سنگین جرائم میںاطفال انصاف قانون کے تحت عمر کی حدگھٹاکر16سال کرنے سے متعلق مفاد عامہ عرضی

سنگین جرائم میںاطفال انصاف قانون کے تحت عمر کی حدگھٹاکر16سال کرنے سے متعلق مفاد عامہ عرضی
عدالت عالیہ کے ڈویژن بنچ کی ریاستی سرکار کو ہدایت
ملکی وریاستی سطح پر پیداشدہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں 3ماہ کے اندر مرکزکی طرز پرقانون میں ترمیم پرغور کیاجائے”
جموں//جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے ایک اہم فیصلہ میںجموں وکشمیر سرکار سے کہا ہے ریاستی سطح پر 16سے 18سال کی عمر کے بچوں کے سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث ہونے سے پیداشدہ صورتحال کے تناظر میں ’Juvenile Justice (Care and Protection of Children) Act, 2015‘کی طرز پرجموں وکشمیراطفال انصاف قانون 2013میں بھی ترمیم پرغورکیا جائے۔جسٹس آلوک ارادھے اور جسٹس جنک راج کوتوال پر مشتمل ڈویژن بنچ نے یہ ہدایت مفاد عامہ عرضی 42/2013فاروق خان بنام سرکاربذریعہ کمشنر سیکریٹری محکمہ قانون پر حتمی فیصلہ صادر کرتے ہوئے جاری کیں۔بنچ نے کہاکہ اگر چہ عدالت اس کی مجاز نہیں کہ وہ قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ یا ریاستی قانون سازیہ کو ڈائریکشن دے سکے البتہ موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور سال 2015کو ’نربھاو¿ عصمت دری اور قتل کیس ‘کے بعد مرکز نے اطفال انصاف قانون میں جوترمیم لائی ہے، اسی کی طرز پر جموں وکشمیر کے انصاف اطفال قانون میں ترمیم لائی جائے۔بنچ نے کہاکہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ 16سے18سال کی عمر کے لڑکے عصمت ریزی، قتل، اغواکاری، منشیات اسمگلنگ اور دیگر سماجی جرائم میں ملوث پائے جارہے ہیں جس سے سماج کے اندر غیر معمولی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ نربھاو¿ کیس کے بعد مرکزی سرکار کو مجبوراًقانون میں ترمیم کرنی پڑی ، پورے ملک میں ماسوائے جموں وکشمیر ریاست کہ اطفال انصاف ترمیمی قانون نافذ العمل ہے ۔مفاد عامہ عرضی میں مدعی کی طرف سے پیش ہوئے سنیئر وکیل ایڈووکیٹ سنیل سیٹھی نے بحث کے دوران اپنی دلائل عدالت کے سامنے رکھتے ہوئے کہاکہ15سے18سال کی عمر زندگی کاCrucial stageہے، اکثر دیکھاگیا ہے کہ اس عمر کے لڑکے سنگین نوعیت کے جرائم میں بھی ملوث پائے جارہے ہیں جس سے ریاست کے اندر غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ منشیات اسمگلنگ میں اس عمر بچے ملوث پائے جارہے ہیں، قتل، عصمت ریزی کے بھی ایسے معاملات سامنے آرہے ہیں،ایسی صورتحال میں Justice Juvenile Actکافائیدہ اُٹھاکریہ بچے بچ جاتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اطفال انصاف قانون کا کئی جگہ غلط استعمال ہورہاہے، اس سے 15سے18سال کی عمر کے بچوں میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے جس پر قابوپانے کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ پہلے جب اطفال انصاف قانون بناتو اس وقت 18سال تک کی عمر رکھنا ٹھیک تومگر موجودہ حالات تھوڑے مختلف ہیں۔انہوں نے ڈویژن بنچ سے استدعا کی کہ ریاستی سرکار کو ڈائریکشن جانی چاہئے کہ مرکز کی طرز پر یہاں بھی ترمیم لائی جائے اورتاکہ نوجوان نسل جرائم کی دلدل میں پھنسے سے بچ سکے۔سرکاری کی طرف سے پیش ہوئے سنیئر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل حسین احمد صدیقی نے کہاکہ ان کے فاضل دوست نے دورانِ دلائل جونکات اُبھارے ہیں، ان سے وہ بھی اتفاق رکھتے ہیں، واقعی ایسے حالات بنے ہیں جہاں عمر کی حد گھٹانے پر غور کیاجاسکتا ہے، ترمیم لائی جاسکتی ہے لیکن آئین وقانون کے تحت ایسا کوئی ضابطہ نہیں کہ عدالت قانون سازی امور پر حکومت کو ڈائریکشن جاری کرے یاقانون سازی کے لئےCompellکیاجائے ، البتہ اگرعدالت زیر سماعت مفاد عامہ عرضی میں اپنی کوئی Observationsیا ڈائریکشن دیتی ہے تو یقینااس پر حکومت موجودہ حالات واقعات، قانونی پیچیدگیاں، قواعد وضوابط وغیرہ کو مدنظر رکھ کر اس پر غور کرسکتی ہے۔ حسین احمد صدیقی نے مزید کہاکہ ”ریاستی عوام کے وسیع ترمفادات اور سماج کی بہتری کی خاطر جوبھی بہترہوگا، حکومت وہ کرنے سے کبھی حرج نہ کرے گی“۔جسٹس آلوک ارادھے اور جسٹس جنک راج کوتوال پر مبنی ڈویژن بنچ نے دونوں کی دلائل سننے کے بعد ریاستی سرکار سے کہاکہ تین ماہ کے اندر اطفال انصاف قانون کے تحت سنگین نوعیت کے جرائم میںملوث بچوں کی عمر18سے گھٹاکر 16سا ل کی جائے۔مفاد عامہ عرضی میں مدعی نے جموں وکشمیر اطفال انصاف (دیکھ بھال اور حفاظت)قانون2013(Act. No VII/2013)بتاریخ24اپریل2013کی سیکشن 2(m), 2 (n)کے تحت عمر کی حد16سال کرنے اورسنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث بچوں سے متعلق مقدمات کی زمرہ بندی اور درجہ بند ی کی استدعا کی تھی۔یاد رہے کہ مرکزی کے Juvenile Justice Amednment Act 2015کے تحت جرائم کو تین زمروں میں تقسیم کیا ہے جن میں معمولی نوعیت کے جرائم، سنگین جرائم اورگھناو¿نے جرائم ہیں۔غورطلب ہے کہ جموں وکشمیر اطفال انصاف قانون 2013کے تحت 18سال کی عمر تک کوئی بھی سنگین سے سنگین جرم کرے اس کو اعلیحدہ سے اطفال خانہ میں رکھاجاتاہے، اس کو زیادہ سے زیادہ سزا3سال ہے اور اس کو ضمانت پر رہاکیاجاسکتا ہے۔