میر واعظ محمد فاروق اور عبدالغنی لون کی برسی کشمیر میں مکمل ہڑتال، عیدگاہ میں جلسے کی اجازت نہیں دی گئی

یو ا ین آئی
سری نگر // وادی کشمیر میں پیر کے روز مرحوم میر واعظ مولوی محمد فاروق اور مرحوم عبدالغنی لون کی برسیوں کے موقع پر مکمل ہڑتال سے معمول کی زندگی بری طرح متاثر رہی۔ ہڑتال کی اپیل علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میر واعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے کی تھی۔ انہوں نے دونوں حریت رہنماو¿ں کی برسیوں کے موقع پر آج سری نگر کے تاریخی عیدگاہ کے مزارشہداءپر فاتحہ خوانی کی تقریب اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے وہاں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ تاہم کشمیر انتظامیہ نے سری نگر کے پائین شہر میں ہفتہ کے روز سے عائد پابندیوں میں مزید سخت لائی اور بیشتر علیحدگی پسند راہنماو¿ں کی آزادانہ نقل وحرکت پر روک جاری رکھتے ہوئے علیحدگی پسند قیادت کی طرف مشتہر کردہ پروگرام کو ناکام بنادیا۔ علیحدگی پسند قیادت نے اپنے مشتہر کردہ پروگرام میں کشمیری عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ 21مئی کو مزار شہداءعیدگاہ سری نگر کے جلسہ خراج عقیدت کو کامیاب بنانے کے لئے اس روز مزار شہداءکا رخ کریں ۔ انہوں نے کہا تھا کہ 21مئی کو پوری قوم اس سال یہ دن یوم تجدید عہد کے طور پر منائے گی اور اس دن شہدائے کشمیر اور ان کے عظیم مشن کو پایہ تکمیل تک لے جانے کے لئے تجدید عہد کیا جائے گا۔ اس دوران علیحدگی پسند قیادت کی طرف سے دی گئی ہڑتال اور ’عید گاہ چلو‘ کی کال کے پیش نظر وادی میں شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور جموں خطہ کے بانہال کے درمیان چلنے والی ریل خدمات پیر کو معطل رکھی گئیں۔ وادی کے بیشتر تعلیمی اداروں بشمول کالجوں اور یونیورسٹیوں میں درس وتدریس کا عمل معطل رہا جبکہ مختلف اداروں بشمول کشمیر یونیورسٹی اور اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے پیر کو لئے جانے والے امتحانات ملتوی کئے گئے۔ حریت کانفرنس (ع) چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ مرحوم میر واعظ مولوی محمد فاروق اور مرحوم عبدالغنی لون کی برسیوں پر نصف شہر میں سخت ترین کرفیو اور پابندیوں کا اطلاق عمل میں لایا گیا۔ مرحوم میرواعظ مولوی محمد فاروق کو 21 مئی 1990 ءکو نامعلوم بندوق برداروں نے اُن کی نگین رہائش گاہ میں قتل کیا تھاجبکہ مرحوم عبدالغنی لون کو 2002 ءمیں اُس وقت نامعلوم بندوق برداروں نے قتل کیا تھا جب وہ میرواعظ کی 12 ویں برسی کے موقع پر عیدگاہ سری نگر میں منعقدہ اجتماعی فاتحہ خوانی کی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد گھر لوٹ رہے تھے۔ مرحوم مولوی محمد فاروق حریت کانفرنس (ع) کے موجودہ چیئرمین میر واعظ مولوی عمر فاروق کے والد ہیں جبکہ مرحوم عبدالغنی لون ریاستی وزیر سجاد غنی لون اور علیحدگی پسند لیڈر بلال غنی لون کے والد ہیں۔ 21 مئی 1990 ءکو میرواعظ مولوی محمد فاروق کی ہلاکت کے بعد 50 سے زائد سوگوار اُس وقت جاں بحق ہوئے تھے جب سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) نے مبینہ طور پر گوجوارہ کے مقام پر میرواعظ کے جلوس جنازہ میں شامل لوگوں پر گولیاں برسائیں تھیں۔ مرحوم میرواعظ مولوی محمد فاروق کو وادی کشمیر میں ’شہید ملت‘ جبکہ مرحوم عبدالغنی لون کو ’شہید حریت‘ کے القاب سے جانا جاتا ہے۔ وادی کے مختلف حصوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق علیحدگی پسند قیادت کی اپیل پر پیر کو وادی بھر میں مکمل ہڑتال کی گئی جس کے دوران نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا۔ وادی کے تمام ضلع ، تحصیل و قصبہ ہیڈکوارٹروں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں معمول کا کام کاج متاثر رہا۔ کشمیر انتظامیہ نے دونوں حریت رہنماو¿ں کی برسیوں کے موقع پر ’مزار شہداءعیدگاہ چلو‘ پروگرام کو ناکام بنانے اور کسی بھی ممکنہ گڑ بڑ کو روکنے کے لئے سری نگر کے پائین شہر کے بیشتر علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیوں کا اطلاق مسلسل تیسرے دن بھی جاری رکھا۔ سیول لائنز کے مائسمہ اور کرالہ کھڈ پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں بھی پیر کے روز پابندیاں نافذ رکھی گئیں۔ اگرچہ ضلع مجسٹریٹ سری نگر کے احکامات کے مطابق امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے پائین شہر کے پانچ پولیس تھانوں نوہٹہ، صفا کدل، ایم آر گنج، خانیار اور رعناواری اور سیول لائنز کے دو پولیس تھانوں مائسمہ اور کرالہ کھڈ کے تحت آنے والے علاقوں میں پابندیاں نافذ رہیں ، تاہم زمینی صورتحال اس کے برخلاف تھی۔ اِن علاقوںکے رہائشیوں نے الزام لگایا کہ سیکورٹی فورسز انہیں اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی بھی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ پائین شہر کے پانچ پولیس تھانوں نوہٹہ، صفا کدل، ایم آر گنج، خانیار اور رعناواری میں کرفیو جیسی پابندیوں کا اطلاق اتوار کو مسلسل دوسرے دن بھی جاری رکھا گیا تھا۔ پابندیوں حریت کانفرنس (ع) چیئرمین میرواعظ کی قیادت والے جموں وکشمیر عوامی مجلس عمل کی طرف سے مرحوم میر واعظ محمد فاروق اور مرحوم لون کی برسیوں کے سلسلے میں تنظیم کے مرکزی دفتر میرواعظ منزل راجوری کدل سے اتوار کو نکالی جانے والی ریلی کو ناکام بنانے کے لئے جاری رکھی گئی تھیں۔ بتادیں کہ کشمیر انتظامیہ نے ہفتہ کے روز سری نگر کے پائین شہر سمیت 7 پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ ، علیحدگی پسند قائدین کو تھانہ یا خانہ نظر بند اور انٹرنیٹ خدمات کو جزوی طور پر معطل کرکے کشمیری علیحدگی پسند قیادت کی طرف سے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ جموں وکشمیر کے خلاف دی گئی ’لالچوک چلو‘ کی کال ناکام بنادی۔ تاہم علیحدگی پسند قیادت کی اپیل پر ہفتہ کے روز وادی کے بیشتر علاقوں میں مکمل ہڑتال کی گئی تھی۔ پیر کے روز پابندیوں کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے بلٹ پروف جیکٹ پہنے اور خودکار ہتھیاروں اور لاٹھیوں سے لیس سینکڑوں ریاستی پولیس اور سیکورٹی فورس اہلکاروں کو پائین شہر کے تمام حساس مقامات پر تعینات کیا گیا تھا۔ مزار شہداءعیدگاہ کے اردگرد سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد تعینات کردی گئی تھی ۔ یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے پیر کی صبح مزار شہداءعیدگاہ کے علاقہ کا دورہ کیا، نے بتایا کہ اگرچہ عیدگاہ کے راستے شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو جانے والی سڑک کو کھلا رکھا گیا تھا، تاہم اس پر صرف اسپتال جانے والے افراد کو ہی نقل وحرکت کی اجازت دی جارہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ کسی بھی شخص یہاں تک کہ میڈیا کے اہلکاروں کو بھی حریت راہنماو¿ں کے مراقد کے پاس جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ تمام راستوں بشمول نالہ مار روڑ کو خانیار سے لیکر چھتہ بل تک خاردار تار بچھاکر ٹریفک کی آمد ورفت کے لئے بند کردیا گیا تھا۔ نالہ مار روڑ کے دونوں اطراف رہائش پزیر لوگوں نے الزام لگایا کہ انہیں اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایسی ہی پابندیاں پائین شہر کے نوہٹہ میں بھی عائد کی گئی تھیں جہاں تاریخی جامع مسجد کے اردگرد سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رہی۔ خانیار، گوجوارہ ، صفا کدل، رعناواری اور پائین شہر کے دوسرے علاقوں میں بھی ایسی ہی صورتحال نظر آئی۔ صفا کدل میں تعینات سیکورٹی فورسز کے ایک گروپ نے یو این آئی کے نامہ نگار کو بتایا ’ہمیں ہدایات ملی ہیں کہ کسی بھی شہری کو عیدگاہ کی طرف جانے کی اجازت نہیں دینی ہے‘۔ پابندی والے علاقوں کے رہائشیوں نے الزام عائد کیا کہ مضافات سے آنے والے دودھ اور سبزی فروشوں کو اِن علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ادھر سیول لائنز میں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے گڑھ مانے جانے والے مائسمہ کی طرف جانے والے بیشتر راستوں کو خاردار تار سے سیل رکھا گیا تھا۔ مائسمہ میں امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے سیکورٹی فورسزکی بھاری جمعیت تعینات رہی۔ اس دوران وادی بشمول گرمائی دارالحکومت سری نگر میں علیحدگی پسند قیادت کی اپیل پر مکمل ہڑتال کی گئی ۔ سری نگر کے جن علاقوں کو پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا، میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ اور اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی گاڑیاں سڑکوں سے غائب رہیں۔ تاہم سیول لائنز اور بالائی شہر میں اکادکا نجی گاڑیاں سڑکوں پر چلتی ہوئی نظر آئیں۔ سرکاری دفاتر، بینک اور تعلیمی اداروں میں معمول کا کام کاج بری طرح متاثر رہا۔ شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر کے تمام قصبوں اور دیگر تحصیل ہیڈکوارٹروں میں ہڑتال کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر کے تمام قصبوں اور دیگر تحصیل ہیڈکوارٹروں میںدکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کی آمد ورفت معطل رہی۔ سوپور اور شمالی کشمیر میں پتھراو¿ کے کسی بھی واقعہ سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کردی گئی تھی۔ جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کشمیر کے قصبوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں میں ہڑتال کی وجہ سے کاروباری اور دیگر سرگرمیاں مفلوج رہیں۔ وادی کشمیر کے دوسرے حصوں بشمول وسطی کشمیر کے گاندربل اور بڈگام اضلاع سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اِن اضلاع میں بھی مکمل ہڑتال کی گئی۔ دریں اثنا حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہوں سید علی گیلانی و میرواعظ عمر فاروق کو مزار شہداءعیدگاہ میں منعقد ہونے والی فاتحہ خوانی کی تقریب اور جلسے میں شرکت کرنے سے روکنے کے لئے نظربند رکھا گیا۔ دوسری جانب حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی کو مسلسل اپنی حیدرپورہ رہائش گاہ میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو گذشتہ پانچ روز سے پولیس تھانہ کوٹھی باغ میں مقید رکھا گیا ہے۔ اس دوران علیحدگی پسند قیادت کی طرف سے دی گئی ہڑتال اور ’عید گاہ چلو‘ کی کال کے پیش نظر وادی میں شمالی کشمیر کے بارہمولہ اور جموں خطہ کے بانہال کے درمیان چلنے والی ریل خدمات پیر کو معطل رکھی گئیں۔ محکمہ ریلوے کا کہنا ہے کہ یہ خدمات سیکورٹی وجوہات کی بناءپر ایک دن کے لئے معطل رکھی گئی ہیں۔ محکمہ ریلوے کے ایک عہدیدار نے یو این آئی کو بتایا ’ہم نے آج (پیر کے روز) چلنے والی تمام ریل گاڑیاں معطل کردی ہیں‘۔ انہوں نے بتایا کہ سری نگر سے براستہ جنوبی کشمیر جموں خطہ کے بانہال تک کوئی ریل گاڑی نہیں چلے گی۔ اسی طرح سری نگر اور بارہمولہ کے درمیان بھی کوئی ریل گاڑی نہیں چلے گی۔ مذکورہ عہدیدار نے بتایا ’ہمیں گذشتہ شام ریاستی پولیس کی طرف سے ایک ایڈوائزری موصول ہوئی جس میں ریل خدمات کو احتیاطی طور پر معطل رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ ہم نے اس ایڈوائزری پر عمل درآمد کرتے ہوئے ریل خدمات کو دن بھر کے لئے معطل رکھنے کا فیصلہ لیا‘۔ انہوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ ریل گاڑیوں کے ذریعے سفر کرنے والے مسافروں اور ریلوے املاک کو نقصان سے بچانے کے لئے اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ماضی میں احتجاجی مظاہروں کے دوران ریلوے املاک کو بڑے پیمانے کا نقصان پہنچایا گیا۔