مسلمانا ن جموں اور مسلم وکلاءکی ذمہ داریاں!

مسلمانا ن جموں اور مسلم وکلاءکی ذمہ داریاں

پچھلے ایک ہفتہ کے اندر جموں وکشمیر ریاست میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے نہ صرف ریاست بلکہ پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ۔11جنوری2018کو ضلع کٹھوعہ کی تحصیل ہیرا نگر کے گاو¿ ں رسانہ میں آٹھ سالہ معصوم بچی کا اغوا، عصمت ریزی اور بہیمانہ قتل کی گونج اقوام متحدہ تک سنائی دی۔معصوم بچی کی سسکیوں اور چیخ وپکار نے جہاں پوری انسانیت کو شرمسار کیا وہیں بہت سارے لوگوں کو ننگا بھی کردیا۔10اپریل کو کرائم برانچ کی طرف سے کٹھوعہ میں رسانہ معاملہ پر چالان پیش کرتے وقت وکلاءکا مبینہ احتجاج،11اپریل کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کی طر ف سے رسانہ معاملہ کی سی بی آئی انکوائری، روہنگیا کو جموں بد کرنے، قبائلی آبادی سے متعلق Minutes of Meetingکی منسوخی وغیرہ پر دی گئی ’بند کال‘ ،مسلم وکلاءکا مکمل طور بند کال اور بار ایسو سی ایشن کی ہڑتال کا بائیکاٹ ،نیشنل الیکٹرانک میڈیا میں عصمت ریزی کرنے والوں کی حمایت کرنے پر شائع خبریں، بحث ومباحثے، بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی ہندوایکتا منچ کے بینر تلے احتجاج ، کرائم برانچ چالان میں کئے گئے سنسنی خیز انکشافات،وزیر اعظم نریندر مودی کی رسانہ معاملہ پر لب کشائی، جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن صدر بی ایس سلاتھیہ سے متعلق کانگریس لیڈر اور راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد کا بیان، ہندو ایکتا منچ ریلی میں شمولیت کرنے پر وزیر جنگلات چوہدری لال سنگھ اور صنعت وحرفت کے وزیر چندرپرکاش گنگاکا مستعفی ہونا، رسانہ معاملہ پر اقوام متحدہ کا بیان، جموں اورکٹھوعہ کے وکلاءکے رویہ پر بارکونسل کی پانچ رکنی ٹیم کا20اپریل کو جموں دورہ، جموں وکشمیر ریاست کے اطراف واکناف کے ساتھ ساتھ ملک بھر اور عالمی سطح پر رسانہ معاملہ کی مذمت اور آٹھ سالہ متاثرہ کے مجرموں کو سزا دینے کے لئے کینڈل مارچ اور اظہار یکجہتی جیسے معاملات ایک ہفتہ کے دوران چھائے رہے۔ ریاست وملکی سطح کی پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں رسانہ قتل معاملہ چھایارہا جس پر کئی لوگوں کی تذلیل بھی ہوئی تو کئی نے واہ واہ بھی بٹوری۔ اس دوران رسانہ معاملہ کے تئیں جموں اور کٹھوعہ کے وکلاءکا موقف سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بناجس پر عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس لیا، بار کونسل آف انڈیا ، نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی اس پر اپنی تشویش ظاہر کی۔ جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن جموں میں 2500کے قریب وکلاءہیں، جن میں کم وبیش 650کے قریب مسلم وکلاءبھی ممبرہیں اور ہائی کورٹ جموں ونگ اور ماتحت عدلیہ میں وکالت کرتے ہیں، یہ مسلم وکلاءنہ صرف بار ایسو سی ایشن کے انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ایسو سی ایشن کی طرف سے صوبہ جموں سے متعلق آئے دن کئی معاملات پر دی جانے والی ہڑتال، بند کال میں مسلم وکلاءپیش پیش رہے ہیں اور ایسو سی ایشن کے پروگراموں کو کامیاب بنانے میں ہمیشہ اہم رول ادا کیاہے لیکن پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ4اپریل2018کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کی طرف سے رسانہ واقعہ کی سی بی آئی انکوائری، روہنگیا کو جموں بدر کرنے، قبائلی آبادی سے متعلق Minutes of meetingکی منسوخی اورنوشہرہ، کالاکوٹ وسندربنی کے لوگوں کے مطالبات کے حق میں دی گئی ہڑتال کال کاماسوائے دو وکلاءکے سبھی مسلم وکلاءنے مکمل بائیکاٹ کیا۔ بار کے احتجاج، جنرل ہاو¿س میٹنگ اور بند کال کے دوران نکالی گئی ریلیوں میں کوئی بھی مسلم وکلاءنظر نہیں آئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جموں بار جن بیشتر مطالبات کو لیکر ہڑتال کال شروع کی وہ خالص مسلم طبقہ کو نشانہ بناکر کئے گئے تھے۔ہائی کورٹ کے سنیئروکیل شیخ شکیل احمد نے اس حوالہ سے ذرائع ابلاغ سے بات کر کے پورا موقف واضح کیا۔
میں یہاں اس بات کا بھی ذکر کرتاچلوں کہ جموں بار کے اندر سینکڑوں کی تعداد میں ایسے وکلاءہیں جوسیکولرکردار کے مالک ہیں، جنہوں نے اپنے قول وفعل سے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ وہ آپسی بھائی چارہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بنائے رکھا ہے۔جموں ہائی کورٹ اور ضلع کورٹ کمپلیکس میں وکالت کرنے والے غیر مسلم وکلاءمیں ایسے ایسے چمکدارستارے ہیں جن کی عظمت کو سلام کرنے کو جی کرتا ہے۔بظاہر ہائی کورٹ اور ضلع کورٹ کمپلیکس میں کام کرنے کا ماحول بہت ہی دوستانہ ہے۔ ہمیشہ ایکدوسرے سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے لیکن جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کی جوSpiritہے ، اس کا ایجنڈہ سیکولر نہیں،بار ایسو سی ایشن کے جو بھی عہدادران منتخب ہوتے ہیں، انہیں مجبوراًاس Spiritاور ایجنڈہ کے عین مطابق قولاًفعلاًکام کرنا پڑتاہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ Office Bearersکوریموٹ کنٹرول کسی باہر والے کے ہاتھ میں ہے، کہ اسی کے اشاروں پر کام ہوتا ہے۔جنرل ہاو¿س میٹنگ ہو یا پھر ایگزیکٹیو میٹنگ پہلے ہی طے شدہ پروگرام کو سامنے رکھاجاتاہے اور ممبران سے ہاں کہلوائی جاتی ہے۔بار کی رواں احتجاج کا بھی نہ صرف مسلم بلکہ بڑی تعداد میں ہندو، سکھ اور عیسائی طبقہ کے وکلاءحضرات نے بھی ساتھ نہ دیا ہے اور وہ بار کے اس پروگرام سے خوش نہ تھے۔ بار ہا مواقعوں پر انہوں نے اس کا اظہار بھی کیاجن کا ماننا ہے کہ جموں بار ایسو سی ایشن جس کو جموں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم اور Pressure Groupماناجاتا ہے، نے ایسے معاملات پر طویل احتجاج کی کال دیکراپنی اعتباریت، اعتمادیت اور اہمیت کو کمزور کر دیا ہے۔پچھلے ایک برس سے بار نے خاص طور سے مسلمانوں کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے جس میں چاہئے مسلم وکلاءکو تنگ کرنا ہویا دیگر معاملات پر ان کے خلاف بیان بازی ہو۔
یہ پہلی مرتبہ ہی نہیں ہوا کہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن یاجموں کی دیگر سیاسی وسماجی تنظیموں نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہو، اس سے قبل بھی کئی مواقعوں پرانفرادی اور اجتماعی طور پر مسلمانوں کے جذبات کو اُکسانے کی کوشش کی گئی مگرمسلمانوں کی طرف سے چاہئے وہ سیاستدان ہوں، وکلاءہویا دیگر سماجی شخصیات انہوں نے ہمیشہ صبروتحمل اور دانشمندی کا مظاہرہ کر کے کوئی ایسا رد عمل ظاہر نہ کیا جس سے حالات خراب ہوں بلکہ ہمیشہ مثبت رویہ اختیار کیا۔اگر یہ دعویٰ کیاجاتاہے جموں سیکولر ہے تواس کا سب سے بڑا کریڈٹ جموں کے مسلمانوں کو جاتاہے جنہوں نے ہمیشہ آپسی بھائی چارہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مذہبی رواداری کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے۔جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن جوکہ سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، اس کا کریڈٹ بھی مسلمانوں کو زیادہ جاتاہے، وگرنہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچنے، ناشائستہ الفاظ کا استعمال اور تنگ نظری کا ثبوت بار ہا دیاگیاہے۔بار کی جنرل ہاو¿س میٹنگ ہو یا ایگزیکٹیو میٹنگ ، کبھی بھی مسلم وکلاءکو کھل کر اپنی بات رکھنے یا رائے کا اظہار کرنے کا موقع نہیں دیاجاتا اور نہ ہی کبھی ان کی بات کو کوئی اہمیت دی جاتی۔ صرف انہیں چندلوگوں کو بولنے دیاجاتاہے جوکہ بار عہدادران کی منشاءومرضی کے مطابق ان ہی کی بات کہیں۔مسلم وکلاءسے توقع کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بار ایسو سی ایشن کی تقریبات، پروگراموں کا حصہ بنیں لیکن صرف خاموش تماشائی کی طرح، صرف وہی سنیں، جووہ چاہئیں، وہیں کریں جووہ کرانا چاہئے۔رواں احتجاج کے دوران جنہوں نے جنرل ہاو¿س میٹنگ، احتجاج یا پھر پریس کانفرنس کے دوران ان کا ساتھ دیا، ان کی بھی کس طرح کی تذلیل اور رسوائی ہوئی، وہ بھی سب کے سامنے عیاں ہے۔ بار ایسو سی ایشن عہدادران کی طرف سے مرکزی وریاستی حکمرانوں ودیگرسطح پر دیئے جانے والے میمورنڈم کو آپ دیکھیں تو معلوم ہوجائے گاکہ یہ بار عملی طور کتنی سیکولر ہے۔
ہمیشہ سے جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن میں مسلم وکلاءکو تقسیم کرنے کیلئے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور سازشیں رچیں گئیں، انہیں پہاڑی، گوجر، کشمیری کے نام پر تقسیم کیاگیا تو کبھی ڈوگرہ مسلم کے نام پر۔خیر یہ ایک لمبی چوڑی بات ہے جس میں نہ ہی جایاجائے تو بہتر ہے۔ جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو ہمیشہ سے مسلم وکلاءکو تقسیم کرنے کے لئے پس پردہ منصوبے بنتے ہیں۔ بار کے مسلم وکلاءپر زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے، ان کو طرح طرح سے بانٹنے کے حربے استعمال ہوتے ہیں۔منافق تو ہرجگہ موجود ہوتے ہیں، یہی وجہ رہی ہے کہ سازشیں اور منصوبے کامیاب بھی ہوتے رہے۔پہلی مرتبہ جموں میں وکالت کر رہے ، مسلم وکلاءنے پرامن طور بغیر کسی سے کچھ کہے، احتجاج سے کنارہ کشی کی تو ان پر فرقہ پرست ہونے، فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کے الزامات لگائے گئے۔ انہیں طرح طرح کی گالیاں دی گئیں۔ وللہ ایسے ایسے الفاظ استعمال کئے گئے کہ جن کا ذکر کرنا بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔حالانکہ مسلم وکلاءکے احتجاج میں شامل نہ ہونے سے خود وہ Exposeہوئے، ان کے سیکولر غبارہ سے ہوا نکل گئی۔
جموں صوبہ میں مجموعی طور دیکھاجائے تو مسلم قیادت کا فقدان ہے۔یہاں مسلمانوں کے جولیڈران ہیں وہ بھی ذات پات، رنگ ونسل، علاقہ اور پارٹی سیاست تک محدود ہیں۔مسلمانوں کے جائز مطالبات، ان کے جائز مسائل ومشکلات،ان کے ساتھ ہورہی نا انصافیوں، ظلم وستم، حق تلفی کی آواز اُٹھانے والا کوئی نہیں۔ جموں میں کوئی مسلم لیڈر نہیں جوکٹھوعہ، سانبہ، جموں، اودھم پور، ریاسی، کشتواڑ، ڈوڈہ، رام بن، راجوری اور پونچھ کے اطراف واکناف میں رہنے والے مسلمانوں کی سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور معاشی بااختیاری کے لئے آواز بلند کرے۔مسلم سیاسی قیادت کے فقدان کے بیچ مسلم وکلاءکی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آپس میں ذات پات، رنگ ونسل، علاقہ اور پارٹی سیاست کی زنجیروں سے نکل کر متحد ہوں اور طبقہ کے جائز مطالبات کے حق میں آواز بلند کریں۔ مظلوم ومحکوم مسلمانوں کی آواز بنیں۔وکلاءجنہیں سماج میں اعلیٰ رتبہ حاصل ہے اور وہ باشعور اور باوقار شہری تصور کئے جاتے ہیں، کے کندھوں پر ذمہ داریاں بھی اتنی ہیں، زیادہ ہیں کہ وہ اپنی قوم کے تئیں ان ذمہ داریوں کو نبھائیں۔وکیل کا کام صرف عدالتوں میں پیسوں کے عوض لوگوں کے مقدمات کی پیروی ہی کرنا نہیں۔ بلکہ سماج میں پائی جارہی برائیوں،لوگوں کے جائز مطالبات ومسائل کو اجاگر کرنے کی بھی ذمہ داری ہے۔آج تک ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن جموں کی طرف سے جومسلم مخالف کارروائیاں کی گئیں، اس میں ہماری خاموشی سے یہ تاثر دیاگیاکہ یہ سب ہمارے ساتھ ہیں، ہم نے آواز نہ اٹھاکر بھی اس گناہ میں شریک ہیں۔
یاد رہے کہ جموں صوبہ میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے علاوہ 37کے قریب ضلع اور مفصل بار ایسو سی ایشنن ہیں، جن کا اپنا آئین ہے۔ اپنے اپنے مسائل ہیں اور وہ متعلقہ علاقہ جات کے لوگوں کی ترجمان بھی ہیں۔انہیں37بار ایسو سی ایشنوں میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن بھی ایک اکائی ہے لیکن اکثر اس بار کے عہدادران یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پورے صوبہ جموں کے وکلاءکی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ صبح جموں سے متعلق مشترکہ مسائل ومطالبات پر جموں بار کی طرف سے جو آوازیں اٹھیں ، اس کی کئی بار حمایت ان ایسو سی ایشنوں نے کی لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ لینا کہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن پورے صوبہ جموں کی نمائندگی کرتی ہے، سفید جھوٹ ہے۔ بدقسمتی یہ رہی ہے کہ خطہ پیر پنچال اور وادی چناب ، ریاسی، اودھم پور اور دیگر اضلاع کی ایسو سی ایشنوں کی خاموشی کی وجہ سے ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے عہداادران خود کو سب کا ٹھیکیدار بناتے ہیں۔
آئے روز ریاستی وملکی سطح پر رونما ہونے والے حالات وواقعات ہمیں بار بار یہ انتباہ دے رہے ہیں کہ اپنی صفحوں میں اتحاد پیدا کرو¿ بصورت دیگر جس بڑے پیمانے پر آپ کے خلاف سازشیں اور منصوبے بن رہے ہیں، وہ آپ کے لئے ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اپنے جائز دفاع، جائز مطالبات کے حق میں آواز بلند کرنے کا حق تو ہمیں حاصل ہے۔ آئین اس کی ضمانت دیتا ہے۔ اس حوالہ سے کہیں سے بھی ، کسی بھی صورت میں کوئی پہل کرتا ہے تو ہمیں اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے خندہ پیشانی سے اس کا ذہن وقلب سے ساتھ دینا چاہئے۔ حوصلہ افزائی کرنی چائیے۔ چھوٹے چھوٹے معاملات پرایکدوسرے کی ٹانگ کھینچا، ن میں سے نکتہ نکالنے اورہر چیز کا کریڈٹ خود ہی لینے کی دوڑ سے ہمیں حاصل کچھ نہیں ہونے والا، یہ سب تک آج تک ہم کرتے ہی آئے ہیں، کیا حاصل کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔
صوبہ جموں کے مسلم وکلاءچاہئے وہ جموں، اکھنور، آر ایس پورہ، سانبہ، کٹھوعہ، مہانپور، بلاور، بنی، ہیرا نگر، بشناہ،اودھم پور، چنینی ، مجالتہ، رام نگر،ریاسی، کٹرہ، مہور،بھدرواہ، ڈوڈہ،گندوہ بھلیسہ، ٹھاٹھری،کشتواڑ،رام بن،بٹوت، بانہال، گول،اکھڑہال،راجوری، سندربنی، کالاکوٹ، نوشہرہ،تھنہ منڈی، بدھل، کوٹرنکہ،پونچھ، سرنکوٹ اور مینڈھرجہاں جہاں عدالتوں میں کام کرتے ہیں، آپس میں ذات پات، رنگ ونسل، علاقہ اور پارٹی سیاست سے اوپر اُٹھ کر متحد ہوں اور صوبہ جموں کے مسلمان جوکہ سال 1947سے لگاتار سازشوں کا شکار ہیں،ظلم وستم کا شکار ہیںکی آواز بنیں اور ان کے جائز مطالبات کے لئے آواز اُٹھائیں۔ایسا نہ کرنے سے نہ صرف پہاڑی، گوجر، کشمیری، ڈوگرہ مسلم وغیرہ کی لڑائی ختم ہوگی بلکہ اس سے ذات پات اور علاقہ کے نام پر ہونے والی سیاست کا بھی خاتمہ ہوگا۔ہمارا آپس میں اتحاد ہی ان کی ناکامی، کمزوری اور جھوٹے دعوں کی پول کھولنے کی ضامن ہے۔ ایک ایسی صورتحال اب پیدا ہوگئی ہے کہ مسلم وکلاءکو متحدہوناہوکر اپنی اہمیت ، حیثیت اور وجود کا احساس دلانا ہوگابصورت دیگر ہمارا اس وقت خاموش تماشائی اور ووٹ بینک اتنا جورول ہے وہ یکے بعد دیگر انفرادی اور اجتماعی طور پر ہمیں باطل کی سازشوں کا شکار بناتاجائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ:کالم نویس صحافی اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]