بھگت سنگھ کیخلاف متنازعہ ریمارکس!

بھگت سنگھ کیخلاف متنازعہ ریمارکس!
کالج ٹیچرز ایسو سی ایشن پروفیسر تاج الدین کی حمایت میں!
معاملہ کی مناسب، غیر جانبدارانہ اور شفاف انکوائری کرانے کی مانگ
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//جموں یونیورسٹی کی ’کالج ٹیچرز ایسو سی ایشن ‘بھی شعبہ سیاسات کے پروفیسر تاج الدین کی حمایت میں سامنے آئی ہے جنہیںمبینہ طور پر مجاہد آزادی بھگت سنگھ کے لئے ’دہشت گرد ‘لفظ استعمال کرنے کی پادداش میں فی الحال ٹیچنگ سے دور رکھاگیاہے۔ اس معاملہ پر غوروخوض کے لئے ایسو سی ایشن جس کی میٹنگ پروفیسر ڈی ایس منہاس کی سربراہی میں منعقد ہوئی ، نے مطالبہ کیاکہ معاملہ کی مناسب ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انکوائری ہونی چاہئے اور معاملہ کو اسی سیاق وسباق میں لیاجانا چاہئے جس میں پروفیسر نے لیکچر کے دوران اپنے الفاظ استعمال کئے تھے۔ ایسو سی ایشن نے متعلقہ حکام سے اپیل کی کہ پہلے پروفیسر کے پورے لیکچر کا جائزہ لیکرکوئی فیصلہ لیاجائے اور آزادی اظہا ر رائے کو گزند نہ پہنچائی جائے ۔اس اہم ترین میٹنگ میں ڈاکٹر انیل گانجو، ڈاکٹر ایم ایس سینی، پروفیسر نرائین دت، ڈاکٹر ویشال شرما، ڈاکٹر جگجیت سنگھ، ڈاکٹر سنجے کوتوال، پروفیسر راکیش شرمااور ڈاکٹر دویندر کور نے شرکت کی۔کالج ٹیچر ایسو سی ایشن جموں یونیورسٹی کے پروفیسروں کی ایک مضبوط ترین تنظیم ہے۔ 29نومبر2018کوجموں یونیورسٹی کے شعبہ سیاسات میں پروفیسر تاج الدین لینن کی بائیو گرافی متعلق پڑھارہے تھے ، جس دوران ان کا25سیکنڈ کا ایک ویڈیوکلپ سوشل میڈیا پر وائرل کیاگیا جس میں کہاگیاکہ پروفیسر موصوف نے مجاہد آزادی اور محب وطن بھگت سنگھ کے لئے مبینہ طور دہشت گرد لفظ کا استعمال کیا۔ اس معاملے سے متعلق ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس کے بعد طلبا نے پروفیسر کی مخالفت کی اور وائس چانسلر سے اس کی شکایت کی۔وائس چانسلر پروفیسر منوج دھر نے اس پر کارروائی کرتے ہوئے پروفیسر کو فوری طور پر ٹیچنگ سے ہٹادیا اور شکایت کی بنیاد پر جانچ کمیٹی بٹھادی ۔ڈئین اکیڈمک افیئرز کیشو شرما کی قیادت میں انکوائری کمیٹی کو سات دنوں کے اندر رپورٹ پیش کرنی تھی لیکن جمعرات کو کمیٹی نے رپورٹ جمع کرنے کیلئے مزید وقت مانگا ہے۔تاج الدین جموں یونیورسٹی میں پچھلے 16برس سے سیاسات کے پروفیسر ہیں۔ اس معاملہ میں مقامی وملکی میڈیا میں کافی طول پکڑا جس پر موصوف نے صفائی بھی پیش کی۔ انہوں نے کہا”میں بھگت سنگھ کو انقلابی مانتا ہوں۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ملک کے لیے اپنی جان دی۔انہوں نے کہا کہ میں کلاس میں لینن کی بایو گرافی پڑھارہا تھا۔میری باتوں کو سیاق و سباق کے بغیر پیش کیا جارہا ہے۔ میں نے کہا تھا ملک اپنے خلاف ہونے والے تشدد کو دہشت گردی مانتا ہے۔اور اسی سلسلے میں بتارہا تھا کہ کس طرح اسٹیٹ بھگت سنگھ کو دہشت گرد بتاتا ہے۔میرا کوئی مقصد نہیں تھا کہ میں بھگت سنگھ کی عظمت کو کم کروں اور کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچاو¿ں۔ میرے اس دو گھنٹے کے لیکچر میں سے کسی نے ان 24 سکینڈ کا ویڈیو بنالیا ،جس میں دہشت گردی کا لفظ آیا تھا۔ لیکن اس کا وہ بالکل مطلب نہیں ہے جو میں کہنا چاہتا تھا۔اس کے باوجود کسی کو اس سے ٹھیس پہنچی ہے تو میں اس کے لیے معافی مانگتا ہوں۔اس معاملہ کے بعد تاج الدین کے لئے ایسا ماحول پید اہواکہ رہائش گاہ کے بعد میڈیا افراد کا تانتا بندھ گیا، ان کا باہر نکلنا بھی مشکل بنا دیاگیا۔ انہیں حدشہ تھاکہ ہجوم ان پر حملہ نہ کردے۔اگر چہ میڈیا کے ایک حلقہ نے تاج الدین کی اس بارے میں کافی تنقید کی لیکن پولیٹیکل سائنس کے طلبہ وطالبات اور سکالر پروفیسر تاج الدین کے حق میں ہیں جنہوں نے میڈیا میں بھی کھل کر اظہار کیاہے۔شعبہ سیاسات کے متعدد طلاب وسکالروں کے مطابق یہ معمول کی اکیڈمک بحث تھی لیکن معاملہ کو اتنا بڑھابنا دیاجائے گاانہوں نے سوچا بھی نہ تھا،کلاس روم کے اندر ڈراو¿نا سا ماحول ہے کہ کوئی کھل کر بحث بھی نہیں کرسکتا، ریکارڈنگ اس لئے کی گئی تھی کہ بہت سارے طلبہ کا معمول ہے کہ وہ دوبارہ لیکچرر کو سنتے ،وہ نہیں جانتے تھے کہ اس کو اس دوسر ے نظریہ سے لیاجائے گا“۔ جموں یونیورسٹی رجسٹرار میناکشی کلم کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ”پروفیسر تاج الدین معطل نہیں، صرف ٹیچنگ سے دور رکھاگیاہے، ہمیں شکایت موصول ہوئی تھی ، جس پر انکوائری چل رہی ہے۔ حتمی فیصلہ کمیٹی کی طرف سے رپورٹ پیش کرنے کے بعد ہی لیاجائے گا“۔جمعرات کے روز شام کو پولیس کی سخت حفاظت کے بیچ پروفیسر تاج الدین کو انتظامی عمارت میں انکوائری پینل کے سامنے پیش ہونے کے لئے لے جایاگیا، جس دوران یونیورسٹی کیمپس میں ایک گروپ جس میں اے بی وی پی کے کارکنان بھی شامل تھے نے ،انہیں گالیاں بھی دی ۔ایسا ماحول بناہواہے کہ یونیورسٹی میں ہرجگہ انہیں ’انٹی نیشنل‘کے نام سے پکارا جارہاہے۔

مجہ گنڈ میں خونین معرکہ آرائی
نوعمرجنگجوسمیت 3جاں بحق
جھڑپ میں نصف درجن مکانات تباہ
نیوزڈیسک
سرینگر//سری نگرکے ایک مضافاتی علاقہ مجہ گنڈبانڈی پورہ میں سنیچرکی شام محصورجنگجوﺅں اورفوج ،فورسزوایس اﺅجی اہلکاروں کے درمیان شروع ہوئی خونین تصادم آرائی اتوارکی صبح 3جنگجوﺅں کے جاں بحق ونصف درجن سیکورٹی اہلکاروں کے زخمی ہوجانے اورلگ بھگ نصف درجن رہائشی مکانات کے کھنڈرات میں تبدیل ہوجانے کے بعداختتام پذیرہوئی ۔اس دوران علاقہ میں انکاﺅنٹرمخالف مشتعل نوجوانوں اورپولیس وفورسزکے درمیان سنیچرکوشام دیرگئے تک سنگباری اورٹیرگیس گولوں کاتبادلہ ہواجبکہ جائے جھڑپ کی جانب مشتعل نوجوانوں کی پیش قدمی کوروکنے کیلئے پولیس وفورسزکوہوائی فائیرنگ بھی کرناپڑی جبکہ شہرخاص میں بھی سنیچرکی شام سنگباری اورٹیرگیس شلنگ کے واقعات رونماہوئے تھے ۔مجہ گنڈبانڈی پورہ میں جھڑپ شروع ہونے کے بعدہی حکام کی ہدایت پراس پورے علاقے میں موبائل انٹرنیٹ سروس منقطع کردی گئی تھی ۔اُدھرپولیس حکام نے لگ بھگ 18گھنٹے تک جاری رہنے والی جھڑپ کے دوران تین عدم شناخت شدہ جنگجوﺅں کے ازجان ہونے اور5سیکورٹی اہلکاروں کے زخمی ہوجانے کی تصدیق کی ۔ایڈیشنل ڈی جی پی لاءاینڈآرڈرمنیراحمدخان نے بتایاکہ تین مارئے گئے جنگجوﺅں کی شناخت کاکام جاری ہے تاہم انہوں نے کہاکہ ممکنہ طورپریہ جنگجولشکرطیبہ سے وابستہ تھے ۔انہوں نے بتایاکہ جھڑپ کے دوران کئی مکانات کونقصان پہنچنے کی ایک وجہ یہ رہی کیونکہ یہاں موجودمکان بدل بدل کرفائرنگ کرتے رہے۔تاہم غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق جاں بحق ہونے والے تین جنگجوﺅں میں حاجن بانڈی پورہ کا15سالہ نوجوان مدثررشیدبھی شامل ہے جوماہ لگ بھگ ڈیڑھ ماہ قبل ایک اورنوعمربلال احمدکے ہمراہ لاپتہ ہوجانے کے بعدجنگجوﺅں کی صفوں میں شامل ہواتھا،اورچندروزقبل ہی مدثررشیدکی بندوق لئے ایک تصویرسوشل میڈیاپروائرل ہوئی تھی۔ پولیس ذرائع نے بتایاکہ جنگجوﺅں کے موجودہونے کی مصدقہ اطلاع ملتے ہی سنیچرکی سہ پہرلگ بھگ 4بجے فوج کی5اور13آرآر،سی آرپی ایف کی 141ویں بٹالین ،ریاستی پولیس اوراسکے اسپیشل آپریشن گروپ سے وابستہ اہلکاروں نے گھاٹ محلہ مجہ گنڈبانڈی پورہ بستی کوچاروں اطراف سے محاصرے میں لیکرجنگجومخالف آپریشن شروع کیا۔مقامی لوگوں نے بتایاکہ سنیچرکی سپہر چاربجے فوج کی ایک بکتربندگاڑی اورفورسزکی دوسری کئی گاڑیاں یہاں اچانک نمودارہوئیں ،اورسیکورٹی اہلکاروں نے پورے علاقے کو مکمل طور پر سیل کیا جبکہ داخلی اورخارجی راستوں کو بند کرکے اضافی فوجی وفورسز اہلکاروں کویہاں تعینات کیا گیا۔مقامی لوگوں نے بتایاکہ محاصرے کی کارروائی مکمل ہونے کے بعدجب یہاں تلاشی کارروائی شروع کی گئی توایک مکان میں موجودجنگجوﺅں نے ممکنہ طورپرمحاصرہ توڑکرفرارہونے کی کوشش کے تحت سیکورٹی اہلکاروں پراندھادھندفائرنگ کردی ،اور جنگجوﺅں کے ابتدائی حملے میں فوج ،فورسزاورایس اﺅجی کے5 اہلکار زخمی ہوئے جنہیں فوری طور پر بادامی باغ کے فوجی اسپتال منتقل کیا گیا۔ پولیس ذرائع نے اسکی تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ فائرنگ کی زدمیں آکرزخمی ہونے والے اہلکاروں میں فوج کا ایک، سی آر پی ایف کا ایک اور ا سپیشل آپریشن گروپ کے3اہلکار شامل ہیں۔ذرائع نے بتایاکہ اس دوران یہاں نوجوانوں نے سڑکوں پرنکل کرسنگباری شروع کرکے جنگجومخالف آپریشن میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی ۔پولیس وفورسزاہلکاروں نے انکاﺅنٹرمخالف مظاہرین کومنتشرکرنے کیلئے ٹیرگیس شلنگ کی اورجب مشتعل نوجوانوں نے اسکے باوجودجائے جھڑپ کی جانب جانے کی کوشش کی توسیکورٹی اہلکاروں نے اُنھیں منتشرکرنے کیلئے ہوائی فائرنگ کردی تاہم اس دوران کوئی زخمی نہیں ہوا۔پولیس ذرائع کاکہناتھاکہ رات کی تاریکی بڑھنے کے ساتھ ہی فوج، فورسزاورایس اﺅجی اہلکاروں نے جنریٹروں سے روشنی کا انتظام کیا۔گولی باری کاسلسلہ جاری رہنے کے ساتھ ساتھ علاقے میں کئی دھماکوں کی گونج بھی سنائی دی،مقامی لوگوں میں خوف ودہشت کی لہردوڑگئی اورلوگ گھروں میں سہم کرہ گئے ۔مقامی لوگوں نے بتایاکہ دھماکوں کے بعدایک رہائشی مکان میں آگ نمودار ہوئی۔سیکورٹی ذرائع نے بتایاکہ گھاٹ محلہ مجہ گنڈمیں پھنسے جنگجومکان بدلتے رہے اوراس دوران فائرنگ کاسلسلہ بھی جاری رہا۔طرفین کے درمیان سنیچرکورات دیرگئے تک فائرنگ کاتبادلہ جاری رہا۔ ڈی آئی جی وسطی کشمیر وی کے بردھی نے سنیچرکی شام ذرائع ابلاغ کوبتایاکہ تصادم جاری ہے اور ابھی تک کسی جنگجو کی لاش بر آمدنہیں کی گئی ہے‘۔ ڈی آئی جی نے کہاتھا کہ ممکنہ طورپرمارے گئے جنگجوﺅں کی نشیں نکالنے کیلئے تلاشی آپریشن عمل میں نہیں لایاگیا کیونکہ رات کا وقت ہے، اس لئے محاصرہ رات بھر جاری رہے گا اور صبح تلاشی کارروائی انجام دی جائے گی۔سی آر پی ایف کے انسپکٹر جنرل روی دیپ سنگھ نے سنیچرکی شام کہاتھا کہ طرفین میں لگاتار فائرنگ ہورہی ہے۔دیپ سنگھ کاکہنا تھاکہ جنگجوﺅں کی نعشوں کو تلاش کرنے کا عمل رات کی تاریکی میں مناسب نہیں ہے اس لئے صبح تک آپریشن کو ملتوی کردیا گیا ہے۔مقامی لوگوں نے بتایاکہ پورے علاقے میں رات بھرروشنی رکھی گئی تاکہ جنگجوفرارہونے میں کامیاب نہ ہوں ۔انہوں نے کہاکہ رات دیرگئے تک وقفہ وقفہ سے گولیاں چلنے اوردھماکوں کی آوازسنائی دی ۔اتوارکے روزپولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایاگیاکہ اتوارکوعلی الصبح گھاٹ محلہ مجہ گنڈمیں جنگجومخالف آپریشن دوبارہ شروع کیاگیا۔بیان میں بتایاگیاکہ اتوارکی صبح بھی کچھ وقت تک گولیاں چلتی رہیں ۔تاہم فائرنگ کاسلسلہ رُک جانے کے بعدجب یہاں گولی باری کی زدمیں آکرنقصان زدہ مکانات کے ملبے کی تلاشی کارروائی عمل میں لائی گئی توالگ الگ مکانات کے ملبوں سے3جنگجوﺅں کی نعشوں اوراُنکے ہتھیاروں کوبھی برآمدکیاگیا۔پولیس بیان میں مقامی لوگوں پرزوردیاگیاکہ وہ تب تک جائے جھڑپ کے قریب نہ جائیں جب تک سیکورٹی اہلکاریہاں تلاشی کارروائی مکمل نہ کریں ۔بیان میں کہاگیاکہ مارے گئے تینوں جنگجوﺅں کی نعشوں کویہاں سے منتقل کیاگیاتاکہ اُنکی شناخت اوراُنکی تنظیمی وابستگی کاکام عمل میں لایاجاسکے ۔ایڈیشنل ڈی جی پی لاءاینڈآرڈرمنیراحمدخان نے کے این ایس کوفون پربتایاکہ تین مارئے گئے جنگجوﺅں کی شناخت کاکام جاری ہے تاہم انہوں نے کہاکہ ممکنہ طورپریہ جنگجولشکرطیبہ سے وابستہ تھے ۔انہوں نے بتایاکہ جھڑپ کے دوران کئی مکانات کونقصان پہنچنے کی ایک وجہ یہ رہی کیونکہ یہاں موجودمکان بدل بدل کرفائرنگ کرتے رہے۔انہوں نے کہاکہ سنیچرکورات دیرگئے آپریشن روکنے کی کئی وجوہات رہیں جن میں ایک وجہ یہ تھی کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ عام شہریوں کی زندگیوں کوکوئی گزندپہنچے ۔اس دوران غیرمصدقہ اطلاعات میں بتایاگیاکہ مجہ گنڈانکاﺅنٹرمیں مارے گئے جنگجوﺅں میں حاجن بانڈی پورہ کا15سالہ نوجوان مدثررشیدبھی شامل ہے جوماہ لگ بھگ ڈیڑھ ماہ قبل ایک اورنوعمربلال احمدکے ہمراہ لاپتہ ہوجانے کے بعدجنگجوﺅں کی صفوں میں شامل ہواتھا،اورچندروزقبل ہی مدثررشیدکی بندوق لئے ایک تصویرسوشل میڈیاپروائرل ہوئی تھی۔مقامی لوگوں نے بتایاکہ جھڑپ کے دوران کم سے کم پانچ رہائشی مکانات کوبارودبچھاکردھماکوں سے اُڑادیاگیاہے اوریہ سبھی مکانات کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے ہیں جبکہ مقامی لوگوں کے بقول کچھ مزیرمکانات کوبھی نقصان پہنچاہے۔

مقامی جنگجو کی ہلاکت
حاجن میں تشدد بھڑک اُٹھا
سرینگر//مجہ گنڈ سرینگر میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں حاجن بانڈی پورہ کے رہنے والے نو عمر جنگجو کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی حاجن ، سمبل اور اُس کے ملحقہ علاقوں میں تشدد بھڑک اُتھا۔ ہزاروں کی تعداد لوگ جنگجو کے آبائی گاﺅں پرے محلہ حاجن پہنچے اور وہاں پر اسلام و آزادی کے حق میں نعرے بازی کی۔ معلوم ہوا ہے کہ سیکورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان کئی مقامات پر شدید جھڑپیں ہوئیں جس دوران مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ٹیر گیس شلنگ کے ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ کی گئی ۔ خبر رساں ایجنسی یو پی آئی کے مطابق مجہ گنڈ سرینگر میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں 14سالہ جنگجو جس کی شناخت مدثر احمد پرے ساکنہ پرے محلہ حاجن کے بطور ہوئی کو ہلاک کرنے کی خبر پھیلتے ہی حاجن سے لے کر سمبل بانڈی پورہ تک پُر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ نمائندے کے مطابق دور دراز علاقوں سے لوگوں نے مقامی جنگجو کے آبائی گاﺅں پرے محلہ حاجن کی طرف پیش قدمی شروع کی جس دوران پورا قصبہ اسلام و آزادی کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ نمائندے کے مطابق حاجن اور اُس کے ملحقہ علاقوں میں سیکورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں جس دوران مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے بے تحاشہ ٹیر گیس شلنگ کے ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ کی ۔ ذرائع نے بتایا کہ فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پلیٹ چھروں کا بھی استعمال کیا جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ نمائندے نے بتایا کہ مقامی لوگ چودہ سالہ جنگجو کی نعش کی حوالگی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ادھر معلوم ہوا ہے کہ پرے محلہ حاجن بانڈی پورہ میں لوگوں کی تعداد کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ قصبہ میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی ہزاروں کی تعداد میں مرد و زن پرے محلہ حاجن کی طرف رواں دواں تھے۔نمائندے کے مطابق قصبہ میں حالات کشیدہ اور پُر تناﺅ تھے کیونکہ فورسز اہلکاروں نے نوجوانوں کو روکنے کیلئے جگہ جگہ کھار دار تار نصب کرکے امتناعی احکامات صادر کئے تاہم اس کے باوجود بھی لوگ پرے محلہ حاجن گاﺅں کی طرف رواں دواں تھے۔

ایک ماہ قبل لاپتہ ہوا
14سا لہ نو عمر جنگجو کون تھا
سرینگر//مجہ گنڈ سرینگر جھڑپ میں تین میں سے ایک جنگجو حاجن کا رہنے والا ہے اور اُس کی عمر 14سال ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ کمسن لڑکا ایک ماہ قبل لاپتہ ہو گیا اور گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر مدثر احمد پرے نامی جنگجو کی تصویر وائرل ہوئی ۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ 14سالہ لڑکے نے تصادم کے دوران سیکورٹی فورسز کو زبردست ٹکر دی۔ جے کے این ایس کے مطابق حاجن بانڈی پورہ کا رہنے والا نوجوان 14سالہ مدثر رشید پرے ولد عبدالرشید ساکنہ میر محلہ حاجن ایک ماہ قبل گھر سے لاپتہ ہو گیا اور بسیار تلاش کے باوجود بھی لڑکے کا کئی پر اتہ پتہ نہیں چل سکا۔ نمائندے کے مطابق والدین نے پولیس اسٹیشن میں گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کی تاہم کمسن بیٹا کئی اور ہی چلا گیا تھا کہ والدین کو بھی اس کی خبر نہ رہی ۔چار روز قبل مدثر رشید پرے نامی 14سالہ لڑکے کی سوشل میڈیا پر بندوق لئے تصویر وائرل ہو گئی جس کے بعد اس بات کی تصدیق ہوئی کہ لڑکے نے جنگجو تنظیم میں شمولیت اختیار کی ہے۔ سنیچر صبح گیارہ بجے کے قریب مدثر رشید پرے کے والدین میڈیا کے سامنے آئے اور اپنے لخت جگر کو واپس گھر آنے کی تلقین کی تاہم انہیں کیا پتہ تھا کہ اُن کا بیٹا دوسرے روز ہی سب کچھ چھور کر چلا جائے گا۔ مجہ گنڈ سرینگر میں سنیچر پانچ بجے کے قریب جھڑپ شروع ہونے کی خبر پھیلتے ہی سوشل میڈیا پر افواہیں گردش کرنے لگیں کہ نو عمر جنگجو مدثر رشید بھی جھڑ پ کے دوران پھنس کر رہ گیا ہے۔ حاجن سے لے کر مجہ گنڈ تک نوجوانوں نے سڑکوں پر آکر احتجاجی مظاہرئے کئے تاہم بقول مقامی لوگوں کے مدثر رشید پرے نامی نو عمر جنگجو نے سیکورٹی فورسز کو زبردست ٹکر دی ۔ مقامی ذرائع نے بتا یا کہ نو عمر جنگجو مسلسل سنیچر اور اتوار کے روز بھی سیکورٹی فورسز کے ساتھ نبرد آزما ہوا اور بالآخر فورسز کے ساتھ جھڑپ کے دوران جاں بحق ہوا۔ وادی میں نو عمر نوجوان کی جانب سے عسکریت پسند تنظیم میں شمولیت سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ شر پسندعنا صر کی جانب سے نو عمر لڑکے کو جنگجو تنظیم میں شمولیت کرنے پر آمادہ گیا ۔ چاہئے جو کچھ بھی ہو یہ بات المیہ سے کم نہیں کہ مجہ گنڈ جھڑپ کے دوران 14سالہ لڑکا جاں بحق ہوا اور اپنے پیچھے بوڑھے والدین کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چلا گیا ۔

کشمیرمسئلے کے حل میں فوج کامحدودرول
سیاسی گفت وشنیداوراچھی حکمرانی درکار
واجپائی کی کشمیرپالیسی کواپناناہوگا:لیفٹنٹ جنرل بھٹ
نیوزڈیسک
سرینگر// فوج کی 15ویں کورکے جنرل آفیسرکمانڈنگ لیفٹنٹ جنرل انیل کماربھٹ نے واضح کیاہے کہ کشمیرمسئلے کے حل میں فوج کارول محدودہے ۔انہوں نے کہاکہ فوج ملی ٹنسی کوختم کرسکتی ہے،دراندازی پرروک لگاسکتی ہے ،سنگباری کے واقعات پرروک لگانے میں رول نبھاسکتی ہے ،امن وامان کی صورتحال کوبہتربناسکتی ہے اورکسی حدتک فوج عوام کواعتمادبھی بحال کرسکتی ہے لیکن پائیدارامن اورکشمیرسے جڑے دیرینہ مسائل کاحل تلاش کرنے کیلئے سیاسی گفت وشنیدیعنی مذاکرات ،اچھی حکمرانی اورکشمیری نوجوانوں کے اذہان ورُجحانات کوبہترسمت دیناکیلئے اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔مانٹرینگ ڈیسک کے مطابق انگریزی روزنامہ ’سنڈے ایکسپریس ‘کودئیے ایک انٹرویومیں فوج کی چنارکارپس اورکشمیرمیں تعینات فوج کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل اے کے بھٹ نے کہاکہ مسئلہ کشمیرحل کرنے میں فوج کاایک محدودرول ہے اورجوکچھ کرناہے وہ سیاسی لیڈرشپ کوہی کرناہے۔انہوں نے کہاکہ کشمیری نوجوانوں میں ملی ٹنسی یاسنگباری کارُجحان بڑھانے میں سوشل میڈیاکارول ہے کیونکہ سوشل میڈیاکے ذریعے ہی نوجوانوں کوگمراہ کرکے خطرناک راستوں پرچلنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔لیفٹنٹ جنرل بھت کاکہناتھاکہ کشمیرمیں نوجوانوں کوبنیادی پرستی کی جانب راغب کرنے کی کوشش آرپارسے ہورہی ہے ۔کچھ لوگ یہاں سرگرم ہیں اوربہت سارے لوگ سرحدپارسرگرم ہیں جوکشمیری نوجوانوں کے اذہانات اوررُجحانات پرقابوپانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں فوج کے اعلیٰ کمانڈرکاکہناتھاکہ کشمیرمسئلے کاحل تلاش کرنے اوریہاں پائیدارامن کویقینی بنانے کیلئے سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہاکہ سیاسی عمل ،اچھی حکمرانی اورمذاکرات کے ذریعے کشمیرمسئلے کاھل نکالاجاسکتاہے ۔لیفٹنٹ جنرل اے کے بھٹ نے کشمیرکے حوالے سے واجپائی کی پالیسی اپنانے کی وکالت کرتے ہوئے کہاکہ سابق وزیراعظم کے دورمیں جس طرح کی پالیسی اپنائی گئی تھی ،وہی کچھ کرنے کی اب بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ واجپائی جی کے دورمیں جس طرح سے کشمیریوں کیساتھ مذاکرات کئے گئے تھے اوراعتمادسازی کے اقدامات بھی ساتھ ساتھ روبہ عمل لائے گئے ،اُسی طرح اب بھی ویساکرنے کی ضرورت ہے ۔لیفٹنٹ جنرل بھٹ نے اس اُمیدکااظہارکیاکہ موجودہ مرکزی سرکاربھی موزون وقت پر واجپائی کی کشمیرپالیسی کواپنائے گی ۔انہوں نے کہاکہ ایک ایسی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے کہ کشمیرمیں خون خرابہ بندہوجائے ،کشمیری نوجوان بہترسوچ سکیں ،عام لوگوں کااعتمادبحال ہو۔فوج کی پندرہویں کورکے سربراہ کامزیدکہناتھاکہ سرحدپارایسے عناصرسرگرم ہیں جوکشمیرمیں ملی ٹنسی ،سنگباری اورتشددکی دیگرسرگرمیوں کوبڑھاناچاہتے ہیں ،اورہمیں ایسے عناصرکی سازشوں کوناکام بناناہوگاجسکے لئے سیاسی اقدامات درکارہیں ۔انہوں نے کہاکہ ہمیں کشمیری عوام بالخصوص یہاں کے نوجوانوں کوبتانااورسمجھاناپڑے گاکہ اُن کامستقبل کہاں محفوظ اورتابناک ہے ۔ہمیں کشمیریوں کویہ بتایاپڑے گاکہ اُن کیلئے پاکستان سے کہیں زیادہ بھارت بہترہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں کشمیریوں کویہ بھی سمجھاناپڑیگاکہ آزادی کی باتیں کرنے والے پاکستان کے ایجنٹ ہیں اوراُن کاعام لوگوں کودرپیش مشکلات سے کوئی لینادینانہیں ۔ لیفٹنٹ جنرل اے کے بھٹ نے کہاکہ کشمیرحل کے حوالے سے لوگوں کی الگ الگ رائے ہوسکتی ہے لیکن جب سبھی لوگ ایک میزپرآجائیں گے توایک متفقہ حل کوتلاش کیاجاسکے گا۔انہوںنے مزیدکہاکہ فوج یہ کام یہ بتانانہیں کہ کشمیرمسئلے کاکیاحل ہے بلکہ یہ توسیاسی لیڈرشپ کاکام ہے اورفوج کاکام صرف امن بحال کرنانیزامن مخالف گروپوں یاعناصرکوکچلناہے اوریہ کام فوج گزشتہ کئی دہائیوں سے انجام دیتی آرہی ہے۔انہوں نے کہاکہ فوج دراندازی کوروک سکتی ہے جیساکہ امسال سرحدپرلگ بھگ پچاس جنگجواسپارداخل ہونے کی کوششوں کے دوران مارے گئے ۔تاہم انہوں نے انکشاف کیاکہ رواں برس لگ بھگ ایک سوجنگجوسرحدپارسے جموں وکشمیرمیں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے ۔انہوںنے نوجوانوں میں ملی ٹنسی کے رُجحان کوایک بڑاچیلنج قراردیرتے ہوئے کہاکہ ہمارے لئے یہ فکرکامعاملہ ہے کہ نوجوان مقامی سطح پرہی سرگرم ہوجاتے ہیں جوکوئی اچھی علامت نہیں ۔فوج کے اعلیٰ کمانڈرنے بتایاکہ یہی وجہ ہے کہ امسال 200سئے زیادہ جنگجوﺅں کومارنے کے باوجودبھی ابھی مزید200جنگجوسرگرم ہیں ۔

دشمن نے ناپاک حرکت کی
تو پھرہوگی سرجیکل اسٹرائیک: ڈپی آرمی چیف
نئی دلی // لیفٹیننٹ جنرل انبو نے میڈیا سے کہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے اگردہشت گردانہ سرگرمیوں کوبند نہیں کیا گیا تو ہندوستانی فوج دوبارہ سرجیکل اسٹرائیک کرسکتی ہے۔پاکستان کی طرف سے اگردہشت گردانہ سرگرمیوں کو بند نہیں کیا گیا تو ہندوستانی فوج دوبارہ سرجیکل اسٹرائیک کرسکتی ہے۔ ڈپٹی آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل دیوراج انبو نے کہا ہے کہ اگرضرورت پڑی توفوج ایک اورسرجیکل اسٹرائیک کرنے سے نہیں ہچکچائے گی۔ہفتہ کو انڈین ملیٹری اکیڈمی میں پاسنگ آوٹ پریڈ کی سلامی لینے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل انبو نے میڈیا سے کہا “ہماری فوج سرحد پردہشت گردانہ ٹھکانوں پرسرجیکل اسٹرائیک کرکے اپنی طاقت کا احساس پہلے ہی کراچکی ہے اوراگرشترو نے ہمیں چیلنج دیا تو ہم دوبارہ ایسا کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے”۔فوجی اہلکاروں میں خواتین کو لڑاکوکرداردینے کے سوال پرڈپٹی آرمی چیف نے کہا اس متعلق مختلف پہلووں پرغوروخوض کیا جارہا ہے کیونکہ پاکستان اورچین سے متصل سرحدوں پرحالات ملک کے باقی حصوں سے کافی الگ ہیں۔ آئی ایم اے میں ہفتہ کوہوئی پی اوپی میں سات دوست ممالک کے 80 کیڈٹوں سمیت کل 427 کیڈٹ پاس ہوئے