پونچھ و راجوری کا سیاسی پارہ گرم!

موسمی حالات سرد مگر….
پونچھ و راجوری کا سیاسی پارہ گرم!
احوالِ پیر پنجال
الطاف حسین جنجوعہ
جموں وکشمیر ریاست میں اِ ن دنوں سردی عروج پر ہے۔،لداخ ، وادی کشمیر کے ساتھ ساتھ صوبہ جموں کے میدانی علاقہ جات اور چناب وپیر پنچال خطوں میںکڑاکے کی ٹھنڈ سے معمولات زندگی متاثر ہے لیکن لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایکساتھ کرانے کی چہ مہ گوئیوں کی وجہ سے سیاسی پارہ کافی گرم ہے۔اگر چہ اس حوالہ سے صورتحال ریاست بھر میں یکساں ہے لیکن چونکہ موضوع کا عنوان ’احوالِ پیر پنجال‘ہے ، اس لئے صرف اضلاع پونچھ وراجوری کے موجودہ سیاسی پارہ تک ہی محدود رکھتے ہیں۔عموماً سرمائی ماہ میںیہ روایت رہی ہے کہ پونچھ وراجوری اضلاع کے تمام سنیئر سیاسی وسماجی لیڈران ، اپنے قوم وسماج کی تعمیر وترقی اور خوشحالی کا درد رکھنے والی معزز شخصیات سرمائی دارالحکومت جموں میں وقت گذارتے ہیں تاکہ کسی قسم کی مشکل درپیش نہ ہو کیونکہ آبائی گاو¿ں میں تو نومبر سے مارچ ماہ تک برقی رونایاب رہتی ہے ۔ بجلی پرچلنے والی مشینری بھی بندرہتی ہے، ایسے میں گرمی کا انتظام کرنابہت مشکل ہے۔بجلی کی غیر اعلانیہ طویل کٹوتی اور لوڈ شیڈنگ تو سال بھر کا مسئلہ ہے لیکن موسم سرما میں اس کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔برف باری اور بارش کی وجہ سے رابطہ سڑکیں بھی مسدود ہوکر رہتی ہیں جس وجہ سے بیشتر علاقہ جات تحصیل وضلع صدور مقامات سے کٹ جاتے ہیں، ایسے میں خدانخواستہ اگر کسی سیاستدان ، اور معزز شخصیات کے کے اہل خانہ میں سے کسی کو زکام یابخار کی شکایت ہوجائے توان کا علاج کرانا مشکل ہوجاتا ہے۔ غرض کہ ایسے درجنوں مسائل ہیں جن سے سرمائی ایام کے دوران خطہ پیرپنجال کی عوام کو گذرنا پڑتاہے لیکن سیاستدان انہیں مشکلات سے بچنے کیلئے صحیح سلامت جموں آجاتے ہیں جہاں پر آرام سے زندگی کے چند پل گذارتے ہیں، مگر اس مرتبہ چونکہ سیاسی کُرسی جس کی بدولت جموں میں آن، بان شان سے یہ حضرات رہتے ہیں، کا تسلسل برقرار رکھنے کے لئے انہیں رواں موسم سرما اپنے اپنے علاقوں میں مجبوراًلوگوں کے بیچ گذارنا پڑ رہاہے۔سردی اور دیگردکھ تکالیف بھی بردداشت کرنا پڑ رہی ہیں۔پونچھ راجوری میں سردی سے گر چہ عام لوگوں کے ہاتھ پاو¿ں تھرتھرکانپ رہے ہیں لیکن سیاستدانوں کے جسم سے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ اس وقت وہ بھول چکے ہیں کہ برف باری ہورہی ہے۔ پیدل چل رہے ہیں یاگاڑی پر ہیں کیونکہ اُن کی منزل مقصود اپنی کرسی کو بچانا ہے جس کے لئے دو تین ماہ میں وہ ہردکھ تکالیف برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں ۔خطہ کے سبھی سات اسمبلی حلقوں نوشہرہ،سندربنی، کالاکوٹ، کوٹرنکہ درہال،راجوری، مینڈھر، سرنکوٹ اور پونچھ حویلی میں سبھی سیاسی جماعتوں کے لیڈران خیمہ زن ہیں ، سلسلہ وار کھلے اور بندکمروں میں میٹنگیں جاری ہیں۔خفیہ میٹنگیں بھی ہورہی ہیں اور ظاہری بھی۔خطہ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ اگرچہ ظاہری طور پرہر کوئی لیڈربلا لحاظ ذات پات، رنگ ونسل متعلقہ اسمبلی حلقہ کی جامع ترقی کی باتیںکرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عملی طور ایسا ہوتا نہیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خطہ پیرپنجال میں انتخابات صرف ’گوجر پہاڑی ‘کے نام پر ہی لڑے جاتے ہیں۔یہاں پر ملکی وریاستی سطح پر چلنے والی سیاسی لہر کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔پچھلے سبھی انتخابات پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی ، سال 2014کو مودی لہر جس کے آگے بڑے بڑے لیڈران بہہ گئے ، کا اثر بھی اس خطہ پر نہیں پڑا۔’گوجر پہاڑی ‘لہر نے مودی لہر کو بھی مات دی۔1990کے بعد خطہ میں خاص طور سے اسمبلی کے جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، اُس میں گوجر پہاڑی سیاست کا ہی غلبہ رہا ہے اور ہرگذرتے دن کے ساتھ ساتھ اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ،زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اہم عہدوں پر پہنچنے والے ذی شعور افراد بھی اس سے بچ نہیں پائے اور بالآخر انہیں بھی ’گوجر پہاڑی‘کے خطوط پر ہی عملی مظاہرہ کرنا پڑ رہاہے، بلکہ اب تو اس کو’ ادارہ جاتی طریقہ سے ہر شعبہ میں پروان بھی چڑھایاجاچکاہے‘۔گوجر بکروال طبقہ کے رائے دہندگان اس حوالہ سے کافی منظم ومتحد ہیںجوکہ پونچھ راجوری کے سبھی سات حلقوں میں اقلیت میں ہونے کے باوجود کئی جگہوں سے کامیابی حاصل کر رہے ہیں، اُس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ صرف کسی ایک لیڈر کے حق میں ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔رشتہ داری، خاندانی ودیگر ہرطرح کے اختلافات کو ووٹ ڈالتے وقت بھلا دیاجاتاہے اور اپنے آدمی کو ہی ترجیحی ملتی ہے،وہ لاکھوں کی مالی مدد کے لئے تیار ہوجائیں گے لیکن کسی غیر گوجرکے حق میں ووٹ ڈالنا سمِ قاتل کے مترادف سمجھتے ہیں۔عوامی حلقوں کی مانیں تو سرنکوٹ، پونچھ، مینڈھر، راجوری، کالاکوٹ،درہال اسمبلی حلقوں اس طبقہ سے وابستہ دہندگان کی تعداد اوسطاًزیادہ سے زیادہ 35سے40فیصد کے درمیان ہے مگر اس کے باوجود خود اتفاق واتحاد کا مظاہرہ کر کے پہاڑی طبقہ کی نااتفاقی اور ان کی کمزوریوں کا فائیدہ اُٹھاتے ہیں۔ پہاڑی طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں اور عام لوگوںمیں یہ تاثر پایاجارہاہے کہ سیاسی اقتدار میں رہنے کی وجہ سے اب گوجر بکروال طبقہ کے سیاستدان ’سیاسی داو¿ بیچ‘بھی کافی حد تک سیکھ چکے ہیں، پچھلے چند سالوں سے انگریزوں کے فارمولہ”تقسیم کرو¿، حکومت کرو¿“پرکاربند ہیں۔اس وقت جس فارمولہ پر عمل کیاجارہاہے وہ ہر حلقہ سے پہاڑی طبقہ کے دو تین لیڈران کو چناو¿ میں کھڑا کرنے کیلئے تیار کرنا ہے جس کے لئے متعدد کو اچھی خاصی مالی امداد دینے کی بھی پیشکش ہے تاکہ اکثریتی رائے دہندگان تقسیم ہوجائیں اور نشست پر فتح حاصل ہو۔یہی حربہ حالیہ پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات کے دوران بھی اپنایاگیا ۔خاص طور سے پنچایتی انتخابات کے دوران تو اس حوالہ سے توانتہادرجہ کی ’سیاسی کھیل ‘کھیلا گیا ۔ذات برادری تک محدود اس خطرناک سیاسی کھیل میں عام آدمی مارا جارہاہے جس کے لئے گوجر وپہاڑی ہونے سے کہیں زیادہ دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا، اپنے بچوں کیلئے بہتر تعلیمی وطبی سہولیات کو یقینی بنانازیادہ اہم ہے، متاثر ہورہاہے۔خطہ کی مجموعی ترقی پر گرہن لگا ہے۔یہ تاثر بھی عام ہے کہ پہاڑی طبقہ سے تعلق رکھنے والے بیروکریسی ، سول اور پولیس انتظامیہ کے علاوہ مختلف محکمہ جات میں تعینات افسران بھی ”گوجر پہاڑی“سیاست کی بھاری قیمت چکانی پڑ ی ہے۔ جہاں ایکطرف گوجر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افسران کو پولیس اور سول انتظامیہ میں سیاسی پشت پناہی کی بدولت اہم جگہوں پر پوسٹنگ ملی تو وہاں اول درجہ کی قابلیت، ذہنیت اور اہلیت ہونے کے باوجود پہاڑی طبقہ کے افسران کو عوامی خدمت کا موقع نہیں دیاگیا اور ان کی پوسٹنگ غیر موزوں عہدوں پر ہی رہی جس سے عام لفظوں میں’کھڈے لائن‘لگانا بھی کہہ سکتے ہیں۔زمینی صورتحال اس طرح کی ہے کہ کسی بھی لیڈر کے لئے ایک طبقہ سے جیت بھی نہیں دی کی جاسکتی، اس میں سبھی کا رول ہونا ضروری ہے لیکن سال 2014یا اس سے قبل جوعوامی نمائندے منتخب ہوکر آئے، ان کے حوالہ سے عوامی حلقوں میںیہ تاثربھی پایاجارہاہے کہ ان کا ’قول وفعل‘اس طریقہ کارہاکہ جس طرح وہ پورے اسمبلی حلقہ کی نہیں بلکہ کسی خاص طبقہ کی نمائندگی کر رہے ہوں، جس کا بارہا مظاہرہ قانون سازیہ کے ایوانوں کے اندر اور باہر بھی ہوا۔کسی کو ذاتی طور فائیدہ دیاگیا ہوگا لیکن مجموعی طور کسی علاقہ یا طبقہ کے مفاد کی جب بات آئی تو وہاں پر اپنی ذات اور قبیلہ کو ترجیحی دیکر تنگ نظری کا ثبوت دیاگیا جس سے ایک مہذب ،ذی شعور اور دانشور طبقہ بھی ایسے الفاظ ادا کرنے پر مجبور ہے کہ ”وہ ہمارے خیر خواہ ہرگذ نہیں ہوسکتے“ ۔مینڈھر،سرنکوٹ، حویلی پونچھ، راجوری،کالاکوٹ اور درہال حلقوں میں اِن دنوں’تقسیم کرو¿ اور حکومت کرو¿‘کے فارمولہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مختلف سطحوں پرلائحہ عمل تیار کیاجارہاہے جہاں اکثریتی رائے دہندگان کی تقسیم کے لئے اُن کی کمزوریوں، خامیوں کا احاطہ کر کے روڈ میپ تیار کئے جارہے ہیں۔سیاسی جوڑتوڑ، خرید وفروخت، لین دین کے لئے ادبی، سماجی، مذہبی حلقوں سے قد آور شخصیات کی خدمات بھی حاصل کی جارہی ہیں۔ ایسی صورتحال سے کسی ایک طبقہ کو سیاسی طور کسی حد تک فائیدہ پہنچ سکتا لیکن مجموعی طور خطہ پیر پنجال کے اس پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، شاہد یہی وجہ ہے کہ ریاستی سطح کی سیاسی قیادت میں ہم اپنی اعتمادیت، وقار اور عزت کافی حدتک کھوچکے ہیں جس کا احساس ہمیں کابینہ کونسل کی تشکیل یا دیگر آئینی عہدوں پرتقرریاں عمل میں لاتے وقت بارہادلایاجاچکا ہے۔خطہ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اِ س طرح کی ’سیاست ‘کا متبادل چاہتا ہیں، عام لوگ بھی ایسا سوچتے ہیں لیکن ’ذات برادری پر‘مبنی سیاست کو جس طرح ادارہ جاتی شکل دی جارہی ہے، وہ لمحہ فکریہ ہے۔اونٹھ کس او رکروٹ بدلے گا، اس بارے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا……..!!۔
٭٭٭٭٭
نوٹ:مضمون نگار پیشہ سے صحافی اور وکیل ہے
ای میل:[email protected]
7006541602