بدنامی کا شکار ہو رہا ہے اک مقد س پیشہ !

اِس دنیا میں ہر شخص خدا کے بعد ڈاکٹر پر بھروسہ کرتا ہے، ہر انسان کا ماننا ہے کہ خدا برتر کے بعد انسان کی جان کو بچانے والا ڈاکٹر ہی ہوتا ہے، جس طرح سےسپاہی اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہیں اِسی طرح ڈاکٹر حضرات بھی ہمارے صحت کی حفاظت کر تے ہیں،ڈاکٹر کو معاشرے میں عزت کے نظریہ سے دیکھا جاتا ہے۔ڈاکٹر کا کام بیماری کا علاج کرنا ہے، جب بھی ہم بیمار پڑتے ہیں ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔بخار سے لیکر دنیا میں جتنی بھی خطرناک بیماریاں ہوتی ہیں اِن سب سے ڈاکٹر ہی ہمیں نجات دلاتا ہے۔لیکن آج کا دور ایسا آگیا ہے کہ ڈاکٹروں کا اکثریتی طبقہ صرف پیسہ کمانا چاہتا ہے،بہت سے ڈاکٹراتنی زیادہ فیس لیتے ہیں کہ غریب انسان پیسے کی وجہ سے نہ تو فیس کا انتظام کر پاتا ہے اور نہ ہی دوا کے پیسوں کا اور اِسی وجہ سے اپنی بیماری کو جھیلتا رہتا ہے یا پھر اِس بیماری کی وجہ سے اپنی زندگی کھو دیتا ہے۔ افسوسناک تو یہ ہے کہ نجی کلینکوں اچھی خاصی فیس وصول اور سرکاری ہسپتالوں میں بھاری بھرکم تنخواہیں ہضم کرنے کے باوجود بھی ڈاکٹروں کا رویہ انسان دشمن ہی ثابت ہوتا ہے،اِس کی بے شمار مثالیں ہمارے اعتراف اکناف میں بکھری پڑی ہیںکہ ڈاکٹروں کی لاپرواہی کے باعث کئی ایک دن میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا زیاں ہورہا ہے۔اگر گزشتہ روز رمضانہ ہسپتال سرینگر کے طبی عملے کی لاپرواہی کو ہی دیکھا جائے تو انسانیت کا کھلے عام گلا گھونٹا جا رہا ہے ، رمضانہ ہسپتال سرینگر میں ایک 26سالہ حاملہ خاتون اُس وقت جام اجل پی لیتی ہے جب ہسپتال عملے نے حاملہ خاتون کا علاج و معالجہ کرنے میں انتہا درجے کی غفلت برتی۔اِسی طرح سے ایک ہفتہ قبل ایس ایم جی ایس شالامار ہسپتال جموں کے طبی عملے کی لاپرواہی کے باعث ایک نوائد بچے لقمہ اجل بن گیا،بچے کے والدین آج تک بھی انصاف کی گوہار لگا رہے ہیں لیکن سرکار نے ابھی تک اِس معاملے پر کسی قسم کی کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی جس وجہ سے سرکارکے لاپرواہی ڈاکٹروں کے تئیں نرم رویے پر بے شمار سوالات کھڑے کر رہے ہیں ۔قابل ِ ذکر ہے کہ اِس طرح کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے لیکن بدقسمتی سے سرکار ایسے انسان دشمن عناصر کے خلاف شکنجہ کسنے کے بجائے تحقیقات کے نام پر اِس ناجائز آمدن کے گورکھ دھندے میں مبینہ طور شریک ِجرم ثابت ہو رہی ہے ، کبھی کسی معاملے کی تحقیقات اِس مقام تک نہیں پہنچی جہاں سے مریضوں کو علاج کرنے کے بجائے موت کے گھاٹ اُتارنے والے لاپرواہ ڈاکٹروں کے نام عبرتناک پیغام پہنچ پاتا۔غورو فکر کا مقام ہے کہ اگر اک ڈاکٹر اچھی فیس اور اچھی تنخواہ ہضم کرنے کی دوڑ میں لگا ہے تو اُس ڈاکٹر کا مریضوں کے ساتھ سلوک بھی اچھا ہونا چاہئےکیونکہ مریض کی آدھی طبیعت ڈاکٹر کے دلاسے اور اچھے اخلاق سے ہی ٹھیک ہو جاتی ہے، ڈاکٹر کا کام صرف پیسہ کمانا یا تنخواہیں ہضم کرنا نہیں ہوتا ہےبلکہ وہ ایک انسان کی آخری دم تک کی اُمید ہوتا ہے،۔ معاشرے میں ایسے بھی ڈاکٹر ہیں جو بہت کم پیسے لیکر یا مفت میں مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں اور ایسے ڈاکٹر تعریف و ستائش کے حقدار بھی ہیں لیکن ایسے ڈاکٹروں کی تعدا د آٹے میں نمک کے برابر ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر اور مریض کا آپس میں بہت ہی گہرا رشتہ ہوتا ہے کیونکہ ایک شخص اپنے سگے رشتہ داروں سے اتنی اُمید نہیں لگاتا جتنا کہ وہ ایک ڈاکٹر سے لگاتا ہے ، اِس لئے سبھی ڈاکٹروں کو ایمانداری اور اخلاق سے اپنے مریضوں کیساتھ پیش آنا چاہیےنہ کی پیسوں کی لالچ میں آکر مرض کو اور بڑھانا یا مریض کا کام ہی تمام کر دینا چاہیے۔سرکار کو چاہیے کہ کاغذی گھوڑے دوڑانے،بدعنوانیوں اور بدنظمیوںکو جڑ سے ختم کرنے کھوکھلے دعوؤں سے لوگوں کے دِل نہ بہلائے بلکہ علاج و معالجے کے نام پر ہو رہے اِس کورکھ دھندے کو روکنے کیلئے عملی طور کچھ کر گزرے،کیونکہ سرکار کا کام محض دعوے کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ ایسے گورکھ دھندوں کو روکنا ہوتا ہےجہاں غریب عوام کا استحصال ہو رہا ہو اور علاج و معالجے کے نام قیمتی جانوں کیساتھ کھیلا جا رہا ہو۔واضح رہے جب تک سرکار ایسے لاپرواہی طبی عملے کے تئیں اپنا نرم رویہ ترک نہیں کرے گی تب تک انسانی شکل میں بھیڑیئے نُما طبیب زندگیوں کو نوچتے رہیں گے اور روز ہی انسانیت کا قتل عام ہوتا رہے گا۔