برسی یا سالگرہ!

Jammu and kashmir Union Terrotiry.jpg
Jammu and kashmir Union Terrotiry.jpg

برسی یا سالگرہ!

جموں وکشمیرکو آئینِ ہند کی دفعہ370اور35-Aکے تحت حاصل خصوصی درجے کی تنسیخ اور دوسالہ پرانی ریاست کا درجہ گھٹا کر اِس کو دو مرکزی زیر ِ انتظام علاقوں میں تقسیم کئے ہونے آج ایک سال ہوگیا ہے۔ خصوصی درجے کو جموں وکشمیر کی تعمیر وترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جارہاتھا، ایک سال قبل آج ہی کے دن پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ غیر متوقع اور تاریخی اعلان کرتے وقت دعویٰ کیاتھاکہ اب ترقی ہی ترقی ہوگی لیکن پچھلے ایک سال کا اگر غیر جانبدارانہ طریقہ سے محاسبہ کیاجائے تو سماج کے ہر طبقہ میں مایوسی، بے چینی، اضطراب، غیر یقینیت اور تذبذب رہا۔صوبہ جموں خاص طور سے جموں، سانبہ، اودھم اور کٹھوعہ میں ایک طبقہ جوکہ غیر دانستہ طور جنہیں مضمر اثرات کا اندازہ نہیں تھا، اِس فیصلے کے حق میں آج سے ایک سال قبل کافی خوش نظر آئے، ڈھول باجے اور مٹھائیاں تقسیم کر کے جشن منایا اور پٹاخے سرکے تھے لیکن آج ’خصوصی درجے ‘نہ ہونے کی اہمیت کا احساس ہوکر وہ بھی مایوس ہیں اور آہستہ آہستہ محسوس ہورہا ہے کہ خصوصی درجے کو لیکر اُنہیں جوکہانی بتائی گئی تھی، وہ حقیقت سے کوسوں دور ایک افسانہ اور ایک مخصوص نظریہ کی آبیاری سے کچھ زیادہ نہ تھا۔ جموں وکشمیر آئین ختم کر دیاگیا جس میں گلگت بلتستان کا ذکر تھا، جبکہ الحاق دستاویز میں گلگت بلتستان کا ذکر نہ ہے اور ایسا کر کے سنگین غلطی کی گئی ہے ۔جموں وکشمیر حقِ اطلاعات کمیشن ختم ہو، کوئی افسر آرٹی آئی کا جواب دیکر راضی نہیں، احتساب کمیشن اور ویجی لینس کمیشن جیسے ادارے بھی بند ہوگئے۔فور جی انٹرنیٹ پر لگاتار بندش، جموں وکشمیر پبلک سروس کمیشن اور جموں وکشمیر سروس سلیکشن ریکروٹمنٹ بورڈ نے مختلف محکمہ جات کے لئے بھرتی کے لئے جونوٹیفکیشن نکالے تھے، وہ بیشتر کالعدم قرار دیئے گئے، مختلف مراحل کا جوبھرتی عمل تھا، وہ بھی منسوخ کر دیاگیا، ایک سال میں کوئی بھی تقرری نہ ہوئی۔ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ قوانین میں خامیاں، جموں وکشمیر بینک پر بیروکریسی کا غلبہ جیسے کئی ان گنت فیصلے اور اقدام ایسے لئے گئے جس سے اکثریتی آبادی کا طبقہ ناراض ہے۔ جموں کی مختلف سیاسی جماعتوں، سماجی، تجارتی اور غیر سرکاری تنظیموںکی طرف سے فوری ریاستی درجے کی بحالی کا مطالبہ زور پکڑتا جارہاہے۔ اگر چہ ایک سال مکمل ہونے پر بھارتیہ جنتا پارٹی نے 15روزہ جشن کا اعلان ہے اور اِس میں بڑے پیمانے پر شرکت کی اپیل کی ہے لیکن لوگوں کا مزاج کافی بدلہ بدلہ نظر آرہاہے۔ جموں میں کسی تاجر، نوجوان، امیروغریب سے بات کریں وہ حکومتی اقدام اور پچھلے ایک سال کی کارکردگی پر انتہائی مایوس کن ہے ۔ انتظامیہ اور عوام کے درمیان دوریاں بہت بڑھ گئی ہیں، افسران عوام کی سن کر راضی نہیں۔ اربوں روپے کی ملکی وغیرہ ملکی سرمایہ کاری کی بات کی گئی تھی، کچھ نہ ہوا، حالانکہ وہ خصوصی درجے کی موجودگی میں بھی ہوسکتا تھا، وہ کوئی رکاوٹ نہ تھا۔ وکلاءبرادری سخت پریشان ِ حال ہے۔ اراضی دستیاویزات ودیگر اندراج کا عمل عدلیہ سے لیکر محکمہ مال کے حوالے کر دینے، کنزیومر فورم کا خاتمے سے وکلاءکے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی متاثرہوناپڑاہے۔ایک سال کا محاسبہ کیاجائے تو اِس میں پایا نہ کے برابر جبکہ سب کچھ کھویاہی کھویا ہے۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اُنہیں اُس دن کا ایک سال پورا ہونے پر جشن منانے اور خوشیاں منانے کو کہاجارہاہے ، جس دن اِنہیں اپنے ہی گھر میں بیگانہ کر دیاگیا، سب کچھ چھین لیاگیا، بے اختیار کر دیاگیا۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو، اخبارات اور سوشل میڈیا پر وہ مرکزی سرکاراور حکمرانوں کی طرف سے اِس دن کو منانے کے لئے دیئے جارہے بیانات پر وہ پریشان ہیں ، کیسے وہ اپنی بربادیوں کا جشن منائیں۔ خوشی اور جشن تو اُس دن اور اُس وقت کا منایاجاتا ہے، جب آپ کے ساتھ کچھ اچھا ہوا ہو، آپ کو دلی سکون اور خوشی محسوس ہوئی ہو، وہ ددن جس نے اُن کا چین وسکون چھین لیا، شناخت وپہچان ختم کی، بے اختیار کر دیا۔ اُس دن کا جشن کیسے منائیں، البتہ جموں وکشمیر میں ہمیشہ ایک ہی واقع اور معاملہ کو لیکر دو متضاد نظریات دیکھنے کو ملے ہیں، ایسا ہی اِس مرتبہ بھی پانچ اگست کے دن کو منانے کے حوالے سے دیکھنے میں آرہا ہے، کہیں اِس کو برسی کے طور منایاجارہاہے اور کہیں یہ سالگرہ ہے جس پر جشن تقریبات کا انعقاد ہوگا۔حکومت ِ ہند کو بھی چاہئے کہ عوام کے مزاج کو سمجھتے ہوئے فور جی انٹرنیٹ اور ریاستی درجہ بحال کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں پر جمہوری عمل کو بحال کیاجائے کیونکہ اِس خطہ میں منتخبہ عوامی حکومت ناگزیر ہے۔