نجی اداروں میںتعلیم کے نام پر تجارت

نجی اداروں میںتعلیم کے نام پر تجارت
غریب بچوں کومخصوص نشستوں پر داخلہ کیوں نہیں ملتا….؟
الطاف حسین جنجوعہ
تعلیم وتربیت پیغمبروں کا پیشہ ہے لیکن جموں وکشمیر ریاست میں اس وقت نجی تعلیمی اداروں نے لوٹ مارکا بازارگرم کررکھا ہے ۔بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری والدین کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے مفت معیاری تعلیم کی فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ کہنے کو تو حکمران یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ 14سال تک کی عمر تک کے ہر بچے اور بچی کو مفت تعلیم فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے حکومت اپنی اس اہم ترین ذمہ داری غافل ہے ۔ان دنوں صوبہ جموں کے گرمائی تعلیمی زون کے تحت آنے والے سرکاری ونجی اسکولوں میں سال برائے 2018-19کے لئے داخلہ کا سلسلہ جاری ہے۔نجی تعلیمی اداروں کی طرف سے ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کے ذریعہ داخلہ کے لئے طرح طرح کے اشتہارات دیئے جارہے ہیں جس میں بچوں کی ہمہ جہت شخصیت کو نکھارنے کے لئے بلند وبانگ دعوے کئے جارہے ہیں۔ حالانکہ بعد میں بیشتر یہ دعوے سیراب ہی ثابت ہوتے ہیں۔پرائیویٹ تعلیمی اداروںکی طرف سے داخلہ فیس، ماہانہ ٹیوشن فیس وغیرہ کا کوئی یکساں ڈھانچہ نہیں۔ہر ایک کے اپنے اپنے ریٹس ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ پرائیویٹ اسکولوں میں داخل ہونے والے بچوں کو اسکول سے ہی وردی، کتابیں، کاپیاں، جوتے، بیلٹ، ٹائی وغیرہ خریدنے پر مجبور کیاجارہاہے کیونکہ داخلہ کے لئے سب کچھ وہیں سے خریدنا اولین شرط ہے۔ضروری مضامین (انگریزی، اردویا ہندی، سوشل سائنس، سائنس ،ریاضی اور کمپیوٹر کے علاوہ ڈانس کلاسز، موسیقی، گلوکاری، کراٹے، کھیل کود(کرکٹ، والی بال، کبڈی، فٹ بال، ٹیبل ٹینس، بیڈ مینٹن، ٹینس، جوڈو) وغیرہ کی خصوصی ٹریننگ دینے کے نام پر اعلیحدہ سے پیسے طلب کئے جارہے ہیں۔سکول بس کرایہ کے علاوہ کچھ نجی اسکولوں میں صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانہ اورصاف پانی کی فراہمی پر بھی پیسے وصول کئے جارہے ہیں۔ جسمانی ورزش اور دیگر طرح طرح کے لوازمات کے نام پرہزاروں /لاکھوں روپے اینٹھے جارہے ہیں۔ تعلیم کی دلچسپ اور منفرد انداز میں تجارت کے اس سلسلہ سے غریب کی تو کمرٹوٹی ہی ہے، ساتھ ہی متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے بچوں کے والدین بھی پریشان حال ہیں۔ اس حوالہ سے کئی علاقوں سے شکایات بھی ہیں کہ حکومت اور انتظامیہ کا نجی اداروں پر کنٹرول نہیں۔صوبہ جموں کے کئی علاقوں سے ایسی شکایات موصول ہورہی ہیں۔جموں وکشمیر ریاست میں تمام نجی تعلیمی ادارے منڈیوں کا روپ دھار چکے ہیں جس ملک میں تعلیم جیسا مقدس شعبہ تجارت بن جائے وہ ملک پسماندگی کے کنویں میں گر جاتا ہے ۔ سرکاری اداروں کی بدترین کارکردگی کے باعث نجی سکولز،کالجز اوریونیورسٹیاں مختلف حیلوں بہانوں سے طلبا وطالبات کے والدین کی جیبیں خالی کرانے میں لگی ہوئی ہیں ،داخلہ فیس کے علاوہ ہرسال اپنی فیسیوں میں ازخود اضافہ کردیتی ہے مہنگائی کے دورمیں فیسیوں کے اضافے میں غریب والدین کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے ۔قواعد وضوابط کے مطابق نجی تعلیمی اداروں میں خط افلاس سے نیچے (BPL)گذربسر کرنے والے کنبوں کے بچوں کو مفت تعلیم دینے کے لئے چند نشستیں مخصوص رکھی گئی ہیں لیکن جموں وکشمیر ریاست میں شاہد ہی کوئی نجی تعلیمی ادارہ ایسا ہوگا جوا س پر عمل کرتاہے۔ آرمی کنوئنٹ اسکول ہوں، کریسچن مشینری اسکول ہوں یا دیگر پرائیویٹ ادارے کہیں بھی غریب بچوں کے لئے قانون کے تحت لازمی طور مخصوص نشستیں نہیں رکھی جارہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امیر اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراہستہ ہورہے ہیں تو غریب کا بچہ معیاری تعلیم کے زیور سے آراستہ ہورہاہے۔اگر جموں وکشمیر ریاست میں سبھی Private Institutionsاس پر عمل کریں تو غریب کا بچہ بھی اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر کل قوم کا ایک روشن ستارہ بن سکتا ہے۔نجی تعلیمی ادارے جن لوگوں نے قائم کئے ہیں، ان کے مالکان میں اراکین قانون سازیہ، بیروکریٹس، ماہرین تعلیم، سنیئرسیاستدان، سماجی شخصیات اور صنعتکار، بڑے بڑے تاجر ہیں، جن کے دباو¿ کی وجہ سے حکومت بھی گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔موجودہ وزیرتعلیم نے کچھ اقدامات اٹھائے جن پر پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن جموں نے فیس کے ڈھانچے اور دیگر مطالبات کو لیکر ہفتہ کو جموں میں ہڑتال بھی کی۔اس بارے وزیر تعلیم خزانہ اور محنت و روزگار کے وزیر سید محمد الطاف بخاری کا بیان خوش آئند ہے اور توقع ہے کہ اس پر عمل بھی ہوگا۔انہوں نے کہاکہ” پرائیویٹ اسکولوں میں فیس کے نام پر لوٹ کھسوٹ برداشت نہیں کی جائے گی، اسکول عبادتیں گاہیں ہیںتجارتی ادارے نہیں۔ جن اسکول مالکان کو موجودہ فیس ڈھانچے سے تکلیف ہے وہ اپنے اسکول بند کریں،میں بچوں کے مفاد میں بات کروں گا،میں آج تک ان کے ساتھ تہذیب اور مہذبانہ طریقے سے پیش آتا رہا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ شرافت کی زبان سمجھیں گے۔ کسی کو لوٹ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے فیس کمیٹی بنائی ہے، مذکورہ کمیٹی کی اجازت سے ہی فیس میں اضافہ ہوگا،جو من مانی کرے گا، اس کو برداشت نہیں کیا جائے گا، اسکول تجارتی ادارے نہیں ہیں جن کی بدولت آپ پیسے بناو¿ گے۔ یہ عبادتیں گاہیں جہاں ہم بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، بس فیس، وردی فیس، دوسری فیس اور تیسری فیس ۔ کیا بچوں کو لوٹنا ہے؟ ۔ضلع انتظامیہ کٹھوعہ نے بھی اس ضمن میں ایک فیصلہ لیا ہے جس کی عمل آوری سے تعلیم کے نام پر مالی استحصال کرنے والوں سے لوگ کافی حدتک بچ سکتے ہیں۔ ضلع مجسٹریٹ نے نجی اسکولوں سے وردی اور اسٹیشنری وکتابیں بچوں کو فروخت کرنے پردفعہ144نافذ کر دیا ہے۔ حکم نامہ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ کوئی بھی پرائیویٹ اسکول بچے کو اگلی کلاس میں پرموٹ کرنے کے لئے داخلہ فیس چارج نہیں کرسکتا۔یہ پابندیاں دو ماہ تک لگائی گئی ہیں۔ دوسرے اضلاع میں بھی ایسی ہی پابندیاں لگانے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ تعلیم کوکاروباربنانے والے مافیاکیخلاف کریک ڈاو¿ن شروع کرکے غریب والدین کو ریلیف فراہم کرے۔غریب شہری پرائیویٹ سکولز،کالجزاوریونیورسٹیوں کی غنڈہ گردی اوربھاری فیسیوں سے بچ سکیں۔سرکاری اسکولوںکی بدترین کارکردگی کے باعث نجی سکولز،کالجز اوریونیورسٹیاں مختلف حیلوں بہانوں سے طلبا وطالبات کے والدین کی جیبیں خالی کرانے میں لگی ہوئی ہیں ،داخلہ فیس کے علاوہ ہرسال اپنی فیسیوں میں ازخود اضافہ کردیتی ہے ۔مہنگائی کے دورمیں فیسیوں کے اضافے میں غریب والدین کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے ۔کاغذوں میں تو سرکاری اسکولوں میں ہرطرح کی سہولیات فراہم کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں لیکن عملی طور پرحکمرانوں کے دوہرے معیار کی وجہ سے سرکاری اسکولوںکا تعلیمی معیار بہتر نہیں پرائیویٹ تعلیمی ادارے موجود ہیں ان کے اخراجات بہت زیادہ ہیں ۔تعلیمی لوٹ کھسوٹ میں مصروف اکثرنجی تعلیمی ادارے سیاسی شخصیات ،مقتدرخاندانوں اورنوکرشاہی کی ملکیت ہیں جوغریب عوام کا خون چوس رہے ہیں لہذا حکومت ان کا بھی احتساب شروع کرے۔وزیر تعلیم الطاف بخاری کو چاہئے کہ انہوں نے اپنے بیان میں جن باتوں کا ذکر کیا ہے، اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس وقت بڑے پیمانے پر اقدامات کئے جائیں تاکہ استحصالی سلسلہ بند ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ:کالم نویس صحافی اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]