غلام نبی آزاد کی شخصیت اور کانگریس سے ان کا استعفیٰ!

قاضی سلیم الرشید
ملک کے ایک موقر اخبار نے حال ہی میں اپنے ایک ایڈ یٹوریل نامور اور کہنہ مشق سیاستدان غلام نبی آزاد کے کانگریس پارٹی سے مستعفی ہونے کو کچھ اس انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گویا ایسا قدم اٹھا کر آزاد صاحب نے کانگریس پارٹی کی تئیں اپنی نمک حرامی کا ثبوت دیا۔ صاحب تحریر نے باور کرانے کی کوشش کی کہ کانگریس پارٹی نے ہی آزاد صاحب کی شخصیت کو سنوارا، نکھارا اور اقتدار کے اونچے ایوانوں تک پہنچایا۔ لیکن بالآخر اس سے برے وقت میں خیر باد کیا۔ صاحب تحریر لگتا ہے گانگریس کی آئڈیالوجی سے متاثر ہیں جو بہر حال ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن اپنی پسند کی پارٹی،ذات یا خاندان کے ساتھ اپنی وفاداری جتانے کی کوشش میں کسی دوسری شخصیت کے خلاف قلم اٹھا کر انہیں بے جا تنقید کا نشانہ بنانا کسی بھی طرح کی صحافی دیانتداری نہیں کہی جاسکتی ہے اور یہ قلم کار اگر مجھ جیسا عام آدمی ہو تو جرم قابل درگزر ہے لیکن پورے ملک میں پڑھے جانے والے ایک موقر اخبار کا ایڈیٹوریل لکھنے والا ‘صحافی انتہائی غیر ذمہ داری کے ساتھ اس قدر اپنے قلم کی سطح گرائے گا اس کی توقع بہت کم کی جاسکتی ہے۔
غلام نبی آزاد سے میرا فی الوقت نہ کوئی تعلق ہے اور نا ہی کوئی رابطہ۔حتیٰ کہ اس کی سیاست سے بھی میرا کوئی لینا دینا نہیںہے۔ غلام نبی آزاد کو میں تب سے جانتا ہوں جب 74-1972 کے دوران وہ کشمیر یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ہم نا صرف یونیورسٹی میں بلکہ یونیورسٹی کے اس وقت کے واحد ہوسٹل میں بھی قریباً تین سال اکٹھے رہے ہیںاور ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ انہی دنوں آزاد صاحب آنجہانی سنجے گاندھی کی سربراہی والی یوتھ کانگریس میں شامل ہوکرآل انڈیا یوتھ کانگریس کے جنرل سکریٹری مقرر ہوئے جبکہ شریمتی امبیکا سونی اس کی صدر تھیں۔ تب سے لے کر کل پرسوں تک یعنی استعفیٰ دینے تک آزاد صاحب برابر گانگریس پارٹی میں شامل رہے۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ آنجہانی محترمہ اندرا گاندھی اور ان کے بڑے بیٹے آنجہانی سنجے گاندھی کے درمیان چند سیاسی معاملات میں اختلاف موجود تھا لیکن یہ غلام نبی آزاد ہی تھے جو ان دو کے درمیان نہ صرف رابطہ کا کام انجام دیتے رہے بلکہ چند معاملات میں ماں بیٹے کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کی ذمہ دار ی بھی نہایت خوش اسلوبی سے نبھاتے رہے۔
آنجہانی راجیوگاندھی ،سونیا گاندھی، منیکاگاندھی اور گاندھی خاندان کےدیگر افراد بشمول آنجہانی پنڈت نہرو کے قریبی رشتہ دار اور نہرو خاندان کے ایک با اثر شخصیت ارون نہرو کے ساتھ بھی آزاد صاحب کے بہت ہی قریبی تعلقات رہے ہیں۔ آزاد صاحب کو گاندھی خاندان کا ایک فرد مانا جاتا تھا اور اس رشتہ کو آزاد صاحب بحسن و خوبی آخری وقت تک نبھا تے رہے،بڑ ی وفاداری دکھائی۔ راقم الحروف کو یاد ہے کہ 1976یا 1977کاواقعہ ہے کہ کانگریس اقتدار سے محروم ہوئی اور ملکی سطح پر پارٹی کا قریب قریب صفایا ہوا۔ لگ بھگ سارے لیڈراں اور کارکنان کانگریس سے علیحدہ ہوکر جے پرکاش نرائن کی سربراہی والی اپوزیشن اتحاد ’’جنتا پارٹی‘‘میں شامل ہوئےلیکن جموں کشمیر کا یہ سپوت چٹان کی طرح اندراگاندھی کے ساتھ کھڑا رہا۔ مشکل اور مصیبت کے ایام ان کی خدمت میں گزارے۔ جوان تھے، قابل تھے اور کشمیر سے تھے۔ آزاد صاحب اقتدار کی لالچ میں دیگر لیڈروں کی طرح کانگریس چھوڑ کر جنتا پارٹی میں جا سکتے تھے اور وہاں اپنے بلند قد بلکہ سیاسی قد کی وجہ سے ایک اونچا مقام حاصل کرسکتے تھےلیکن ایسا نہیں ہوا، نمک حرامی نہیںکی۔ کانگریس اور گاندھی خاندان کا ساتھ نہیںچھوڑابلکہ ساتھ نبھایااور ہمیشہ نبھایا، اقتدار میں بھی اور اقتدار سے باہر رہ کر بھی۔ اب آج ایسا کیا ہوا کہ کانگریس اور گاندھی دونوں کو چھوڑنا پڑا۔ ملک کا ہر فرد اس بات سے واقف ہے کہ کانگریس پارٹی پچھلے قریباًدو دہائیوں سے موت و حیات کی کشمکش میں ہے۔ ملک کی ایک وقت کی سب سے بڑی اور ہر دلعزیز سیاسی جماعت جس نے ملک کی آزادی کی کامیاب جنگ لڑی اور نئےبھارت کی بنیاد ڈالی،جس پارٹی کا ماضی بہت ہی شاندار رہا ہے اور ہر دل میں بس چکی تھی آج وہی عوامی پارٹی صفحہ ہستی سے مٹتی جارہی ہے۔آج ملک کی یہ گریٹ اولڈ پارٹی (GOP) جس کا ماضٰ کل تک گھر گھر کی کہانی بن چکی تھی آخری ہچکیاں لیتی نظر آرہی ہے۔ ماں اپنے بچوں کو اس جماعت کے ہیروں کے کارنامے سنا یا کرتی تھی باپ اپنے بیٹوں کو تعریک آزاری میں شامل کانگریسی جانبازوں کی جدوجہد سے واقف کراتے تھے۔ سکولوں اور دانشگاہوں میں اس تنظیم کے کارنامے پڑھائے جاتے تھے۔ آج وہی جماعت اپنے وجود کو بچانے میں لگی ہوئی ہے۔ ایسا کیا ہوا ؟ ایسا کیوں ہوا ؟ کیا کانگریس کا کوئی کارکن، لیڈر یا ہمدر دصحافی اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کررہا ہے؟ کسی پر تنقید کرنا آسان ہے لیکن حقیقت کا سامنا کرنا اور صاف گوئی سے کام لینا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ گانگریس کا موجودہ ڈھانچہ بالکل کمزور ہوچکاہے۔ یہاں کٹھ پتلیوں، موقعہ پرستوں اور چاپلوسوں نے لیڈرشپ کو گھیر کر رکھا ہے۔ لیڈر شپ بھی حقیقت کا سامنا کرنے کے بجائے اپنی ہی من مانی پر ڈٹی ہوئی ہے،نوشتہ دیوار دکھائی نہیں دیتا،پڑھا نہیں جاتا،بادشاہ سلامت سب ٹھیک ہے کا طرزعمل اپنایا جارہا ہے۔ بادشاہ سلامت بھی بنسری بجانے میں مشغول دکھائی دیتا ہےجبکہ لنکا جل رہی ہےاس سے بچانے کی فکر کسی کو نہیں۔
قابل ِ ذکرہےکہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ غلام نبی آزاد نے اپوزیشن میںوہ رول نہیں نبھایا جو نبھانا چاہیے تھا یعنی صاف صاف لفظوں میں اُن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں بطورِ اپوزیشن لیڈر آزاد نے مودی کی ملک مخالف پالسیوں کی مخالفت نہیں کی بلکہ مودی سرکار کے تئیں نرم رویہ اپنا کر رکھا لیکن ایسی لزامات سوائے الزامات کے اور کچھ نہیں، اِن الزامات میں حقیقت بالکل بھی نہیں،آزاد کے دوران اپوزیشن لیڈر کا ریکارڈ کھنگالا جائے تو آسانی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ غلام نبی آزاد نے بحیثیت اپوزیشن لیڈر پارلیمنٹ میں وہ کردار بخوبی نبھایا ہے جو ایک سمجھدار،سنجیدہ اور بالغ النظر لیڈر کو نبھانا چاہیے تھا۔علاوہ ازیں کچھ مخالفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن آرٹیکل 370اور35اے سے متعلق غلام نبی آزاد نے پارلیمنٹ میں خاموشی اختیار کر رکھی جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ غلام نبی آزاد نے جیسے بھاجپا کی مخالفت نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہو لیکن اُن مخالفین کو چاراگست 2019کا پارلیمنٹ سیشن اچھے طرح سے دیکھ لینا چاہیے جس برد باری اور اور سنجیدگی کیساتھ غلام نبی آزاد نے 370اور35Aکے خاتمے کو لیکر پارلیمنٹ میں ملک کے وزیر اعظم کے سامنے اپنی بات رکھی وہی ایک لیڈر شپ کی مثال ہے ۔ آزاد نے ملک کے وزیر اعظم کو انتہائی سنجیدگی اور بردباری سے سمجھایا کہ ملک کس طرح سے چلایا جا سکتا ہے ۔دھونس دبائو اور عوامی خواہشات کے برخلاف جا کر ملک کو چلانا ناممکن ہے اِس لئے آج جو بھی فیصلہ آپ نے لیا ہے یہ کسی بھی طور صحیح نہیں ہے ۔ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ چار اگست ۲۰۱۹کے روز جموں و کشمیر عوام کی ترجمانی کرنے کیلئے اگر کوئی فردِ واحد ماں کا لعل سینہ تان کر کھڑا تھا تو وہ غلام نبی آزاد صاحب ہی تھے جس نے تن تنہا ہو کر پوری پارلیمنٹ میں جموں و کشمیر عوام کے جذبات و احساسات کی بڑی ہی فکر مندی سے ترجمانی کر کے دکھائی اور یہ ثابت کر کے دکھایا کہ جذباتی تقرریروں سے نہیں بلکہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بات کیسے رکھی جا سکتی ہے اور ایک اچھے قابل ترین لیڈر کی مثال یہی ہوتی ہے کہ وہ چیخ چیخ کر اور واویلا کر کے اپنی بات لوگوں کے سامنے نہیں رکھتا بلکہ بردباری اور سمجھداری سے اپنی بات رکھ سب پر اثر انداز ہوتا ہے ۔یاد رہے کانگریس جماعت میں اب دو ہی لیڈر ریڑھ کی ہڈی کے مانند تھے وہ لیڈر کبل سبل اورغلام نبی آزاد ہی تھے، جنھوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ملک کی اولین جماعت کو مضبوط کر رکھا تھالیکن پارٹی نہیں دونوں لیڈران کی اہمیت کو نہیں سمجھاجس کا پارٹی کو آج بڑا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے ۔خیر مخالفین کے زبانوں پر قفل کون لگا سکتا ہے ، میں تو بھی غلام نبی آزاد سے متعلق بس اتنا ہی کہہ کر اجازت چاہوں گا کہ۔۔۔۔۔۔۔
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں