مسئلہ کشمیر حل کے لئے ’عدم تشدد تحریک‘زیادہ موثر

مسئلہ کشمیر حل کے لئے ’عدم تشدد تحریک‘زیادہ موثر
خطہ پیر پنچال کو متحد کرنے کیلئے چوہدری غلام عباس جیسی دور اندیش شخصیت کی ضرورت

امن عمل اور ترقی میں خواتین کا رول ناگزیر، ان کو بھی کشمیر کاز میں اہم حصہ دار تصور کیاجائے

پنچایتی وبلدیاتی انتخابات غیر سیاسی بنیادوں پر ہونے چاہئے

جموں وکشمیر ریاست میں پر آشوب ماحول سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوئیں

سفینہ بیگم کافی عرصہ سے سیاست میں سرگرم عمل ہیں ۔سال 2018میںپیپلز ڈیموکریٹک خواتین ونگ صدر کی ذمہ داری سونپے جانے سے قبل وادی کشمیر کے چند اسمبلی حلقوں میں انہوں نے پارٹی کے لئے پس پردہ کافی کام کیا۔ سفینہ بیگم جوکہ سابقہ نائب وزیر اعلیٰ اور موجودہ رکن پارلیمان مظفر حسین بیگ کی اہلیہ ہیں، کا اپنے خاوند کی سیاسی کامیابی میں اب تک اہم رول رہاہے۔ٹائمز ٓاف انڈیا ‘کی طرف سے ریاست جموں وکشمیر کی مختلف خواتین کو نمایاں کارکردگی کے لئے منتخب کیاگیا ہے جس میں ’سیاست ‘سے سفینہ بیگم ایوارڈ کے لئے نامزد کی گئی ہیں۔ان سے اڑان کے سنیئرسب ایڈیٹر الطاف حسین جنجوعہ نے ریاست جموں وکشمیر کی سیاسی صورتحال خاص طور سے خواتین متعلق تفصیلی انٹرویو کیا، پیش ہیں اس میں سے چند اقتباسات۔

سوال:جموں وکشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ محبوبہ مفتی خاتون وزیر اعلیٰ رہیں، خواتین کو ان سے کافی امیدیں وابستہ تھیں۔ بطور وزیر اعلیٰ اس حوالہ سے محبوبہ مفتی کے نمایاں کام کیا رہے؟
جواب: سب سے پہلے میں یہ کہہ دوں کہ وزیر اعلیٰ ایک انسٹی چیوٹ ہوتا ہے ۔ عورت مرد کی بات نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ سب کے لئے وزیر اعلیٰ ہوتی ہے لیکن محبوبہ جی ظاہر سی بات ہے کہ عورت تھیں، اس لئے خواتین طبقہ کو ان سے زیادہ اُمیدیں وابستہ تھیں۔خاص طور سے خواتین کی فلاح وبہبودی کے لئے محبوبہ مفتی جی نے بطور وزیر اعلیٰ ’لاڈلی بیٹی‘، اسکوٹی اسکیم، غریب بچیوں کو شادی کے لئے مالی معاونت، خواتین کے لئے نئے پولیس تھانے اور سیل کا قیام عمل میں لایا۔سرکاری ونجی سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین کے لئے ایک سازگار ماحول تیار کرنے اور انہیں جنسی زیادتیوں سے بچانے کے لئے کئی اقدامات اُٹھائے لیکن جوسب سے بڑھ کر محبوبہ جی نے تاریخ ساز کام کیاوہ تھا خواتین کو ’اسٹاپ ڈیوٹی ‘سے مستثنیٰ رکھنا تھا، اب غیر منقولہ جائیداد خریدتے وقت خواتین کو صفر فیصد اسٹاپ ڈیوٹی دینا پڑے گی۔ اس سے نہ صرف خواتین اقتصادی طوربااختیارہوں گیں بلکہ ان میں احساس تحفظ بھی پیدا ہوگا۔یہاں میں ایک بات کا اضافہ کرنا چاہوں کہ سابقہ پی ڈی پی۔ کانگریس مخلوط حکومت میں جناب مظفر حسین بیگ صاحب جوکہ اس وقت وزیر قانون وانصاف تھے، نے خواتین کو سیاسی ریزرویشن دینے کے لئے ایک قانون بنایاتھا، اُس وقت چونکہ سونیا گاندھی مرکز میں یوپی اے قیادت والی حکومت کی چیئرپرسن تھیں، نے کہاکہ پہلے وہ یہی قانون پارلیمنٹ میں لائیں گی اس کے بعد جموں وکشمیر ریاست میں ،لیکن بعد میں حکومت گر گئی اور یہ بل طوالت کا شکار ہوگیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ محبوبہ مفتی صاحبہ کو یہ قانون لانا چاہئے تھا، اس سے یہ پتہ چل جاتا کہ خواتین کو سیاسی طور بااختیار بنانے کے لئے جوجماعتیں دعویٰ کرتی ہیں، وہ عملی طور کتنا مخلص ہیں۔یہ حزب اختلاف جماعتوں کے لئے ایک ٹسٹ ہوتا اور ان یہ معلوم ہوجاتاکہ یہ صرف سیاسی نعرہ تھا یا وہ مخلص تھے۔ خیر شاہد محبوبہ مفتی کے ذہن میں یہ تھا لیکن جلد حکومت گرنے کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرسکیں۔
سوال:جموںوکشمیر ریاست میں ملکی یا عالمی سطح کی نسبت سیاسی نظام میں خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے ۔ ریاست خاص طور میں تو کشمیر میں خواتین کی مین اسٹریم سیاست میں دلچسپی نہ کے برابر ہے ، تو بطور پی ڈی پی خواتین ونگ کی سربراہ آپ کی کیا ترجیحات رہیں گیں؟
جواب:میری ترجیحات ظاہر سی بات ہے کہ میرا فوکس عورتوں پر رہے گا، میں ایک سیاسی کارکن اور ورکرر کے طور کام کرو¿ں گی۔ عورتوں کا جہاں تک سیاسی نظام میں آنے کی بات ہے تو خاص طور سے ہماری ریاست جموں وکشمیر میں باقی ریاستوں کے مقابلہ مشکل ہے۔ آپ کشمیر کی سیاست کو جانتے ہیں کہ وہاں مین اسٹریم سیاست کومرد حضرات جوپڑے لکھے اور باشعور ہیںوہ بھی آنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ اس مقابلہ میں خواتین کے لئے ظاہر سی بات ہے زیادہ مشکل ہوجاتاہے۔ کیونکہ کچھ لوگوں کی سوچ ہے ، جبکہ اکثریت یہ سوچ نہیں رکھتے ، کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ مین اسٹریم میں آنے سے الیکشن لڑنے سے کشمیر کا جومسئلہ ہے اس پر اثرپڑتاہے ، وہ Diluteہوجاتاہے۔ یہ ان کی بالکل غلط سوچ ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر ایک الگ چیز ہے اور کشمیر کے مسائل الگ ہیں۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ کشمیر خاص طور سے ہماری ریاست جن پرُآشوب ماحول’Turmoil‘ سے گذری ہے، اس کاUltimate victimسب سے زیادہ عورت ہوئی ہے چاہئے وہ جذباتی، جسمانی یانفسیاتی طور ہو لیکن بدقسمتی سے اس طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ کسی نے اس کی مشکل وپریشانی کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ میری سوچ یہ ہے کہ وقت آگیاہے کہ اتنے وقت سے جوہم Sufferکر رہے ہیں ۔ عورتوں کو اس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا ایک بہت بڑا رول صرف سیاست میں ہی نہیں بلکہ قیام امن میں بھی بنتا ہے۔ عورت کا خاندان پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے چاہئے وہ بہن ، ماں، بیوی، بیٹی کے رو پ میں ہو۔ جوکردار عورت کے خاندان ہوتا ہے وہ اس کے بچے پر بھی ہوتا ہے۔ عورت امن میں بڑا رول نبھا سکتی ہے، اس لئے خاتون کو بھی اس کا حصہ بنایاجانا چاہئے۔ خواتین ریزرویشن بل رواں مونسون سیشن کے دوران کانگریس پارلیمنٹ میں لارہی ہے، این ڈی اے کو چاہئے کہ اس کو سپورٹ کرے۔ جواچھی چیز ہے اس کی ہمیں حمایت کرنی چاہئے، ہمیں اس کو سیاسی آنا اور سیاسی کریڈٹ لینے کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ یہ بل این ڈی اے حکومت کے لئے ایک امتحان بھی رہے گاکہ وہ خواتین کو بااختیار بنانے کی جوبات کرتی ہے، اس میں کتنا دم خم ہے۔ وزیر اعظم اگر اس حوالہ سے سیاسی عزم رکھتے ہیں تو انہیں حمایت کرنی چاہئے۔ یہاں ایک بات کا اضافہ کرنا چاہوں گی کہ ہمسایہ ممالک ہم سے ہرلحاط سے کافی پیچھے ہیں، ہمارے ملک کا جمہوری نظام پڑوسی ممالک کے مقابلہ ٹھیک ہے ،مگرجہاں تک خواتین کو سیاسی نظام میں نمائندگی دینے کی بات ہے، ہمارا ملک کافی پیچھے ہے۔ بنگلہ دیش، نیپال، پاکستان میںخواتین سیاسی طور زیادہ بااختیار ہیں۔ پاکستان میں 17/18فیصد سینٹرزخواتین ہیں۔ سعودی میں بھی اچھی نمائندگی ہے۔ عالمی سطح پر خواتین کی نمائندگی22 فیصد ہے جبکہ یہاں ر راجیہ سبھا ، لوک سبھا میںبہت کم نمائندگی ہے۔ ہم ابھی کمزور طبقہ میں آتے ہیں، آئین ہند کے تحت خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے باقاعدہ قواعد وضوابط اور گنجائش ہے، اسی کے تحت ہم کم سے کم 33فیصد نمائندگی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ آئین ہند کی 73ویں اور 74ویں ترامیم کی عمل آوری کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم خواتین کو کم سے کم بھی نمائندگی نہیں دے رہے تو یہ 50فیصد انسانی وسائل’Human Resource‘کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔اس بل پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ کسی کو کریڈٹ لینے کی ضرورت نہیں۔
سوال :آپ سال 2002سے سیاست میں سرگرم ہیں، اب تک کا سیاسی سفر کیسا رہا اور کوئی اہم ذمہ دارنہ ملنا یالینے کی کیا وجوہات رہیں؟
جواب :بیگ صاحب سے بہت زیادہ متاثر ہوں، بہت ساری چیزیں اِن سے سیکھی ہیں، جوچیزیں ان سے سیکھیں ہیں آج کی سیاست میں اس سے آپ کو متاثر بھی بہت ہونا پڑتاہے لیکن ایک اطمینان ہے ، اگر ہم زیادہ لوگوں کو فائیدہ نہیں پہنچا سکے لیکن کوشش کی جتنا ممکن ہوسکے ، لوگوں کی فلاح بہبودی کے لئے کرو¿ں۔ اگر کسی کو فائیدہ نہیں پہنچایاتو کم سے کم اس کا نقصان ہرگز نہیں کیا۔ بیگ صاحب کے انتخابات میں میرا براہ راست رول رہاہے۔ لوگوں سے وابستگی رہی ہے، اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کے حساب سے جتناممکن ہوسکا کیا۔ ہاں جہاں تک سامنے آنے کا مطلب ہے تو وہ کوئی عہدہ یا ذمہ داری لینا ہے۔ اسی سال مجھے پی ڈی پی خواتین ونگ سربراہ کی ذمہ دار دی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں میں جاو¿ں ، ان کے مسائل ومشکلات سنوں۔ ہاں میری لوگوں کے ساتھ وابستگی تو پہلے سے ہی تھی لیکن یہ چند اسمبلی حلقوں تک محدود تھی، اب پوری ریاست کے لوگوں خاص طور سے اپنی بہنوں کے پاس جاو¿ں، ان کے مسائل ومشکلات سننا چاہتی ہوں۔ میری کوشش رہے گی کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو سیاسی طور باشعور بنایاجائے ۔انہیں یہ احساس دلایاجائے کہ ریاست کی تعمیر وترقی، خوشحالی اور قیام امن اور امن وامان کی بحالی میں ان کا بھی اہم رول ہے۔میری یہ بھی کوشش رہے گی کہ تعلیم یافتہ نوجوان خواتین کو سماجی، سیاسی، تعلیمی اور اقتصادی طور باشعور بنایاجائے، اس کے لئے ریاست بھر میں ہم پروگرام کریں گے۔
سوال:وادی کشمیر کے حالات بارے آپ کی رائے؟
جواب :جس سماج میں تشدد ہے، اس کا نہ صرف سماجی تانا بانابکھر جاتاہے بلکہ انسانیت ختم ہوجاتی ہے۔ روایات، احساسات، جذبات نہیں رہتے۔اخلاقی پن متاثر ہوتا ہے۔روایات واقدار پامال ہوجاتی ہیں۔تشدد صرف تباہی لاتا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ اگر کشمیر میں ’عدم تشدد تحریک ‘ چلائی گئی ہوتی تو عالمی سطح کی توجہ کشمیر کاز کے تئیں ہم زیادہ مبذول کرانے میں کامیاب ہوتے ۔تاریخ اسلام اور پیغمبر حضرت ﷺ کی حیات ہمارے لئے مشعل راہ ہے کہ کس طرح انہوں نے ’عدم تشدد‘کا راستہ اختیار کر کے ہرجگہ کامیابی حاصل کی۔ میں سمجھتی ہوں کہ تشدد کا راستہ ترک کر کے ہمیں’عدم تشددتحریک‘چلانی چاہئے۔
سوال:بھاجپا کے ساتھ حکومت گرنے کے بعد پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اندورنی انتشار کا شکار ہے، کئی ممبران قانون سازیہ نے ’خاندانی راج‘کے الزامات لگائے ہیں اور اس حوالہ سے وہ میڈیا کے سامنے بھی آئیں، آپ کیا سمجھتی ہیں کہ اس کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟
جواب :دیکھئے خاندانی راج تو زندگی کے ہرشعبہ جات میں ہے ، جیسے انجینئر کا بیٹا انجینئر، ڈاکٹرکابیٹا ڈاکٹر، تاجر، وکیل وغیرہ مگر’خاندانی راج‘کو زیادہ صرف سیاست میں ہی اچھالاجاتاہے، اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ کوئی نجی پیشہ صرف کسی کنبہ یا خاندان تک محدود ہوتا ہے جبکہ سیاست ایک وسیع تر ہے، اس کے ساتھ بہت لوگ جڑے ہوتے ہیں، جماعت کو بنانے میں ان سب کا کہیں نہ کہیں رول ہوتاہے۔ اگر کوئی ورکر اس جماعت کو بنانے میں اپنا رول ادا کرے، جی جان سے 10/15برس دیتا ہے، اس کی اپنے علاقہ میں پہچان ہے، اس کو نظر انداز کیاجائے تو یہ زیادتی ہے۔1996میں محبوبہ مفتی نے پہلا الیکشن لڑا، اپنے والد مرحوم مفتی محمد سعید کے ساتھ مل کر دن رات محنت کی، زندگی کے اہم ترین دن عوامی خدمت میں دیئے۔ ان پر آپ خاندانی راج کے الزامات نہیں لگاسکتے ، لیکن ناراضگی کب شروع ہوتی ہے جب آپ اوپر سے کسی کو لاتے ہویعنیPara Shootکی طرح تو پھر سیاسی ورکر کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اس کی اہمیت نہیں۔ ’پیرا شوٹ ‘کی طرح آنے والے کو اہم پوزیشن دینا، اہم عہدوں پر مسلط کردینا، ورکر قبول نہیں کرتا۔ اس کو ورکراپناتاہی نہیں۔ اس سے دوریاں بڑھنا شروع ہوجاتیں۔ ہرسیاسی جماعت میں پالیسی ساز وںکی ضرورت ہوتی ہے، ان کا پارٹی کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا ہوتا ہے، جیسے ماہر معاشیات، ماہرین قانون دان، انتظامی امور کے ماہر لیکن ان کا رول محدود ہونا چاہئے۔ ان کی اپنی اہمیت ہونی چاہئے لیکن ان کو اہم عہدوں پر مسلط کر کے عام ورکروں کو یہ پیغام نہ دیاجائے کہ یہ لوگ ان سے زیادہ طاقتور ہیں یا انہیں ان کے تابع کر دیاگیاہے۔ ایسے لوگ کچھ عرصہ کے لئے منسٹر رہتے ہیں، شہرت بٹورتے ہیں، اپنے کوائف میں ایک اور Fameکا اضافہ کرتے ہیں لیکن کچھ عرصہ کے بعد اس کی کوئی پہچان نہیں رہتی۔عام لوگ اس کو اقتدار جانے کے بعد کسی بھی صورت میں تسلیم نہیں کرتے۔ جب جماعت کا محنت کش، دیانتدار، عوام سے جڑاہوا وکرر نظر انداز ہوتا ہے تو خاندانی راج کے الزامات لگتے ہیں وہ چاہئے کوئی بھی سیاسی پارٹی کیوں نہ ہوں لہٰذا ہونا ایسا چاہئے کہ پیراشوٹ کے ذریعہ ہم اگر کسی کو لاتے بھی ہیں تو اس کا رول محدود ہونا چاہئے، اس کو عام لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔لوگوں سے جڑے اور پارٹی کو بنانے میں اہم رول اداکرنے والے ورکر کی کبھی بھی حوصلہ شکنی نہ کی جائے۔
سوال:سرحدی اضلا ع راجوری پونچھ کی سیاسی اور تعمیر وترقی میںپسماندگی کی کیا وجہ ہے؟
جواب :راجوری پونچھ کی عوام کو ِ خاص طور سے نوجوانوں کو میرا یہ پیغام ہوگاکہ وہ غلطی نہ دوہرایں جوہمارے بزرگوں سے جانے انجانے میںسرد ہوگئی۔ پیرپنچال میں جب تک اتفاق واتحاد نہیں ہوتا ، تب تک ترقی نہیں ہوسکتی۔ راجوری پونچھ میں ذات، پات کی گندی سیاست کے خاتمہ کے لئے مرحوم چوہدری غلام عباس جیسے دانشور اور سیاسی بصیرت والی شخصیت کی ضرورت ہے جنہیں پہاڑی اپنا لیڈر اور گوجر اپنا لیڈر تصور کرتے تھے۔ چوہدری غلام عباس کے اسی غیر جانبدارانہ رویہ اور عوامی مقبولیت سے کچھ لیڈران کو سیاسی خطرہ محسوس ہوا جنہوں نے انہیں یہاں سے ملک بدر کرا دیا۔ اِنہیں لوگوں کی طرف سے پھیلاے گئے ذہر کی وجہ ہے یہ عام کو گوجر، پہاڑی اور کشمیری کے نام پر تقسیم درتقسیم کیاگیا۔ پسماندگی کسی مذہب، کسی زبان میں نہیں آتی، غربت سب کے لئے برابری ہوتی ہے، ہرکوئی اس سے متاثر ہوتا ہے۔ آپسی رنجشیں، مرنے اور مارنے کی جوباتیں کرتے ہیں وہ لوگوں کے دشمن ہیں۔ جن لوگوں نے گوجر پہاڑی کو تقسیم کرنے کی ساز ش کی تھی، انہیں تاریخ کبھی معاف نہیں کریگی، انہیں کے مذموم عزائم کی وجہ سے یہ نفرت نسل درنسل چلتی آرہی ہے۔تقسیم برصغیر ہند کی وجہ سے سب سے زیادہ جموں وکشمیر کی عوام متاثر ہوئی ہے اور ریاست کے اندر سب سے زیادہ کسی طبقہ کو نقصان ہوا ہے تو وہ پہاڑی اور گوجر طبقہ ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ اس نقصان کی بھرپائی کے لئے سبھی مل کر کام کرتے لیکن ذات برادری کی تقسیم نے اس خطہ کو کافی پسماندہ کیا، نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اس روایتی سیاست کو ترک کر دیں۔
سوال:جون ماہ میں حکومت گرنے کے بعد سے پی ڈی پی لیڈران نے تمام ترسیاسی سرگرمیاں معطل رکھی ہیں کیوں؟
جواب :جس طرح سے حکومت گری ، سنیئرلیڈران ا س کا محاسبہ کر رہے ہیں، ایک لائحہ عمل طے کیاجارہاہے، اپنی تمام غلطیوں، حصولیابیوں اور کامیابیوں کا احاطہ کیاجارہاہے، اس کے بعد عوام کے سامنے جائیں گے۔
سوال :گورنر انتظامیہ نے پنچایتی وبلدیاتی اداروں کے انتخابات کرانے کا عمل شروع کیا ہے، اس کے ساتھ ہی سیاسی جماعتیں بھی سرگرم ہوگئی ہیں، کیا سیاسی بنیادوں پر انتخابات کرانا صحیح ہوگا؟
جواب:پی ڈی پی کا اس حوالہ سے کیا موقف ہوگا، اس میں کچھ نہیں کہہ سکتی البتہ میری ذاتی رائے ہے کہ پنچایتی اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات غیر سیاسی بنیادوں پر ہونے چاہئے۔ ان اداروں کو اگر سیاست کا شکار بنایاگیا تو مجھے حدشہ ہے کہ یہ عمل پورا نہیں ہوپائے گا جوکہ ہونا ضروری ہے۔ ان اداروں کے فعال ہونے سے مقامی سطح پر لوگ مالی، انتظامیہ اور عدالتی طور بااختیار ہوجائیں گے اور ان کے مسائل ومشکلات تیزی سے حل ہونا شروع ہوجائیں گے، غیری سیاسی بنیادوں پر جمہوریت کے ان بنیادی اداروں کے چناو¿ ہونے چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شرکت کریں۔
سوال:’پولر آئزیشن‘سیاست سے جموں وکشمیر کو کتنا نقصان ہوا؟
جواب:بدقسمتی ہے کہ ہم ٹیکنالوجی میں کافی ایڈوانس ہوتے جارہے ہیںلیکن ویژن اور علم وعمل میں پسماندہ ہوتے جارہے ہیں۔ہمارا ملک ایک گلدستہ کی مانند ہے جس میں ہندو¿ بھی ہیں، مسلم، سکھ عیسائی یعنی کہ ہر کسی کے مذہب ، رنگ ونسل کے لوگ یہاں رہتے ہیں۔ مذہبی بنیادوں پر تقسیم اور نفرت کسی بھی لحاظ سے ہمارے مفاد میں نہیں۔ جولوگ سیاسی ووٹ بنک کی خاطرحالات کو’پولر آئزیشن‘کرنے کی کوشش کر رہے ہیںوہ صحیح معنوں میں ملک وقوم کے دشمن ہیں۔ جموں وکشمیر ریاست کے تین خطے لداخ، کشمیر اور جموں ہیں،تینوں کی خواہشات، مطالبات، جذبات واحساسات اور عقائد میں فرق ہے۔، الگ الگ سوچ رکھنے والے لوگ ہیں۔ تینوں خطوں کے لوگوں کے جذبات، خواہشات او توقعات کا احترام کرتے ہوئے ہمیں انہیں ایک ساتھ جوڑے رکھنے کی ضرورت ہے۔ جوانہیں الگ کرنے کے ایجنڈا پر تلے ہیں ، وہ کسی بھی لحاظ سے لوگوں کے دوست نہیں ہوسکتے اور عوام کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہئے۔
سوال:کیا پی ڈی پی تین سالوں کے دوران اپنے انتخابی منشور اور ایجنڈ آف الائنس میں شامل اپنے مطالبات /امور کو پورا کرنے میں کامیاب رہی ؟
جواب :پی ڈی پی بھارتیہ جنتاپارٹی کے ساتھ الائنس میں تین سالہ حکومت کے دوران کتنی کامیاب رہی، اس کا فیصلہ عوام ہی کرے گی۔‘ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ خود لوگوں کو خود احساس ہوگا اور موازنہ کیاجائے کہ ہم نے کیا اچھا کیا اور کیا نہیں کیا۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ اچھے سے اچھا کام کیاجائے، کوئی بھی حکومت نااہلی، ناکامی کا داغ لیکر نہیں جانا چاہتی ۔ پی ڈی پی نے بھی اپنی صلاحیت، قابلیت کے لحاظ سے محنت کی، کافی کام کئے، تاریخی کام ہوئے، تعمیر وترقی کا عمل تیز ہوا۔ انتظامی وحکومتی سطح پر شفافیت وجوابدہی ہوئی۔ اب یہاں پرچونکہ امن وقانون کی صورتحال زیادہ موضوع بحث رہتی ہے، اس لئے لوگوں کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ آہستہ آہستہ عوام کو خود سب کچھ پتہ چلے گا ، کیا کچھ ہوا۔
سوال:جموں وکشمیر سٹیٹ وومن کمیشن کتنی بااختیار ہے اور یہ خواتین کے مسائل کو حل کرنے میں کتناموثرثابت ہوئی ہے ؟
جواب:کوئی بھی ادارہ یوں ہی قائم نہیں کر دیاجاتا۔ اس کے لئے مکمل مشق ہوتی ہے اور اس کے قیام کا ایک بڑا مقصدہوتاہے۔ خواتین کمیشن کو بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں، لیکن سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس عہدہ پر کون بیٹھا ہے اور وہ اپنے اختیارات سے کتنا واقف ہے۔ میری رائے میں خواتین کمیشن عورتوں کے مسائل کا ازالہ کرنے میں بہت کچھ کر سکتی ہے بشرطیکہ کے اس کی سربراہی کرنے والا، مخلص ہو اور کچھ کرنا چاہتا ہوں۔مجھے بھی خواتین کمیشن چیئرپرسن کا عہدہ دیاگیاتھاکہ بدقسمتی سے حکومت چلی گئی، چونکہ یہ سیاسی پوسٹ ہے، اخلاقی طور یہ درست نہیں تھاکہ گورنر رول کے دوران میں اس عہدہ کو سنبھالوں۔اختیارات سے واقف ہونا اور ان کا استعمال کرنا زیادہ اہم ہے۔
سوال:نوجوان لڑکیوں اور طلاب کے لئے آپ کا پیغام؟
جواب:خواتین خاص طور سے یونیورسٹی اور کالج وتعلیمی اداروں کی طلا ب سے میرا یہ پیغام رہے گاکہ وہ سماجی، تعلیمی، اقتصادی امور پر مکمل طور بیدار ہوں۔ حالات وواقعات بارے انہیں معمول ہو، اور اس کے مطابق اپنا مثبت رول ادا کریں۔ تعلیم کا مطلب صرف سکولی کتابیں پڑھنا نہیں بلکہ اپنے آس پاس ہورہے اچھے برے کی تمیز کرنا، اس کو درست کرنا آنا چاہئے۔ نوجوان لڑکیوں کو چاہئے کہ وہ دورانِ طالبعلمی سے ہی ملک وقوم کی تعمیر وترقی کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں۔ اپنے حقوق وفرائض کو اچھی طرح سمجھیں اور ان کی موثرحصولی و استعمال کو یقینی بنائیں۔