلے سے 780 سے زیادہ افراد ہلاک اور 2000 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔زلزلے کے زوردار جھٹکوں سے کم از کم 10 ترک شہروں میں تباہی ہوئی ہے جبکہ انھیں دارالحکومت انقرہ کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں محسوس کیا گیا۔زلزلے سے کئی عمارتیں گِر کر تباہ ہوئی ہیں اور ملبے تلے پھنسے لوگوں کو بچانے کی کوششیں جاری ہیں۔ترک حکومت نے ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ موبائل فون استعمال نہ کریں تاکہ امدادی کارکنوں کو رابطوں میں مشکلات نہ آئیں ۔ترکی میں حالات زیادہ خوفناک دکھائی دے رہے ہیں اور مہلوکین کی تعداد 4 ہندسوں میں پہنچ گئی ہے۔ اس کے بعد شام کا نمبر آتا ہے جہاں اب تک تقریباً 900 افراد موت کی نیند سو چکے ہیں۔ مجموعی طور پر اب تک 2300 سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد تقریباً 5400 ہو گئی ہے۔ترکی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہاں سرد رات اور برفیلی ہواوں کے درمیان رک رک کر ہو رہی بارش نے لوگوں کو کچھ زیادہ ہی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ 7.8 شدت کے زلزلہ سے سینکڑوں افراد کی موت تو ہو ہی چکی ہے، ہزاروں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اموات کی تعداد تیزی کے ساتھ ا?گے بڑھ رہی ہے۔ زلزلہ کے وقت کا منظر انتہائی خوفناک تھا جب لوگ گھروں سے باہر بھاگ رہے تھے، چیخ و پکار مچی ہوئی تھی اور اپنوں کو تلاش کرتی ہوئی آنکھیں ہر طرف دکھائی دے رہی تھیں۔ تقریباً 3000 عمارتیں اس زلزلہ میں زمین دوز ہو گئیں۔ ترکیے کے بعد سب سے زیادہ نقصان شام میں درج کیا گیا ہے۔اس خبر پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں راحت و بچاؤ کا کام بہت مشکل ہے۔ ایک طرف تو زلزلہ کی زبردست مار پڑی ہے، اور دوسری طرف موسم بھی اچھا نہیں ہے۔ ماہرین موسمیات کے مطابق ایپک سنٹر کے آس پاس بچاو کام میں کافی مشکلات پیش آنے والی ہیں۔ زبردست بارش ہونے کے امکانات کو بھی خارج نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دن میں جہاں درجہ حرارت 3 سے 4 ڈگری درج کیا جا رہا ہے تو وہیں رات منجمد کرنے والی ہوگی۔ 3 سے 5 سنٹی میٹر تک برف باری کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔موصولہ اطلاعات کے مطابق زلزلہ کا پہلا جھٹکا 7.8 شدت کا تھا، جبکہ 12 گھنٹے بعد ا?یا دوسرا زلزلہ 7.5 شدت کا تھا۔ پہلے والے زلزلہ سے متاثر ہزاروں لوگ اب بھی ملبہ میں دبے ہوئے ہیں اور دوسرے زلزلہ نے مزید دہشت کا عالم پیدا کر دیا ہے۔ جو بچ گئے ہیں وہ بری طرح سہمے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ دو زلزلوں کے بعد کوئی گود میں بچہ لے کر دوڑتا دکھائی دیا تو کوئی بکھرے ملبہ میں اپنوں کو تلاش کرتا ہوا۔ انہی سب کے درمیان تیسرا زلزلہ بھی آیا جس کی شدت تقریباً 6 تھی۔ ان تین زلزلوں نے بچاو اور راحت کے کام میں مصروف لوگوں پر بھی دہشت طاری کر دی ہے۔ زلزلہ میں ترکیے کا ایک اسپتال بھی منہدم ہو گیا جس سے نوزائدہ بچوں اور مریضوں کو بڑی مشکل سے بحفاظت باہر نکالا گیا۔ شام میں بھی کچھ اسپتالوں کی عمارت متاثر ہوئی جہاں سے مریضوں کو نکال کر دوسرے اسپتال بھیجا گیا۔ترکی کے یکے بعد دیگرے زلزلے پر عینی شاہدین نے اپنے تاثرات شیئر کیے ہیں۔تولن اکایا دیاربکر کی رہائشی ہیں۔ یہ جگہ زلزلے کے مرکز سے مشرق میں کوئی 180 میل کی دوری پر واقع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ابھی پہلے زلزلے کے غم سے اپنے آپ کو باہر نکالنے کی کوشش میں تھیں کہ دوسرے زلزلے نے انھیں آن لیا۔انھوں نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ وہ بہت سہمی ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق میں نے اسے بہت شدت سے محسوس کیا کیونکہ میں بالائی منزل پر رہتی ہوں۔ان کے مطابق ہم افراتفری میں باہر کی طرف بھاگے۔ ان کے مطابق میں اب اپنے اپارٹمنٹ کی طرف نہیں جا سکتی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب آگے کیا ہو جائے گا۔‘ترکی میں پہلے زلزلے کا مرکز غازی عنتیپ تھا اور اس کی شدت 7.8 تھی جبکہ دوسرے زلزلے کی شدت 7.5 تھی اور یہ جگہ پہلے زلزلے کے مرکز سے شمال میں 80 میل کی دوری پر کہرمان مرعش صوبے میں واقع ہے۔ملیسا سلمان کہرمان مرعش کی رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زلزلے والے زون میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ انھیں اس جھٹکے لگتے رہتے ہیں۔مگر ان کے مطابق آج جو ہوا یہ زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ان کے مطابق ’ہمیں لگا کہ یہ قیامت ہے۔‘ہالس اکتیمر دیاربکر کے رہائشی ہیں۔ وہ ان پہلے لوگوں میں شامل تھے جو پہلی بڑی عمارت گرنے کے بعد اس جگہ تک پہنچے اور پھر ملبے سے لوگوں کو بچانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ان کے مطابق ہم تین لوگوں کی جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ مگر دو لوگ مر چکے تھے۔ ان کے مطابق دسرے زلزلے کے بعد میں کہیں نہیں جا سکا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اب انھیں میری مدد کی ضرورت ہوگی۔